میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد نہ ہو ،یہ ہو نہیں سکتا ، جسٹس منصور علی شاہ

سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد نہ ہو ،یہ ہو نہیں سکتا ، جسٹس منصور علی شاہ

ویب ڈیسک
اتوار, ۱۱ اگست ۲۰۲۴

شیئر کریں

 

سپریم کورٹ کے سینئرترین جج جسٹس منصور علی شاہ نے سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عمل درآمد آئینی تقاضا قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ بات ذہن نشین کر لیں ہو نہیں سکتا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد نہیں ہو سکتا، انتظامی اداروں کو سمجھنا ہوگا ان کے پاس فیصلوں پر عمل درآمد کے سوا کوئی چوائس نہیں ہے۔اسلام آباد میں اقلیتیوں کے حقوق سے متعلق عدالتی فیصلے کے دس سال مکمل ہونے پر کانفرنس کا انعقاد کیا گیا، جس سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ مجھے قائم قام چیف جسٹس پاکستان کہا گیا جو درست نہیں۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ میں سینئر ترین جج ہوں قائم قام چیف جسٹس نہیں، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ میرے دوست ہیں اور وہ چیف جسٹس پاکستان ہیں، میں سینیئر ترین جج ہی ٹھیک ہوں۔سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج نے کہا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ تندرست اور توانا ہیں، اللہ پاک ان کو صحت دے۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ہمارا آئین بہت خوب صورت ہے، افسوس کی بات ہے سپریم کورٹ کے 2014 کے فیصلے پر عمل درآمد نہیں ہو سکا، اقلیتوں کے بنیادی حقوق سے متعلق سپریم کورٹ نے 2014 میں فیصلہ دیا، یہ ممکن نہیں کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد نہ ہو لیکن یہاں ایک مثال بنی ہوئی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ یہاں سب بیٹھے ہیں اور وہ سمجھتے ہوں گے کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں پر ایسے عمل درآمد نہیں ہوتا تو ایسا نہیں ہے، سپریم کورٹ کے فیصلوں پر بالکل عمل درآمد ہوتا اور یہی آئین کا ڈھانچہ ہے۔انہوں نے کہا کہ حال ہی میں ہم نے کہا ہے کہ یہ بات ذہن نشین کر لیں ہو نہیں سکتا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد نہ ہو، اگر ایسا سوچاجائے گا تو آئین کی خلاف ورزی ہوگی، انتظامی اداروں کو سمجھنا ہوگا ان کے پاس کوئی سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عمل درآمد کے سوا کوئی چوائس نہیں ہے، یہ میں نہیں کہہ رہا بلکہ آئین کہتا ہے اور سپریم کورٹ یہ اختیار آئین سے لیتی ہے کسی اور دستاویز سے نہیں لیتی ہے۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کسی کے پاس چوائس نہیں ہے کہ ٹھیک نہیں ہے غلط ہے، آئین کہتا ہے یہ فیصلہ ہے اس پر عمل درآمد ہونا چاہیے، یا پھر سارا ڈھانچہ تبدل کرلیں کچھ اور بنالیں لیکن اس وقت جو آئین ہے اور آئین کا ڈھانچہ ہے اس کے مطابق یہی پوزیشن ہے، کسی فیصلے یا حکم کو مسترد یا تاخیر نہیں کی جاسکتی ہے ورنہ ساری قانونی نظام کو آپ بگاڑ کر رکھ دیں گے، آئین کا سارا توازن خراب کردیں گے اگر آپ اس طرف چل پڑے کہ فیصلے پر عمل درآمد نہیں ہونی چاہیے تو ایسا ہو نہیں سکتا۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں