میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
پاناما پیپرز۔ حقائق کیسے طشت ازبام ہوئے؟ دنیا کو چونکا دینے والے حقائق کی اندرونی کہانی

پاناما پیپرز۔ حقائق کیسے طشت ازبام ہوئے؟ دنیا کو چونکا دینے والے حقائق کی اندرونی کہانی

منتظم
جمعه, ۳۰ ستمبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

روس کے صدر پوٹن نے شیئرز حاصل کرنے کیلئے کمپنیاں قائم کی تھیں
شیئرز کی لین دین کے مندرجات سے ظاہر ہوا کہ یہ روس کی بڑی اور معروف کمپنیوں کے شیئرز کی لین دین کامعاملہ تھا، اس میں روس کے صدر کا کہیں نہ کہیں سے تعلق ہونے کی جھلک بھی ملتی تھی ، نقاد اس بات پر متفق ہیں کہ پوٹن جب عہدہ صدارت سے ہٹیں گے تو کئی ارب ڈالر کے مالک ہوں گے
تلخیص وترجمہ : ایچ اے نقوی
( قسط نمبر 7 )
،ہر فولڈر میں کسی ایک آف شور کمپنی سے منسلک افراد کی تفصیلات موجود تھیں،یہ فولڈرز ان فائلوں پر مشتمل تھے جو موزاک فونسیکا نے متعلقہ فرمز کیلئے تیار کی تھیں جن میں ان کے حوالے سے مختلف سرٹیفکٹس، پاسپورٹ کی کاپیاں، ان کے شیئر ہولڈرز اورٹرسٹیز کی فہرستیںانوائسز ، ای میلز وغیرہ موجود تھیں، یہ ان کے اور خود ہمارے لئے ایک صاف اور سیدھا نظام تھا۔
ان ڈاکومنٹس کے مطابق ہزاروں شیل کمپنیاں ہیں اور ہزاروں افراد نے کسی نہ کسی وجہ سے اپنی دولت چھپانے کیلئے ان میں سرمایہ کاری کررکھی تھی،آف شور کمپنیوں کی منفرد خصوصیت یہ تھی کہ اس میں مالک کا نام خفیہ رہتاہے، دنیا کے سامنے کوئی فرضی نام لایاجاتاہے اور کسی کو بھی یہ معلوم نہیںہوپاتا کہ کمپنی کااصل مالک کون ہے؟۔
آف شور کمپنیوں سے استفادہ کرنے کے بہت سے اسباب ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ آف شور کمپنی کاقیام یا اس میں سرمایہ کاری کوئی جرم نہیں ہے۔ لیکن عام طورپر لوگ آف شور کمپنی کاسہارا اس وقت لیتے ہیں جب وہ ٹیکس افسران سے ،اپنی سابقہ بیویوں سے اپنے سابق تجارتی شراکت دار یا عوام کی آنکھ سے اوجھل رکھنایا کچھ چھپانا یاخفیہ رکھنا چاہتے ہیں۔خفیہ رکھنے والی ان چیزوں میں پراپرٹیز بھی ہوسکتی ہیں‘ بینک اکائونٹس بھی،پینٹنگز ،سرمایہ کاری ،شیئرز یا کسی اور طرح کی سیکورٹیز بھی ہوسکتی ہیں۔تجربات سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ جوافراد عام طورپراپنی تجارت کوخفیہ رکھنا چاہتے ہیں اس لئے گمنامی کی خصوصیت کی وجہ سے وہ شیل کمپنیوں کو پسند کرتے ہیں،ان لوگوں میں اسلحہ کی ناجائز تجارت کرنے والے، انسانی اسمگلنگ میں ملوث افراد، منشیات کے اسمگلرزاور دوسرے جرائم پیشہ افراد سرفہرست ہیں ان میں وہ سرمایہ کار بھی شامل ہیںجو اپنی شناخت اور سرمایہ کاری کے اصل مقصد کوچھپانا چاہتے ہیں، ان میں سینئر سیاستداں بھی شامل ہیں جو ناجائز طریقے سے اپنی کمائی کو بیرون ملک پوشیدہ رکھنے اورمحفوظ رکھنے کے خواہاں ہوتے ہیں۔ان میں وہ کمپنیاں بھی شامل ہوتی ہیں جو اپنے متعلقہ خریداروں کو رشوت کی ادائیگی کیلئے اس طرح کی کمپنیاں قائم کرتے ہیں۔اب ہم اس خفیہ ڈیٹا کا جائزہ لے رہے تھے جن سے اس طرح کے سیکڑوں معاملات بے نقاب ہورہے تھے۔ہمارے کمپیوٹر میں اتنے فولڈر موجود تھے کسی صحافی نے کبھی ایک ساتھ اتنی بڑی تعداد میں ڈیٹا نہیں دیکھے ہوں گے۔
