میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
معاشی اصلاحات پر عملدرآمد تیز کرنے کی ضرورت

معاشی اصلاحات پر عملدرآمد تیز کرنے کی ضرورت

منتظم
هفته, ۸ اپریل ۲۰۱۷

شیئر کریں


پاکستان اور عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے درمیان متحدہ عرب امارات کی ریاست دبئی میں ہونے والے مذاکرات گزشتہ روز ختم ہوگئے۔اس اجلاس کے حوالے سے ملنے والی خبروں کے مطابق آئی ایم ایف نے متنبہ کیا ہے کہ اس کی سابقہ پیش گوئیوں کے برعکس پاکستان رواں مالی سال اقتصادی ترقی کا ہدف حاصل نہیں کر پائے گا جبکہ حکومت کو معاشی اصلاحات پر عمل درآمد کے لیے کوششیںبھی تیز کرنا ہوں گی۔
پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان 3 سالہ قرض کی مدت ختم ہونے کے بعد پوسٹ پروگرام مانیٹرنگ مذاکرات 28 مارچ سے 5 اپریل تک دبئی میں جاری رہے۔ان مذاکرات میں پاکستانی وفد کی قیادت وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے کی۔ مذاکرات میں وزیر خزانہ کی بریفنگ اور ترقی کے حوالے سے پیش کئے گئے مختلف دعووں کے باوجود آئی ایم ایف نے متنبہ کیا کہ پاکستان رواں مالی سال کے دوران اقتصادی ترقی کا ہدف حاصل نہیں کر پائے گاتاہم رواں مالی سال اقتصادی ترقی کی شرح 5 فیصد تک پہنچنے کی توقع ہے۔آئی ایم ایف کے ماہرین نے خیال ظاہرکیاہے کہ رواں مالی سال کے دوران پاکستان کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 2.9 فیصد اور افراط زر کی شرح 4.3 فیصد رہنے کی توقع ہے۔آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ حکومت پاکستان کو معاشی اصلاحات پر عمل درآمد کے لیے کوششیں تیز کرنا ہوں گی کیوں کہ پاکستان کو بیرونی، مالیاتی اور توانائی کے شعبے میں چیلنجز درپیش ہیں۔
آئی ایم ایف کے ماہرین نے یہ تسلیم کیاکہ پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبے سے سرمایہ کاری اور توانائی کی فراہمی میںقدرے بہتری آئی ہے۔آئی ایم ایف کے ماہرین نے پاکستان کو تجویز دی کہ حکومت کو ٹیکس محصولات بڑھانے سمیت برآمدی شعبے کو بہتر کرنے کے لیے بھی اقدامات کرنے ہوں گے۔
سرکاری خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان (اے پی پی) کے مطابق دبئی میں آئی ایم ایف کے مشن چیف ہیرالڈ فنگر کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیرخزانہ اسحٰق ڈار نے کہا کہ مذاکرات کے دوران معیشت کے مختلف پہلوو¿ں پر غور کیا گیا۔وزیرخزانہ نے دعویٰ کیا کہ پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کی شرح نمو مسلسل تیسرے برس 4 فیصد سے اوپر کی سطح پر برقرار ہے۔اسحٰق ڈار نے کہا کہ سہولت رساں مانیٹری پالیسی کی وجہ سے اقتصادی ماحول میں میلان ہے جبکہ شرح سود 5.75 فیصد پر برقرار رکھی گئی ہے جوکہ کئی دہائیوں بعد کم ترین شرح ہے۔خیال رہے کہ وزیر اعظم نواز شریف نے رواں مالی سال کے لیے جرات مندانہ طور پر اقتصادی ترقی کا ہدف 5.7 فیصد مقرر کیا ہے جبکہ اس وقت شرح نمو 5 فیصد سے نیچے ہے، یہی وجہ ہے کہ آئی ایف نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان رواں مالی سال اقتصادی ترقی کا طے کردہ ہدف حاصل نہیں کرسکے گا۔یاد رہے کہ 4 ستمبر 2013 کو آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ نے توسیعی فنڈ سہولت کے تحت پاکستان کے لیے تقریباً 6.15 ارب ڈالر قرض کی منظوری دی تھی جس کی مدت 36 ماہ رکھی گئی تھی۔اس توسیعی فنڈ سہولت کا مقصد پاکستان کے معاشی اصلاحات کے پروگرام کو سہارا دینا تھا تاکہ وہ جامع نمو حاصل کرسکے۔اس سلسلے میں پاکستان کو پہلی قسط کے 54 کروڑ 45 لاکھ ڈالر 2013 میں ہی مل گئے تھے جب کہ اس کے بعد کی قسطیں وقتاً فوقتاً سہ ماہی جائزوں کی تکمیل کے بعد جاری کی جاتی رہیں۔گزشتہ برس اکتوبر میں عالمی مالیاتی فنڈ کی سربراہ کرسٹین لغراد نے پاکستان کا دورہ کیا تھا اور اس موقع پر انہوں نے کہا تھا کہ اب پاکستان معاشی بحران سے نکل چکا ہے جبکہ حکومت کا بھی دعویٰ یہی تھا کہ اب پاکستان کو آئی ایم ایف کی ضرورت نہیں رہی لیکن آئی ایم ایف کے ماہرین اور خود اسٹیٹ بینک پاکستان کی جانب سے جاری کی جانے والی رپورٹوں سے ظاہر ہوتاہے کہ صورت حال وہ نہیں ہے جو وزارت خزانہ عوام کو دکھا رہی ہے ، بلکہ درحقیقت ملک اب بھی شدید مالی بحران سے دوچار ہے اور ملک کے زرمبادلے کے ذخائر میں اضافے کے بجائے اس میں مسلسل کمی ریکارڈ کی جارہی ہے۔
پاکستان کو درپیش مالی بحران یا مشکلات کا اندازہ اس حقیقت سے لگایاجاسکتاہے کہ خود پاکستان کی وزارت خزانہ کی جانب سے منظر عام پر آنے والی دستاویز کے مطابق پاکستان پرغیر ملکی قرضوں کی ادائیگیوں کا بوجھ بڑھ گیا ہے جبکہ حکومت کو آئندہ سال جون تک ساڑھے 6 ارب ڈالر سے زیادہ غیر ملکی ادائیگیاں کرنا ہیں۔ اس دوران حکومت کو ملٹی لیٹرل قرضوں، دو طرفہ قرضوں، کمرشل قرضوں اور یورو بانڈ کی مد میںبھی ایک خطیر رقم واپس کرنا ہو گی جبکہ دستاویز کے مطابق رواں مالی سال کی پہلی ششماہی میں حکومت پہلے ہی 2½ ارب ڈالر کی ادائیگیاں کر چکی ہے جس کے باعث زرمبادلہ کیلئے خطرے کی گھنٹی بجنے لگی ہے اور ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر 24 ارب ڈالر سے گھٹ کر 21 ارب ڈالر کی سطح تک پہنچ گئے ہیں۔
وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار ،وزیر اعظم نواز شریف اور برسر اقتدار پارٹی کے ارکان دن رات ملکی ترقی اور خوشحالی کے بلند بانگ دعوے کرتے نہیں تھکتے۔ کبھی کشکول توڑنے کا اعلان کیا جاتا ہے اور کبھی یہ دعویٰ کیاجاتاہے کہ اب ملک کوآئی ایم ایف کی ضرورت نہیں رہی جبکہ وزارت خزانہ کی یہ سرکاری دستاویز ان تمام دعوؤں اور اعلانات کی نفی کرتی نظر آتی ہے،اوراس سے یہ ظاہرہوتاہے کہ صورت حال وہ نہیں جس کی عوام کو تصویر دکھائی جاتی ہے۔ اب تک کشکول ٹوٹا ہے نہ غیر ملکی قرضوں سے جان چھوٹ سکی ہے۔ ادھار کی معیشت پر ترقی اور خوشحالی کی حقیقت خوش فہمی اور دیوانے کے خواب سے زیادہ کچھ نہیں، اس حقیقت کا جتنی جلد ادراک کر لیا جائے، بہتر ہے۔ عوام کو بجا طو رپر انتظار ہے کہ حکمران مسلم لیگ ن کشکول توڑنے کا اپنا وعدہ کب پورا کرتی ہے۔
توقع کی جاتی ہے کہ ارباب اختیار اس صورتحال کاسنجیدگی سے نوٹس لیں گے اور عوام کو اعدادوشمار کے گورکھ دھندوں میں پھنسانے اور بلند بانگ دعووں کے ذریعے بہلانے کی کوشش کرنے کے بجائے صورتحال میں بہتری کی سعی پر توجہ دیں گے، معیشت کی بہتری کیلئے حکمرانوں کو خود اپنی عیاشیاں ترک کرنے پر توجہ دینا ہوگی ، اور سب سے پہلے ایوان وزیر اعظم ، ایوان صدر اور دوسری وزارتوں کے غیر تحریری اور غیر ضروری مصارف پر پابندی عاید کرنے پر توجہ دینا ہوگی،وزیر اعظم اور ان کے رفقا کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ وزرا اور ارکان اسمبلی کی تنخواہوں میں اضافہ کرکے ان کی خوشنودی حاصل کرنے اور اس ملک کے کم وسیلہ لوگوں کی اکثریت کو فاقہ کشی پر مجبور کرنے کی موجودہ روش حکمرانوں کو بہت مہنگی پڑ سکتی ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں