یہ ڈائنا مائیٹ اب پھٹنے کو ہے !
شیئر کریں
بے نقاب /ایم آر ملک
کیا ایک زرداری بھٹو بن کر پیپلز پارٹی کی لاش کو آکسیجن فراہم کر سکے گا ؟
جاگیردارانہ اور لمپن قیادت کی سوچ کا تسلط شاید اب قوم کے شانوں پر اپنا وجود بر قرار نہ رکھ سکے ۔کیا اسے ایک ذلت اور شر مساری سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا کہ عرصہ پہلے رائے ونڈ کے مکینوں کا بھتیجا ایک ایسے جلسے میں جس میں نظریاتی ورکر نہیں دیہاڑی پر لائے گئے ونگارو تھے ”گو نواز گو ”کے نعرے لگوا کر پاگل پن کی انتہائوں پر کھڑا تھا ؟عرصہ پہلے 70کھانوں کو دیکھ کر باپ کی رالیں ٹپک پڑیں اور اُس کی مفاہمتی سیاست نے رائے ونڈ کی شخصی آمریت کی اطاعت میں عوامی شعور کا قتل کر ڈالا ،رجیم چینج میں بے ضمیروں کی سندھ ہائو س میں منڈی لگا کر زرداری نے عوامی احساسات کو لالچ ،مفاد پرستی اور حرص کی گہری کھائی میں دفن کر دیا ۔ عوامی ایشوز کو ایک بار پھر سراب کے شور میں گم کر نے کی ناکام کوشش کی جارہی ہے مگر ہر بار ایسا نہیں ہوتا ،حالات غیر دانستہ طور پر عوامی تحریک کی شکل میں پک کر تیار ہوتے ہیں۔
ذوالفقار علی بھٹو کا ورکر اب ایسی لمپن قیادت کی طرف لوٹنے سے رہا جس نے اُس کے قائد کے قاتلوں کے ہاتھ میں نظریاتی ورکروں کا چاک گریباں دے دیا اور بھٹو کے لہو سے رنگا قالین بچھا کر اُن کی اطاعت پر کمر کس لی سرمائے کی لوٹ مار اور فرار کو بچانے کیلئے زرداری نے ایسی شخصی آمریت کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے کو ترجیح دی جس نے عوام کے دریدہ پیراہن میں غربت ،مہنگائی ،بیروز گاری ،بجلی ،پانی ، گیس کی قلت ،تعلیم و علاج کا فقدان اور معاشی و سماجی بر بادیاں ڈالیں ،سرمائے کی جمہوریت کے اس بے ڈھنگے ارتقاء نے جمہوری حقوق کی شکلیں مسخ کر دیں ۔
تخت ِ لاہور پر قابض ایک عورت کے حق میں نعرے بازی کے شور میں اب چھوٹا زرداری آنے والے کل میں اپنی باری کیلئے بے چین ہے۔ شائونزم کو اُبھارنے کی یہ بے ہودہ کوشش ہے ۔ اب عوام احمقوں کی جنت میں نہیں رہتے کہ جھوٹی کار گزاریوں کے نعروں پر اُن کی حمایت جیتی جاسکے ۔ کون نہیں جانتا کہ مرتضیٰ بھٹو کا قاتل کون ہے ؟ اور کس نے ایک جری بھٹو کو اپنے رستہ سے ہٹانے کیلئے انتقام کا خونریز وار کیا ؟لوٹ مار کی جمہوریت کے ڈوبتے سفینے کو شریف زرداری کمپنی مل کر کندھا دینے کی ناکام سعی میں ہیں ۔جمہوریت تو دو پارٹیوں کے لوٹ مار کے دو پاٹوں میں پس کر متروک ہوتی رہی ۔8فروری کو منافقت اور تضحیک کے درمیان عوام کے حق ِ خود ارادیت کا قتل ہوا۔دو پارٹیوں کی لوٹ مار کے کئی سکینڈلز کے منظر عام پر آنے کے بعد کیا ضیاء آمریت سے جنم لینے والی پارٹی اور زرداری لیگ کی یک رنگی سے بیزار عوام ضروریات زندگی کے حصول کی غیر انسانی مشقت سے اب نجات کے خواہاں نہیں ؟جن کی محنت کا استحصال کم ہونے کے بجائے تیز ہو رہا ہے عمران کی بے گناہی پر مہر تصدیق لگانے کیلئے دو موروثی پارٹیوں سے بیزار عوام سیاسی اظہار کی تلاش میں نکلتے ہیں لوٹ مار اور کرپشن پر اتحاد جمہوریت کے فریب اور کھوکھلے پن کو بے نقاب کر رہا ہے ۔طاقتور حلقوں کی پشت ِ بانی کے باوجود ماضی کی فرسودگی کو عوام آئندہ گلے لگانے سے گریزاں نظر آتے ہیں، دو افراد کے جمہوری تصورات کے ابہام سے اب وہ نکلنا چاہتے ہیں ۔بیلٹ کی طاقت سے جمہوری تہمت سے داغدار طوق کو گلے سے اتارنے کیلئے مجھے اکثریت بے چین دکھائی دیتی ہے ۔چہروں پر پھیلی زہر آلود مسکراہٹیں ووٹ کے انتقام سے ان جعلی قیادتوں کا استقبال کریں گی ۔جب مفاہمت کی سیاست کی چھتری تلے محض عوامی حقوق کا قتل عام مقصود ہو تو بیلٹ پیپر پر مہر لگاتے وقت احساسات کی افادیت یکسر مختلف ہو جایا کرتی ہے ۔
بھٹو کی پارٹی کے کارکن اور جانثار محترمہ کی شہادت کے بعد شدید مایوسی اور لاچارگی کے عالم میں اپنی قربانیاں اور جدو جہد قیادت کی منڈی میں نیلامی کیلئے لے کر پھرتے رہے ،سسکتے رہے ،آہ و بکا کرتے رہے لیکن زرداری نے اُن کے نظریات اور جذبات کو ایسی سیاست کی سولی پر چڑھا دیا جس نے بھٹو کی پھانسی پر مٹھائیاں تقسیم کیں ۔تیسری دنیا کے لیڈر کو جن کے سیاسی باپ نے قتل کر کے ان نظریاتی ورکروں سے انتقام لیا جن کا نعرہ تھا ”ہر گھر سے بھٹو نکلے گا ”۔
نظام کے ہاتھوں مسلط شدہ اُفق پر جو پارٹی عوام کی واحد اُمید تھی اس کے ساتھ جڑے ہوئے نظریات ریزہ ریزہ ہو چکے ۔عوام کو مرعوب کرنے کیلئے نو خیز زرداری آئندہ اقتدار کیلئے لکھی ہوئی تقاریر کی ریہرسل کر رہاہے اس سے بڑا فریب اور کیا ہو سکتا ہے مشرف آمریت کی چھتری تلے موصوف کی پارٹی کے وزراء نے حلف اُٹھایاتھا ۔عوامی عدم اعتماد کے آئینے میں سچ کی شکل واضح نظر آرہی ہے ۔ کیا اس سچائی پر مٹی ڈالی جاسکتی ہے کہ اپوزیشن کا کردار عمران سے زیادہ کس نے ادا کیا ؟
بہت دیر ہو چکی ،وقت مٹھی سے ریت کی طرح پھسل گیا اور بھٹو کی پارٹی کے جعلی وارثوں کو خبر تک نہ ہوئی ،الفاظ کی چاشنی سے پارٹی کی مردہ سانسیں بحال کرنا ناممکن ہو چکا کہ بھٹو کی پارٹی بھٹو کے قاتلوں کی ذیلی شاخ بن چکی ہے ،سیاست کے ڈاکٹر کے جمہور کش جمہوی پلان میں لوٹ مار کا گٹھ جوڑ اب حالات کو یکسر تبدیل کر دے گا ،یہ کرپشن کے خلاف ایسا چابک ثابت ہوگا جو وطن عزیز کا روایتی چہرہ بدل دے گا عمران کی کال پر اب تبدیلی کے حقیقی عناصر” عوام” اپنی گہری خامشی توڑ کر تاریخ کے میدان میں نکلیں گے۔ مفاہمت کی جعلی لفاظی اور لفظ جمہوریت کے ناجائز استعمال سے اُس بے چینی کو ختم نہیں کیا جاسکتا جو معاشرے کی بنیادوں میں ڈائنا مائیٹ کی طرح لگی ہوئی ہے اور عمران کی کال پر یہ ڈائنا مائیٹ پھٹنے کو ہے ۔