پانامہ میں صرف موزاک فونسیکا ہی آف شور کمپنیوںکے قیام کاانتظام نہیں کرتی تھی بلکہ وکلا کی ایک اور کمپنی مورگن وائی مورگن اور موسفون بھی موزاک فونسیکا کے بڑے مد مقابل تصور کئے جاتے ہیں جن کے ڈیٹا ابھی تک محفوظ ہیں۔پانامہ زمانہ قدیم ہی سے غربت کا مارا رہاہے، اس ملک کو1903 میں آزادی ملی اس ملک کو آزادی دلانے میں امریکی بینکار اور صنعتکاروں کااہم کردار رہاہے جنھوں نے اس وقت کے امریکی صدر تھیوڈور روز ویلٹ کو پانامہ کے علیحدگی پسندوں کی حمایت پر مجبور کیاتھا۔ دراصل پانامہ کو آزادی دلانے میں مدد کرنے والے اس جزیرے سے دولت کمانا چاہتے تھے جو اس وقت زیر تعمیر تھا۔ روزویلٹ نے اس نوآزاد مملکت کے کچھ حصوں پر قبضہ کرنے کیلئے اپنی فوجیں وہاں بھیج دی تھیں اور کولمبیا پر یہ واضح کردیاتھا کہ وہ اپنے سابق صوبے کو خیر باد کہ سکتے ہیں۔اس طرح امریکہ کی مہربانی سے ایک آزاد مملکت وجود میں آگئی اگرچہ اس کے بعد بھی پانامہ کینال زون پر امریکی پرچم لہراتارہا جہاں بڑے پیمانے پر تجارت ہورہی تھی۔شیل کمپنیوں کے ذریعے پرکشش کاروبار کی اجازت 26فروری 1927 کو منظور کئے گئے ایک قانون کے تحت دی گئی تھی۔اس قانون کے تحت املاک رقم کی منتقلی اور کمپنی کے مالکان کے نام خفیہ رکھنے کی ضمانت دی گئی تھی اور انھیں ٹیکسوں سے استثنیٰ دیاگیاتھا۔ایک دوسری ایکسل فائل میں ہمیںسیمنز کے ایک سابق ساتھی ہینزجوکھم کے نام ایک پاور آف اٹارنی ملا جس میں سیمنز کے سابق ساتھی کو کمپنی کا اصل مالک قرار دیاگیاتھا لیکن نہ تو کبھی اس نے اور نہ کبھی سیمنز نے اس وقت بھی اس کا ذکر کیا جب کاسا گرانڈ ڈیولپمنٹ کو رشوت دینے کیلئے قائم فنڈ سے لاکھوں ڈالر دئے جارہے تھے۔اگر کسی کو سیمنزاور کاسا کے درمیان اس طرح کے تعلق کا پتہ تھا بھی تو وہ اسے کسی بھی طرح ثابت نہیں کرسکتاتھا۔کیونکہ پہلے نام نہاد بیئرر شیئرز جاری کئے گئے تھے،اور اس بات کاکوئی ریکارڈ نہیں تھا کہ ان شیئرز کے مالک کون ہیں؟ یہ ایسی ڈیلنگ میںان لوگوں کوشراکت کی کھلی دعوت تھی جو اپنے پیچھے کوئی نام ونشان نہیں چھوڑنا چاہتے تھے۔یہ ایسا طریقہ کار تھا کہ رقم ادا کرو بے نامی شیئرزحاصل کرلو اور کمپنی کے مالک آپ بن گئے،اگر آپ خود کو گمنام رکھنے کیلئے مزید زیادہ سخت انتظامات چاہتے ہیں تو موزاک فونسیکا اس مقصد کیلئے نہ صرف فرضی ڈائریکٹر بلکہ فرضی شیئر ہولڈرز کابھی انتظام کردیتی تھی۔اس طرح اگر کسی قانونی کارروائی کے ذریعے موزاک فونسیکا کو کسی کمپنی کے مالک کانام ظاہر کرنے پر مجبور بھی کیا جاتا تو ظاہر کیا گیا نام بھی اصل مالک نہیں ہوتاتھااور اس طرح اصل مالک اس فرضی مالک کے پیچھے چھپا رہتاتھا۔ روزانہ ہمارے کمپیوٹر پر اس طرح کے انکشافات ہمارے سامنے آرہے تھے۔ (جاری ہے)


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں