میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
بھارت کو آرمی چیف قمر باجوہ کا کرارا جواب

بھارت کو آرمی چیف قمر باجوہ کا کرارا جواب

ویب ڈیسک
پیر, ۱۲ جون ۲۰۱۷

شیئر کریں

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے واضح کیا ہے کہ پاک فوج وطن عزیز کو درپیش دفاع اور سلامتی کے چیلنجز سے آگاہ ہے اور ‘ہر محاذ پر’ ہر خطرے سے نمٹنے کے لیے تیار ہے۔پاک افواج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق آرمی چیف نے لائن آف کنٹرول کے ساتھ مظفرآباد سیکٹر کا دورہ کیا، جہاں انھیں مقامی کمانڈروں کی جانب سے آپریشنل صورتحال، بھارت کی جانب سے سیز فائر معاہدے کی خلاف ورزیوں اور پاکستانی افواج کی بھرپور جوابی کارروائیوں سے متعلق تفصیلی بریفنگ دی گئی۔افسران اور جوانوں سے بات چیت میں آرمی چیف نے ان کی پیشہ ورانہ مستعدی کو سراہتے ہوئے بلند حوصلے اور ہمت کی تعریف بھی کی۔ایل او سی پر تعینات دستوں نے آرمی چیف کو بھارتی مظالم اور معصوم شہریوں کو ہدف بنانے سے متعلق اپنے احساسات سے آگاہ کیا اور اس عزم کا اظہار کیا کہ بھارت کی ہر مہم جوئی کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔جنرل قمر جاوید باجوہ نے کشمیریوں کے حق خودارادیت کی حمایت جاری رکھنے کے عزم کے ساتھ بھارتی مظالم کے خلاف لائن آف کنٹرول کے دونوں طرف موجود کشمیروں کے عزم و حوصلے کو بھی سراہا اور ایک بار پھر انھیں حمایت کی یقین دہانی کرائی۔آرمی چیف نے ایل او سی کا دورہ ایک ایسے وقت میں کیا ہے، جب 2 روز قبل بھارت کے آرمی چیف بپن روات نے کسی ملک یا گروپ کا نام لیے بغیر کہا تھا کہ بھارتی فوج بیک وقت بیرونی اور اندرونی سیکورٹی خطرات سے نمٹنے کے لیے مکمل طور پر تیار ہے۔
ایک انٹرویو کے دوران میں آرمی چیف کا کہنا تھا کہ بھارتی فوج داخلی اور بیرونی خطرات سے بیک وقت نمٹنے کے لیے تیار ہے تاہم انھوں نے کہا کہ مشکل صورت حال کا حل نکالنےکیلئے جنگ کے علاوہ بھی کچھ طریقے موجود ہیں۔انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’یہاں تک کہ بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی کہہ چکے ہیں کہ گزشتہ 40 سال کے دوران میں چین اور بھارت کی سرحد پر ایک گولی بھی نہیں چلی‘۔ پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں اڑی حملے کے بعد سے کشیدگی پائی جاتی ہے اور بھارت کی جانب سے کنٹرول لائن اور ورکنگ باونڈری کی خلاف ورزی معمول بن جاچکی ہے۔ان واقعات کے بعد بھارت کے ڈپٹی ہائی کمشنر کو کئی مرتبہ دفتر خارجہ طلب کرکے سیز فائر معاہدے کی خلاف ورزی پر احتجاج ریکارڈ کرایا جاتارہاہے اور بھارتی سفارتکار سے یہ مطالبہ بھی کیا گیاہے کہ وہ اس بات کی یقین دہانی کرائیں کہ ان واقعات کی تحقیقات کی جائے گی اور اس کی تفصیلات پاکستان کے ساتھ شیئر کی جائیں گی۔
گزشتہ برس 18 ستمبر کو نئی دہلی کی جانب سے پاکستان پرکشمیر میں اڑی کے مقام پر ہندوستانی فوجی مرکز پر حملے میں 18 فوجیوں کی ہلاکت کا الزام عائد کیا گیا تھا، جسے اسلام آباد نے سختی سے مسترد کردیا تھا۔بعدازاں 29 ستمبر 2016 کوکنٹرول لائن کے اطراف سرجیکل اسٹرائیکس کے دعووں نے پاک-بھارت کشیدگی میں جلتی پر تیل کا کام کیا، جسے پاک فوج نے سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ بھارت نے ا±سی رات کنٹرول لائن کی خلاف ورزی کی اور بلااشتعال فائرنگ کے نتیجے میں 2 پاکستانی فوجی شہید ہوئے، جبکہ پاکستانی فورسز کی جانب سے بھارتی جارحیت کا بھرپور جواب دیا گیا۔دوسری جانب گزشتہ برس 8 جولائی کو مقبوضہ کشمیر میں حریت کمانڈر برہان وانی کی بھارتی افواج کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد سے کشمیر میں بھی کشیدگی پائی جاتی ہے اور سیکورٹی فورسز کے خلاف احتجاج میں اب تک 100 سے زائد کشمیری ہلاک اور ہزاروں زخمی ہوچکے ہیں جبکہ پیلٹ گنوں کی وجہ سے متعدد شہری بینائی سے بھی محروم ہوچکے ہیں۔
