کسے خبر کہ مجنوں بھی ہے صاحب ادراک؟
شیئر کریں
مفتی محمد وقاص رفیع
خلیفہ ہارون الرشید کے زمانے میں بہلول نامی ایک مجذوب بزرگ گزرے ہیں ، وہ مجذوب اور صاحب حال بزرگ تھے ۔ ہارون الرشید ان کی باتوں سے ظرافت کے مزے لیا کرتے تھے ۔یہ کبھی کبھی جذب کے عالم میں پتے کی باتیں بھی کہہ دیا کرتے تھے ۔ہارون الرشید ان کی بڑی عزت اور بڑا ہی احترام کیا کرتے تھے۔ ہارون الرشید کی بیوی زبیدہ خاتون بھی ایک نیک اور پارسا عورت تھیں ۔ انہوں نے اپنے محل میں ایک ہزار (۰۰۰۱) ایسی خادمائیں رکھی ہوئی تھیں جو سب کی سب قرآن مجید کی حافظہ اور قاریہ تھیں ۔ ان سب کی ڈیوٹیاں مختلف شفٹوں میں لگی ہوئی تھیں ۔ چناں چہ ملکہ زبیدہ کے محل سے چوبیس (۴۲) گھنٹے ان بچیوں کے قرآن پڑھنے کی آوازیں آرہی ہوتی تھیں اور ان کا محل قرآن مجید کا گلشن محسوس ہوتا تھا ۔
ایک دن خلیفہ ہارون الرشید اپنی بیوی ملکہ زبیدہ کے ساتھ دریا کے کنارے ٹہل رہے تھے کہ ایک جگہ بہلول مجذوب کو بیٹھے دیکھا ۔ ہارون الرشید نے سلام کیا:” السلام علیکم ! “بہلول مجذوب نے سلام کا جواب دیا : ” وعلیکم السلام! “ ہارون الرشید نے کہا : ”بہلول !یہاں کیا کر رہے ہو؟“ بہلول مجذوب نے کہا : ” ریت کے گھر بنا رہا ہوں ۔“ ہارون الرشید نے پوچھا : ”کس کے لیے؟ “ بہلول مجذوب نے کہا : ”ہر اس شخص کے لیے کہ جو اس کو خریدے گا میں اس کے لیے دعا کروں گا کہ :” اللہ تعالیٰ اس کے بدلے جنت میں اس کو گھر عطاءفرمائے “ ہارون الرشید نے پوچھا : ”اس گھر کی قیمت کیا ہے؟“ بہلول مجذوب نے کہا : ”ایک دینار“ہارون الرشید ¾ بہلول مجذوب کو دیوانہ سمجھ کر آگے کی طرف چل دیا۔
ہارون الرشید کے پیچھے پیچھے ان کی بیوی ملکہ زبیدہ آرہی تھیں ۔ انہوں نے بھی بہلول مجذوب سے علیک سلیک کرکے وہی گفتگو کی جو اوپر ہارون الرشید نے کی تھی ۔ البتہ ملکہ زبیدہ نے بہلول مجذوب کی دعاءکی قدر کرتے ہوئے ایک دینار نکال کر ان کو دے دیا اور ان سے کہا کہ میرے لیے یہ والی دعاءکردینا ، اس کے بعد وہ بھی وہاں سے چل دیں۔
رات کو جب ہارون الرشید سوگیا تو اس نے خواب میں جنت کے حسین نظارے ، وہاں کی آبشاریں ، مرغزاریں اور پھل پھول دیکھنے کے علاوہ بڑے بڑے اور اونچے اونچے خوب صورت محلات بھی دیکھے ۔ ایک سرخ یاقوت کے بنے ہوئے محل پر جب اس کی نظر پڑی تو دیکھا کہ اس پر اس کی بیوی ملکہ زبیدہ کا نام لکھا ہوا تھا ۔ ہارون الرشید نے کہا اندر جاکر دیکھوں تو سہی کہ میری بیوی کا محل کیسا ہے ؟ لیکن ہارون الرشید کی اس وقت حیرانگی کی انتہاءنہ رہی جب وہ محل میں داخل ہونے کے ٰؒؒلیے اس کے دروازے پر پہنچے تو ایک دربان نے اندر جانے سے انہیں وہیں روک لیا۔ ہارون الرشید نے کہا : ” اس پر تو میری بیوی کا نام لکھا ہوا ہے ، اس لیے مجھے اندر جانے دیا جائے۔“ دربان نے کہا : ”یہاں کا دستور مختلف ہے ، یہاں جس کا نام لکھا ہوتاہے وہی اندر جاسکتا ہے “ جب دربان نے ہارون الرشید کو پیچھے ہٹایا تو ان کی آنکھ کھل گئی ۔ انہیں بیدار ہونے پر فوراً خیال آیا کہ لگتا ہے کہ بہلول مجذوب کی دعاءملکہ زبیدہ کے حق میں قبول ہوگئی ہے ۔ اب کیا تھا کہ ہارون الرشید کی ساری نیند اڑگئی اور وہ تمام رات کروٹوں پے کروٹیں بدلتا رہا یہاں تک کہ صبح ہوگئی۔
اگلے دن ہارون الرشید پھر اسی طرح اپنی بیوی ملکہ زبیدہ کے ساتھ دریا کے کنارے ٹہلنے کے لیے نکل پڑے ۔ پھر اسی طرح بہلول مجذوب وہاں ریت کے گھر بناتے انہیں نظر آئے ۔ علیک سلیک ہوئی اور گزشتہ دن کی طرح آپس میںساری گفتگو ہوئی اورہارون الرشید نے بہلول مجذوب سے پوچھا کہ : آج اس ریت کے گھر کی قیمت کیا ہے؟“ بہلول مجذوب نے کہا : ” آج اس کی قیمت پوری دنیا کی بادشاہی ہے “ ہارون الرشید نے کہا : ” اتنی قیمت تو میں دے نہیں سکتا ، کل تو ایک دینار کے بدلے دے رہے تھے اور آج پوری دنیا کی بادشاہی مانگ رہے ہو ؟ “ بہلول مجذوب نے کہا : ” بادشاہ سلامت! کل بن دیکھے سودا تھا اس لیے سستا مل رہا تھا اور آج چوں کہ آپ اسے دیکھ آئے ہیں اس لیے اب اس کی قیمت بھی زیادہ دینی پڑے گی۔“
ایک مرتبہ بہلول مجذوب ہارون الرشید کے پاس پہنچے ۔ہارون الرشید نے ایک چھڑی اٹھاکر ان کو دی اور مزاحاً کہا کہ : ” بہلول ! یہ چھڑی تمہیں دے رہا ہوں ، جو شخص تمہیں اپنے سے زیادہ بے وقوف نظر آئے اسے دے دینا “بہلول مجذوب نے بڑی سنجیدگی کے ساتھ چھڑی لے کر رکھ لی اور واپس چلے آئے ۔ بات آئی گئی ہوگئی ، شاید ہارون الرشید بھی بھول گئے ہوں گے ۔عرصہ بعد ہارون الرشید کو سخت بیماری لاحق ہوگئی ، بچنے کی امید نہ تھی ، اطباءنے جواب دے دیا ۔ بہلول مجذوب عیادت کے لیے پہنچے، سلام کیا اور اس کے بعد پوچھا : ” امیر المو¿منین! کیا حال ہے ؟“ ہارون الرشید نے کہا : ”بڑا لمبا سفر در پیش ہے “ بہلول مجذوب نے پوچھا : ”کہاں کا سفر ؟ “ جواب دیا : ” آخرت کا“ بہلول مجذوب نے سادگی سے پوچھا : ”واپسی کب ہوگی ؟ “ہارون الرشید نے جواب دیا : ”بہلول ! تم بھی عجیب آدمی ہو بھلا آخرت کے سفر سے کوئی واپس ہوا ہے ؟“بہلول مجذوب نے تعجب سے کہا : ”اچھا ! آپ واپس نہیں آئیں گے تو آپ نے کتنے حفاظتی دستے آگے روانہ کیے اور ساتھ کون کون جائے گا،کیا تیاری کی ہے ؟ “ ہارون الرشید نے کہاکہ : ” آخرت کے سفر میں کوئی ساتھ نہیں جاتا ،خالی ہاتھ جارہا ہوں “بہلول مجذوب نے کہا : ”اچھا اتنا لمبا سفر ! اور ساتھ کوئی معین و مددگار بھی نہیں ؟ “ پھر تو لیجیے…. ہارون الرشید کی چھڑی بغل سے نکال کر کہا کہ: ” امانت واپس ہے ،مجھے آپ کے سوا کوئی انسان اپنے سے زیادہ بے وقوف نہیں مل سکا ، آپ جب کبھی چھوٹے سفر پر جاتے تھے تو ہفتوں پہلے اس کی تیاریاں ہوتی تھیں ، حفاظتی دستے آگے چلتے تھے ، حشم و خدم کے ساتھ لشکر ہم رکاب ہوتے تھے ، اتنے لمبے سفر میں جس میں واپسی بھی ناممکن ہے آپ نے تیاری نہیں کی ؟ “ہارون الرشید نے جب یہ سنا تو روپڑے اور کہا : ” بہلول!ہم تمہیں دیوانہ سمجھاکرتے تھے ،مگر آج پتا چلا کہ تمہارے برابر کوئی حکیم نہیں ہے “۔
بہلول ایک مرتبہ کسی قبر میں پاو¿ں لٹکائے مٹی سے کھیل رہے تھے ۔کسی نے پوچھا : ”بہلول ! یہاں کیا کر رہے ہو ؟ “ کہنے لگے : ” ایسے لوگوں کے پاس ہوں کہ اگر ان کی صحبت میں رہوں تو مجھے تکلیف نہیں دیتے اور اگر ان سے دور رہوں تو میری غیبت نہیں کرتے ۔“
پوچھنے والے شخص نے کہا : ” مہنگائی بہت بڑھ گئی ہے ،اس کی کمی کے لیے دعاءکریں “ بہلول مجذوب کہنے لگے :”خدا کی قسم !مجھے تو کوئی پروا نہیں ، چاہے گندم کے ایک دانے کی قیمت ایک دینار ہی کیوں نہ ہوجائے ، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کاہم پر یہ حق ہے کہ ہم اس کے حکم کے مطابق اس کی عبادت کریں اور اللہ پر ہمارا یہ حق ہے کہ وہ اپنے وعدے کے مطابق ہمیں رزق دے ، جب رزق کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ کی ہے تو فکر کرنے
کی مجھے کیا ضرورت؟“۔