دنیا کو ایٹمی حملے کے ذریعے تباہ کرنے کا حکم کون دے گا؟
شیئر کریں
روس اور امریکا کے پاس جوہری ہتھیار دنیا بھر میں موجود ہتھیاروں کا 90 فیصد ہیں، ایک دوسرے کے شہروں کو کئی بار تباہ کیا جاسکتاہے
ایک مرتبہ ہتھیار لانچ کر دینے کے بعد فیصلہ واپس نہیں ہو سکتا لیکن ایٹمی ہتھیاروں کو اپنے نصب کردہ مقام میں ہی تباہ کیا جا سکتا ہے
تحریروتحقیق:۔ روتھ الیگزنڈر ،فرینک گارڈنر
واشنگٹن میں 20 جنوری کو ایک نامعلوم فوجی ساتھی کے ہمراہ بارک اوبامانے تمام صدارتی اختیارات ڈونلڈ ٹرمپ کو منتقل کر دیے تھے۔یہ فوجی اہلکار اپنے ساتھ ایک بریف کیس اٹھائے ہوئے تھا جو ’دی نیوکلیئر فٹ بال‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس کے اندر نمبروں پر مبنی ایک ہارڈ وئیرتھا جو تین انچ چوڑا اور پانچ انچ لمبا ہے اسے’’ بسکٹ ‘‘کہا جاتا ہے۔اس میں جوہری حملے لانچ کرنے سے متعلق کوڈز تھے۔ ان کو کس طرح سے استعمال کرنا ہے اس کے بارے میں تو نئے صدر کو ہدایات پہلے ہی دی جا چکی تھیں تاہم جس وقت ڈونلڈ ٹرمپ نے حلف اٹھالیا اس وقت یہ بریف کیس خاموشی سے ان کے فوجی ساتھی کو منتقل کر دیا گیا۔اس طرح اس کے بعد ہی ڈونلڈ ٹرمپ کو کسی بھی ایسے اقدام کے احکامات دینے کا مکمل اختیار حاصل ہوگیا ہے جس کا نتیجہ ایک گھنٹے کے اندر اندر لاکھوں لوگوں کی ہلاکت کی صورت میں بھی سامنے آ سکتا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ امریکا کے صدریعنی دنیا کے سب سے طاقتور شخص ہیں۔ ان کے مخالف اکثر یہ کہتے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے پاس صدر کے طور پر جو طاقت ہے اس کا کبھی بھی بے جا استعمال ہو سکتا ہے۔امریکا کے صدر ہونے کی وجہ سے وہ امریکی فوج کے سپریم کمانڈر ہیں۔ان کی اسی حیثیت کی وجہ سے ڈونلڈ ٹرمپ کو حلف برداری والے دن یعنی 20 جنوری کو پلاسٹک کا ایک کارڈ سونپا گیا تھا۔ یہ کوئی معمولی کارڈ نہیں تھا بلکہ یہ امریکا کے ایٹمی میزائلوں کو لانچ کرنے کا کوڈ تھا۔ اس کارڈ کی بدولت ڈونلڈ ٹرمپ جب چاہیں، امریکا کے ہزاروں ایٹمی میزائلوں میں سے کچھ کو لانچ کرنے کا حکم دے سکتے ہیں۔یہ میزائل اتنے طاقتور ہیں کہ پلک جھپکتے ہی انسانیت کو زمین سے فنا کر سکتے ہیں۔ دنیا میں صرف امریکا ہی ایسا ملک نہیں جس کے پاس ایٹمی ہتھیار ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ دنیا کے نو ممالک کے پاس جوہری بم اور میزائل ہیں۔ بھارت اور پاکستان کا شمار بھی انہی ممالک میں ہوتا ہے۔
اس وقت بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال موجود ہے کہ انتہائی کم قوتِ برداشت کے باعث وہ کیا حفاظتی اقدامات ہوں گے جو جلد باز فیصلوں کے تباہ کن نتائج سے محفوظ رکھ سکیں۔ اس حوالے سے پہلی بات تو یہ کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے جوہری ہتھیاوں کے استعمال سے متعلق جو اشتعال انگیز بیان دیے وہ انہیں واپس لے چکے ہیں۔حال ہی میں انھوں نے کہا تھاکہ وہ جوہری ہتھیار استعمال کرنے والے آخری فرد ہوں گے تاہم انھوں نے اسے خارج از امکان قرار نہیں دیا۔
اگرچہ ایٹمی حملے کاحکم دینے اور اس پر عمل کرنے والے لوگوں میں دوسرے اعلیٰ حکام بھی شامل ہیں جن میں وزیرِ دفاع اور امریکی فوج کے جنرل شامل ہیں تاہم انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ فار اسٹرٹیجک اسٹڈیز واشنگٹن میں جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے ماہر مارک فٹزپیٹرک کا کہنا ہے کہ ’آخر کار حملہ کرنے کا کُلی اختیار صدر ہی کے پاس ہوتا ہے‘ان کا کہنا تھا کہ ’صدر کی جانب سے جوہری حملے کرنے پر کوئی پوچھ گچھ نہیں ہوگی لیکن اس وقت وہ کسی ایک شخص کو اختیار دے گا تاہم اس کے بعد دوسرے لوگ بھی اس میں شامل ہو جائیں گے۔‘ڈونلڈ ٹرمپ نے جوہری ہتھیاوں کے استعمال سے متعلق جو اشتعال انگیز بیان دیے وہ انہیں واپس لے چکے ہیں۔یہ سوچنا کہ کوئی صدر خود ہی کوئی یادگار فیصلہ کر لے گا غیر حقیقی ہے۔ صدر حکم دیتا ہے اور وزیرِ دفاع آئینی طور پر اس کی تکمیل کا پابند ہوتا ہے لیکن اگروزیرِ دفاع کو صدر کی ہوش مندی پر کوئی شبہ ہو تو وہ اس کا حکم بجا لانے سے انکار بھی کر سکتا ہے تاہم یہ بغاوت کے زمرے میں آئے گا اور صدر اسے برطرف کر کے یہی حکم اس کے نائب کو دے سکتا ہے۔امریکی آئین میں کی جانے والی 25 ویں ترمیم کے تحت نائب صدر یہ قرار دے سکتا ہے کہ صدر فیصلے کرنے کے لیے ذہنی طور پر اہل نہیں ہے لیکن اس کے لیے اسے کابینہ کی اکثریت کی حمایت درکار ہو گی۔
امریکی صدر ایٹمی حملے کے لیے ہدف کا انتخاب کر لیتا ہے تو یہ حکم چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کے توسط سے پینٹاگون کے جنگ سے متعلق کمرے تک جاتا ہے اور پھر یہاں سے خفیہ کوڈز کے ذریعے یہ حکم نبراسکا میں امریکی اسٹرٹیجک کمانڈ ہیڈ کوارٹر کو بھیجاجاتا ہے ، جوہری ہتھیار داغنے کا حکم وہاں موجود تجوری میں بند خفیہ کوڈز سے مطابقت کے بعد عملے تک منتقل کیا جاتا ہے۔یہاں سوال یہ ہے کہ آخر ایٹمی میزائل سے حملے کا طریقہ کار کیا ہے؟بی بی سی کے ریڈیو پروگرام ‘دی انکوائری ‘ میں روتھ الیگزینڈر نے اسی سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی۔
بروس بلا امریکا کے سابق میزائل لانچ کرنے والے افسر ہیں۔ وہ 70 کے عشرے میں امریکا کے خفیہ ایٹمی میزائل کے ٹھکانوں پر کام کر چکے ہیں۔ بروس کہتے ہیں کہ ایسے افسران کو ‘منٹ مین’ کہا جاتا تھا کیونکہ حملے کا حکم ملنے پر ایک منٹ کے اندر وہ جوہری میزائل لانچ کر سکتے ہیں۔بروس اور ان کے ساتھیوں کی ڈیوٹی ہر وقت کمپیوٹر کے مانیٹر کی نگرانی کرنا ہوتی تھی جس پر کبھی بھی میزائل لانچ کرنے کا حکم آ سکتا تھا۔ امریکا میں صرف صدر ہی کو ایٹمی حملے کرنے کا حکم دینے کا حق حاصل ہے۔وہ کسی اور ملک سے امریکا پر حملہ ہونے یا حملے کا خدشہ ہونے پر ایٹمی میزائل لانچ کرنے کا حکم دے سکتا ہے۔ ماہرین بتاتے ہیں کہ روس یا چین اگر میزائل سے امریکا پر حملہ کرتے ہیں، تو وہاں سے امریکا تک میزائل پہنچنے میں صرف نصف گھنٹے کا وقت لگے گالیکن اگر آبدوز سے حملہ کیا گیا تو صرف 15 منٹ میں ہی امریکا کو نشانا بنایا جا سکتا ہے۔ اس صورت میں امریکی صدر کے پاس ایٹمی حملہ کرنے کا فیصلہ کرنے کے لیے انتہائی کم وقت ہوتا ہے۔ اسی لیے امریکی صدر کے ساتھ ہمیشہ ایک چمڑے کا بریف کیس رہتا ہے۔ اس بریف کیس کو نیوکلیئر فٹ بال کہتے ہیں۔اس میں وہ مشینیں ہوتی ہیں جن کے ذریعے امریکی صدر اسٹریٹیجک کمانڈ کے سربراہ اور نائب صدر سمیت کچھ خاص لوگوں سے بات کر سکتے ہیں تاکہ ایٹمی حملے سے متعلق فیصلہ کر سکیں۔ بروس بلا بتاتے ہیں کہ اس بریف کیس میں کارٹون نما ایک کتاب بھی ہوتی ہے جس میں مختلف ایٹمی میزائلوں کی طاقت اور ان کے اثرات کی تفصیلات درج ہوتی ہیں۔صدر کچھ سیکنڈ کے اندر میزائل کے اثر کا اندازہ کر کے ایٹمی حملہ کرنے کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔ امریکی صدر کو ایٹمی میزائل داغنے کا حکم دینے کے لیے میزائل لانچ افسر کو اپنی شناخت ثابت کرنا ہوتی ہے۔ اس کام میں وہی پلاسٹک کارڈ کام آتا ہے، جو ہمیشہ صدر کے پاس موجود رہتا ہے۔یہی وہ کارڈ ہوتا ہے جو امریکی صدر کو دنیا کا سب سے طاقتور شخص بناتا ہے۔ کیونکہ اسی کی مدد سے وہ ایٹمی حملے کا حکم دے سکتا ہے۔ صدر کو ہمیشہ یہ کارڈ اپنے ساتھ رکھنا ہوتا ہے۔ صدر سے احکامات ملنے کے بعد منٹ مین لانچ کوڈ کی مدد سے میزائل کو حملے کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔
بروس بلا بتاتے ہیں کہ ان کے پورے کیریئر میں ایک بار ایسا ہوا تھا، جب لگا تھا کہ نیوکلیئر جنگ چھڑ جائے گی۔ یہ بات 1973 کی ہے۔ اس دوران عرب اور اسرائیل کے درمیان جنگ چھڑی ہوئی تھی۔ اسی دوران بروس اور ان کے ایک ساتھی افسر ٹموتھی کو الرٹ پر رہنے کا حکم ملا تھا۔ یہ ڈیفکون 3 (DEFCON 3) پیغام تھا۔اس کا مطلب تھا کہ ممکنہ ایٹمی جنگ کے لیے تیاری شروع کرو۔ کسی بھی وقت جوہری میزائل لانچ کرنے کے لیے دو لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے، جو اپنے اپنے کوڈ بتاتے ہیں۔ ایک طرح سے یہ دونوں لوگ میزائل لانچ کرنے کی چابی ہوتے ہیں۔ بروس ان دنوں کو یاد کر کے بتاتے ہیں کہ انھیں لگا تھا کہ سوویت یونین سے حملہ ہونے والا ہے۔اس لیے وہ میزائل کا لانچ کوڈ اور چابی لے کر کرسی پر بیٹھ گئے۔ اب بس انھیں اور ان کے ساتھی ٹموتھی کو میزائل لانچ کرنے کے لیے آخری فرمان کا انتظار تھا۔ سکون کی بات یہ تھی کہ وہ وقت کبھی نہیں آیا۔ اس سے قبل بھی کیوبا میزائل بحران کے دوران امریکا اور سوویت یونین ایٹمی جنگ کے انتہائی قریب پہنچ گئے تھے۔
سوال یہ ہے کہ اگرکسی امریکی صدر کا دماغ چل جائے اور بغیر کسی وجہ کے ہی ایٹمی حملہ کرنے کا حکم دے دے تو پھر کیا ہو گا؟ بروس بلا کہتے ہیں کہ ایسا ہونے کی صورت میں جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی کے سربراہ اس حکم کو ماننے سے انکار کر سکتے ہیںلیکن ایسا ہونے کی توقع بہت کم ہے کیونکہ صدر کے ماتحت کام کرنے والے ایسے لوگوں کو حکم ماننے کی تربیت دی جاتی ہے، حکم عدولی کی نہیں لہٰذا اگر کوئی صدر بہک کر ایٹمی حملے کا حکم جاری کرتا ہے تو پھر اسے روکنا بہت مشکل ہے۔
اگور سرچیگن ایٹمی ہتھیاروں کے ماہر ہیں۔ وہ روس کے رہنے والے ہیں اور ایک وقت تھا کہ جب وہ روسی حکومت کے لیے کام کرتے تھے۔ 1999 میں ان پر ملک کی خفیہ معلومات دشمنوں کو دینے کا الزام لگا کر جیل میں ڈال دیا گیا تھا۔ تقریباً 11 سال جیل میں رہنے کے بعد روس نے انھیں رہا کیا۔ جس کے بعد وہ لندن میں بس گئے۔ ان دنوں اگور لندن کے ایک تھنک ٹینک کے لیے کام کرتے ہیں۔
امریکا کی طرح روس بھی بڑی ایٹمی طاقت ہے۔ روس کے پاس بھی ہزاروں نیوکلیئر میزائل ہیں۔ انھیں لانچ کرنے کا حق روس کے صدر کے پاس ہوتا ہے۔ اگور سرچیگن بتاتے ہیں کہ امریکا کی طرح روس کے صدر کے پاس بھی ایٹمی کوڈ والا ایک بریف کیس ہوتا ہے۔ یہ بریف کیس ہمیشہ صدر کے آس پاس ہی رہتا ہے۔روس پر کسی حملے کی صورت میں اس بریف کیس کا الارم بج اٹھتا ہے۔ فلیش لائٹ جل جاتی ہیں۔ جس سے صدر کو فوراً بریف کیس کے پاس پہنچ کر وزیر اعظم اور وزیر دفاع سے رابطہ کرنا ہوتا ہے۔ روس کے وزیر اعظم اور وزیر دفاع کے پاس بھی اسی طرح کے بریف کیس ہوتے ہیں لیکن ایٹمی حملے کا حکم صرف روس کے صدر ہی دے سکتے ہیں۔روس کے صدر اپنے بریف کیس کے ذریعے فوج کے کمانڈروں، وزیر اعظم اور وزیر دفاع سے بات کر سکتے ہیں۔ انھیں اس کے لیے کسی ٹیلیفون یا دوسرے ذریعے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اگور بتاتے ہیں کہ روس کے صدر کا ایٹمی حملہ کرنے والا یہ بریف کیس صرف ایک بار کھلا ہے۔
25 جنوری 1995 کو روس کے صدر کے اس بریف کیس کا الارم بج اٹھا تھا۔ اس کی لائٹ فلیش ہونے لگی تھی۔ اس کا دوسرا الارم، جو روس کے صدر کی میز پر ہوتا ہے، وہ بھی بج اٹھا تھا۔ معلوم ہوا کہ بیرینٹس سی کے پاس روس کی سرحد کے قریب ایک میزائل دیکھا گیا ہے جو تیزی سے روس کی طرف بڑھ رہا ہے۔بورس یلسن نے ایٹمی حملے کے لیے اپنا بریف کیس آن کیا۔ وہ حملے کا حکم دینے سے پہلے وزیر اعظم اور وزیر دفاع سے مشورہ کر رہے تھے۔ اس کے لیے ان کے پاس پانچ سے دس منٹ کا ہی وقت تھا۔ روسی آبدوزوں کو ایٹمی حملے کی تیاری کا حکم دے دیا گیا تھاتاہم بعد میں پتہ چلا کہ وہ ناروے کا ایک راکٹ تھا، جو ایک سائنسی مشن پر جا رہا تھا۔ روس پر حملے کا الارم اسی راکٹ کو روس کی طرف آنے والا میزائل سمجھ کر بج گیا تھا۔
روس میں میزائل لانچ کی تیاری کی جانچ پڑتال کے لیے اکثر ڈرل ہوتی رہتی ہے۔اگور بتاتے ہیں کہ کئی بار میزائل کی نگرانی کرنے والوں کو غلط لانچ کوڈ دے کر حملے کی تیاری کے لیے کہا جاتا ہے ۔ ایسا اس لیے کیا جاتا ہے تاکہ اس بات کا اندازالگایا جا سکے کہ اصل جنگ چھڑنے کی صورت میں وہ کہیں ایٹمی حملہ کرنے سے ہچکچائیں گے تو نہیں۔یعنی روس کا بھی نظام ایسا ہے کہ اگر وہاں کے صدر نے ایٹمی حملہ کا حکم دیاتو ایٹمی جنگ چھڑنا طے ہے۔
امریکا اور روس دونوں کے پاس اتنے جوہری ہتھیار موجود ہیں کہ وہ ایک دوسرے کے شہروں کو کئی بار تباہ کر سکتے ہیں۔ ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ محض ماسکو شہر کو تباہ کر نے کے لیے امریکا کے پاس 100 جوہری ہتھیار ہیں۔ان دونوں ممالک کے پاس موجود جوہری ہتھیار دنیا بھر میں موجود جوہری ہتھیاروں کا 90 فیصد ہیں۔
ستمبر 2016 تک روس کے پاس سب سے زیادہ 1796 ہتھیار تھے جو بین البرِ اعظم بیلسٹک میزائلز، آبدوزوں کے ذریعے لانچ کیے جانے والے بیلسٹک میزائلز اورا سٹریٹیجک بنکرز پر نصب کیے گئے ہیںجبکہ ستمبر 2016 میں امریکا کے پاس 1367 جوہری ہتھیار تھے جو زمین، سمندر میں آبدوزوں پر اور فوجی ہوائی اڈوں پر موجود ہیں۔ برطانیہ کے پاس 120ا سٹریٹیجک ہتھیار ہیں جن میں سے ایک تہائی سمندر میں نصب ہیں۔روسی صدر ولادیمیر پوتن کے احکامات کے مطابق ماسکو نے اپنی ا سٹریٹیجک نیوکلیئر میزائل فورس کو بہتر بنانے کے لیے اربوں ڈالر کی رقوم خرچ کیں۔ اس کے علاوہ اطلاعات کے مطابق سربیا کے جنگلوں کے نیچے زیرِ زمین سرنگوں میں اس کے بیلسٹک میزائل موجود ہیں۔
روس اور امریکا کے درمیان زمین سے داغے جانے والے میزائل کی اڑان کا وقت 25 سے 30 منٹ ہے جبکہ آبدوز سے ساحل کے قریب جانے کی صورت میں یہ وقت 12 منٹ تک ہو سکتا ہے۔اس کا مطلب ہے کہ صدر کے پاس یہ سوچنے کا وقت نہیں رہ جاتا کہ یہ ایک غلط فیصلہ تھا یا مسلط کر دی گئی بین الاقوامی جنگ ہے۔ایک مرتبہ یہ ہتھیار لانچ کر دیے گئے تو یہ فیصلہ واپس نہیں ہو سکتا لیکن اگر یہ ابھی تک اپنے نصب کردہ مقام میں ہی ہیں تو انہیں وہیں اندر تباہ کیا جا سکتا ہے۔
وائٹ ہاؤس کے ایک سینئرسابق اہلکار کے مطابق جوہری حملے کا فیصلہ کرنے کا زیادہ تر انحصار حالات پر ہوتا ہے۔اگر یہ ایک طویل المیعاد پالیسی کے تحت کیاجانے والا فیصلہ ہے کہ فلاں ملک پر حملہ کرنا ضروری ہے تو اس میں بہت سے لوگ ملوث ہوں گے۔ نائب صدر، قومی سلامتی کے مشیر اور کابینہ کے بیشتر ارکان بھی اس فیصلہ سازی میں شامل ہوں گے لیکن اگر امریکاپر اچانک ا سٹریٹیجک خطرہ نازل ہوتا ہے جیسا کہ کسی ملک کی جانب سے امریکا کی جانب جوہری ہتھیار سے لیس میزائل داغا جاتا ہے جو چند منٹ میں پہنچے والاہے تو صدر کو یہ غیر معمولی اختیار حاصل ہے کہ وہ تنہا ہی حملہ کرنے کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