پاک فوج کے سربراہ نے بجا طورپربھارت پر واضح کردیا ہے کہ ہم ایل او سی پر امن برقرار رکھنے کیلئے پرعزم ہیں تاہم اس کی کسی بھی مہم جوئی کا پوری قوت سے جواب دیا جائیگا، اس حوالے سے آرمی چیف پہلے ہی یہ کہہ چکے ہیں کہ بھارتی جارحیت کا جواب دینے کیلئے اب جگہ اور وقت کا انتخاب بھی اب ہم خود کرینگے اور اس کی تمام تر ذمہ داری بھارت کے جارحانہ طرز عمل پر ہوگی۔ اس حوالے سے وزیر دفاع خواجہ محمد آصف پہلے ہی یہ باور کراچکے ہیںکہ کشیدگی میں اضافہ پاکستان اور بھارت دونوں کے مفاد میں نہیں ہے۔ ملک کی مسلح افواج اور قوم وطن کے چپے چپے کے دفاع کی مکمل صلاحیت رکھتی ہیں۔ حکومت نے پاکستان کا دفاع ناقابل تسخیر بنا دیا ہے۔پاکستان کی خودمختاری اور سالمیت کے حوالے سے چونکہ بھارت شروع دن سے ہی بدنیتی رکھتا ہے جس کا وہ پاکستان پر مسلط کی گئی تین جنگوں اور سانحہ سقوط ڈھاکا کی شکل میں اسے دولخت کرکے عملی مظاہرہ بھی کرچکا ہے اس لئے اس کے مقابل خود کو سیسہ پلائی دیوار بنانا ہی ہماری بنیادی ضرورت ہے اور اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہماری مسلح افواج دشمن کی ہر جارحانہ سوچ پر اسے ناکوں چنے چبوانے کی مکمل صلاحیت رکھتی ہیں جو دنیا کی مانی ہوئی باصلاحیت اور مشاق افواج ہیں۔ اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ بھارت ہماری امن کی خواہش کو ہمیشہ ہماری کمزوری سے تعبیر کرتا ہے چنانچہ اسکی کسی جارحیت یا جارحانہ سوچ کے جواب میں ہماری جانب سے اسے دوستی اور مذاکرات کا پیغام جاتا ہے تو اسکے حوصلے مزید بلند ہوتے ہیں اور وہ ہماری سلامتی کے خلاف سازشوں میں کھلم کھلا سرگرم عمل ہو جاتا ہے۔ بدقسمتی سے بی جے پی کی موجودہ مودی حکومت کے دور میں ہمارے حکمرانوں کی جانب سے بھارت کیلئے خیرسگالی کے جذبے کا کچھ زیادہ ہی اظہار ہوا ہے چنانچہ اس بچھو کو ہمیں ڈنک مارنے کیلئے کوئی خاص تردد نہیں کرنا پڑتا۔نریندر مودی کی ہندو انتہا پسندی والی جنونیت تو ویسے ہی ضرب المثل بن چکی ہے وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد انہوں نے اپنے پارٹی منشور اور پاکستان کے بارے میں اپنی پراگندہ سوچ کے عین مطابق اپنے اقتدار کا آغاز ہی پاکستان بھارت سرحدی کشیدگی بڑھا کر کیا جبکہ انکے اقتدار کے اب تک کے تین سال کے دوران کوئی ایک دن بھی ایسا نہیں گزرا جب بھارت کی جانب سے کنٹرول لائن کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستان کی حدود میں بلااشتعال فائرنگ اور گولہ باری نہ کی گئی ہو۔ اس بھارتی بربریت کا اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین بھی کنٹرول لائن کا دورہ کرکے متعدد بار جائزہ لے چکے ہیں ۔ بھارت کی پیدا کردہ سرحدی کشیدگی سے علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کو سنگین خطرات لاحق ہوتے دیکھ کر عالمی اداروں اور قیادتوں کی جانب سے پاکستان بھارت مذاکرات پر زور دیا جاتا رہاہے اور اس کیلئے کردار ادا کرنے کی خواہش کا بھی اظہار کیا جارہا ہے۔
جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو پاکستان بھارت سے کسی بھی سطح کے مذاکرات کیلئے ہمہ وقت تیار رہتا ہے جس کا ہمارے حکمرانوں کی جانب سے باربار اعادہ کیا جاتا رہاہے اس کے برعکس بھارت اب تک ہر سطح کے دوطرفہ مذاکرات کی بساط خود ہی اُلٹتا رہا ہے اور مقبوضہ کشمیر پر اپنی اٹوٹ انگ والی ہٹ دھرمی کا اعادہ کرکے اس نے دوطرفہ مذاکرات کو ویسے ہی بے معنی بنا دیا ہے۔تاریخ کا ریکارڈ گواہ ہے کہ وزرا اعظم سے سیکریٹریوں کی سطح تک کے مذاکرات اب تک بھارت نے کوئی نہ کوئی عذر نکال کر اور کسی نہ کسی حیلے بہانے سے خود سبوتاژ کیے ہیں اس لئے اس سے ہرگز یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ دوطرفہ مذاکرات کے ذریعہ پاکستان کے ساتھ مسئلہ کشمیر حل کرنے پر آمادہ ہو جائیگا۔ اگر اس معاملے میں اسکی نیت صاف ہوتی تو وہ کشمیر پر اٹوٹ انگ والی ہٹ دھرمی کا راگ مسلسل الاپتا کیوں نظر آتا اور استصواب کے حق کیلئے سڑکوں پر آنیوالے کشمیری عوام کا جینا دوبھر کرنے کے ظالمانہ ہتھکنڈے کیوں اختیار کیے رکھتا جبکہ گزشتہ ایک سال سے بطور خاص کشمیری نوجوانوں پر پیلٹ گنوں کی فائرنگ کے جاری سلسلے سے اسکے مظالم دنیا بھر میں بے نقاب ہوچکے ہیں جن سے دنیا کی توجہ ہٹانے کے لیے وہ پاکستان پر دہشت گردی اور دراندازی کا ملبہ ڈالنے کے موقع کی تاک میں رہتا ہے۔ جب بھی کشمیر پر دوطرفہ مذاکرات کی فضا ہموار ہوتی نظر آتی ہے تو بھارت کو پاکستان میں دہشت گردی کے ٹھکانے نظر آنے لگتے ہیں جن کو جواز بنا کر وہ مذاکرات کو پاکستان کی جانب سے دہشت گردی کے خاتمہ کے اقدامات کے ساتھ مشروط کردیتا ہے حالانکہ پاکستان میں دہشت گردی کی ساری جڑیں بھارتی ایجنسی ”را“ کی پھیلائی ہوئی ہیں جس کا بھانڈااسی کی انٹیلی جنس ایجنسی ”را“ کے حاضر سروس دہشت گرد جاسوس کلبھوشن نے اپنی گرفتاری کے بعد اعترافی بیان کے ذریعے پھوڑا ہے۔
مودی سرکار نے کلبھوشن کی سزائے موت کے بعد پاکستان کے خلاف پہلے سے بھی زیادہ جارحانہ طرز عمل اختیار کیا ہے اور اسکی جانب سے سرحدی خلاف ورزیوں میں بھی اضافہ ہوگیا ہے جبکہ وہ پاکستان پر سرجیکل ا سٹرائیکس کی پھر سے بڑ مارتا نظر آتا ہے ۔اس صورتحال میں اس کا عسکری برتری کا زعم و غرور توڑنے کیلئے عساکر پاکستان کے مضبوط ہاتھوں‘ فعالیت اور جنگی استعداد کا اسے احساس دلایا جانا ضروری ہے۔ چنانچہ افواج پاکستان کے ترجمان کی جانب سے بھارت کو اسی تناظر میں ٹھوس پیغام دیا گیا ہے کہ اسکی مہم جوئی کا بھرپور جواب دینے کیلئے جگہ اور وقت کا ہم خود انتخاب کرینگے۔ بھارت کو عساکر پاکستان کی جنگی صلاحیت و استعداد کا پاک بھارت تین جنگوں کے دوران بخوبی اندازہ ہوچکا ہے جبکہ کنٹرول لائن پر اسکی ہر جارحیت کا اسے فوری اور ٹھوس جواب ملتا ہے تو اس سے بھی اسے بخوبی اندازہ ہوجانا چاہیے کہ عساکر پاکستان سے پنجہ آزمائی کرتے ہوئے اسے لوہے کے چنے چبانا پڑینگے۔ وہ کسی بھول میں نہ رہے اور ہمارے حکمرانوں کی دوستی اور مذاکرات کی خواہش کو پاکستان کی کمزوری سے ہرگز تعبیر نہ کرے۔ آج پوری قوم سیسہ پلائی دیوار کی طرح اپنی مسلح افواج کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔ بھارت نے اپنی جنونیت کے تابع پاکستان پر ماضی جیسی جارحیت مسلط کرنے کی حماقت کی تو پلک جھپکتے میں اس کا سارا نشہ ہرن ہو جائیگا۔ اسے جنگی جنون ترک کرکے سیدھے سبھاﺅ پاکستان کے ساتھ مذاکرات کی میز پر آجانا چاہیے‘ جو اسکے ہی نہیں‘ اس پورے خطے اور اقوام عالم کے بھی مفاد میں ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں