میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
سیاست کی کہانی فلموں کی زبانی

سیاست کی کہانی فلموں کی زبانی

ویب ڈیسک
پیر, ۱۵ جولائی ۲۰۲۴

شیئر کریں

ڈاکٹر سلیم خان

ایوان پارلیمان کے حالیہ اجلاس میں وزیر اعظم نے فلم شعلے میں بسنتی کی موسی کا ریکارڈ اتنا بجایا کہ وہ گھس گیا اور اس پر سوئی پھسلنے لگی۔ مودی کے مزاحیہ مکالمات پر ان کے اپنے ارکان پارلیمان ہنسنے کے بجائے اوب کر جمائی لینے لگے مگر موصوف یہ بتانا بھول گئے کہ بیچاری زعفرانی بسنتی کو تو امیٹھی میں سانبھا نے شکست سے دوچار کردیا۔ سردار نے بھی منہ پھیر کر وزیر تک نہیں بنایا ورنہ اسے اپنی دھنو کے ٹانگے پر سرکاری مکان خالی کرنے کی نوبت نہیں آتی ۔ مودی جی کو یاد رکھنا چاہیے کہ فلم شعلے میں جب ویرو اور جئے کو گبر نے اس کے حوالے کرنے کی دھمکی دے دی تھی تو سارے گاوں والے موت سے خوفزدہ ہوکر اس کے لیے راضی ہوگئے تھے مگر رحیم چاچا کے عزم وحوصلہ نے منظر بدل دیا ۔ ایک ایسے نازک وقت میں جب ٹھاکر بلدیو سنگھ کی گرجدار للکار اور ویرو کے ایثار و قربانی سے بھری پیشکش سے گاوں والوں کا من نہیں بدلا تو امام صاحب کی نصیحت نے ان کے دل سے گبر ّ کا ڈر نکال دیا ۔ بزدلی کی جگہ جوانمردی نے لے لی اور رام گڈھ کے اندر جان پڑ گئی ۔
حالیہ انتخاب سے قبل ملک کا گودی و باغی میڈیا دن رات گبرّ سنگھ (پردھان سیوک ) کی یہ دھمکی نشر کررہا تھا کہ ” رام گڑھ کے واسیو دیکھ لو ٹھاکر (راہل) کی باتوں میں آکر گبرّ سے ٹکرانے کا انجام ۔ اگراب بھی تم سیدھے راستے پر نہیں آئے تو رام گڑھ کے ہر آنگن میں موت ناچے گی ۔اس لیے اگر جان مال کی امان چاہتے ہو تو ٹھاکر کے دونوں آدمیوں کو پرانی ٹیکڑی پر ہمارے حوالے کردو”۔ یہ کوئی خالی خولی دھمکی نہیں تھی بلکہ اسے رحیم چاچا کے بیٹے احمد کی لاش کے ساتھ روانہ کیا گیا تھا۔ وہی احمد جس کو رخصت کرتے ہوئے نا بینا رحیم چاچا نے کہا تھا ‘ہمارے بزرگ کہا کرتے تھے جان کا صدقہ مال ہے اور عزت کا صدقہ جان ہے ‘۔احمد کی لاش سے گاوں والے اس قدر خوفزدہ ہوگئے کہ ان پر ٹھاکر بلدیو سنگھ کا مکالمہ ‘ دینا ناتھ اس دنیا میں عزت سے جینا ہے تو کچھ مول تو دینا ہوگا’ بھی بے اثر ہوکر رہ گیا۔اس وقت گاوں والوں نے مایوس ہوکر کہہ دیا کہ’ ہم یہ بوجھ نہیں اٹھاسکتے ‘ تو ایسے میں رحیم چاچا نے سوال کیا ‘ کون یہ بوجھ نہیں اٹھا سکتا بھائی؟جانتے ہو دنیا کا سب سے بڑا بوجھ کیا ہوتا ہے ؟ باپ کے کندھے پر بیٹے کا جنازہ ۔ میں بوڑھا یہ بوجھ اٹھا سکتا ہوں اور تم ایک مصیبت کا بوجھ نہیں اٹھاسکتے ؟ بیٹا میں نے کھویا ہے میں نے ، پھر بھی میں یہی چاہوں گا کہ یہ دونوں اسی گاوں میں رہیں ۔ آگے آپ کی مرضی’۔ اسی وقت اذان شروع ہوجاتی ہے اور امام صاحب مسجد کی جانب چل پڑتے ہیں۔ خوف و دہشت کے ماحول میں اسی اسلامی شعار کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہندوستانی مسلمان نہ صرف فسطائیت کے خلاف سینہ سپر ہوگئے بلکہ اس کا سرکچل دیا۔ انہوں نے رحیم چاچا کی طرح یہ کہہ کر سناٹا توڑ دیا تھا کہ ‘اتنا سناٹا کیوں ہے بھائی ؟’ فلم شعلے کا یہ مکالمہ ‘کتنے آدمی تھے ؟’ سے کم مقبول نہیں ہوا ۔
امام صاحب نے حزن ویاس پر قابو پانے کے بعد جب مسجد کی جانب بڑھتے ہوئے یہ کہا کہ” میں اللہ سے آج یہ پوچھوں گا کہ مجھے دوچار اور بیٹے کیوں نہیں دئیے کہ جو گاوں کی تحفظ کی خاطر اپنی جان کا نذرانہ پیش کرتے تو گاوں والوں کے دل سے موت کا خوف ہوا ہوگیا ۔ یہ شعلے کا وہ ٹرننگ پوائنٹ ہے جہاں سے گبر ّ کا زوال شروع ہوتا ہے ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ملک کے سیاسی منظر نامہ پر ڈاکوگبرّ سنگھ ہنوز کیفرِ کردار کو نہیں پہنچا مگر اس کے عبرتناک انجام کی داغ بیل پڑ چکی ہے ۔ اب دلیّ سے پانچ میل دور تو کجا ایوانِ پارلیمان میں بھی جب بچہ رکن پارلیمان چلاتا ہے تو اس کا رہنما یہ نہیں کہتا کہ چپ ہوجا ورنہ گبرّ آئے گا۔ اس تبدیلی میں بہت سوں کا حصہ ہے مگر سہرا رحیم چاچا کے سر جاتا ہے ۔ فلم کے پردے پر جو کام ‘امام صاحب’ نے کیا حقیقت کی دنیا میں وہی ذمہ داری ہندوستانی مسلمانوں نے ادا کی ہے ۔ ملک کے اندر چھائی خوف و دہشت کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں عزم و ہمت کا چراغ جلانے کا جو کارنامہ اس نازک گھڑی میں امت نے ادا کیا ہے اس کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں ہے ۔ ملت نے تو احمد فراز کے اس شعر پر عمل کرکے دکھا دیا
شکوئہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
سیاسی منظر نامہ کی تبدیلی میں مختلف طبقات نے اپنا اپنا کردار ادا کیا۔ ہندو سماج کے اندر اس دوران جو تبدیلی لائی گئی اس کو وزیر اعظم کے چہیتے اداکار اکشے کمار کی دوفلموں سے سمجھا جاسکتا ہے ۔ 2012میں اکشے کمار کی او ایم جی (او مائی گاڈ) ریلیز ہوئی تھی ۔ اس کا مرکزی موضوع ایک آسٹریلیائی فلم سے چرایا گیا تھا جس میں ایک ملحد نعوذ باللہ خدا پر مقدمہ درج کردیتا ہے ۔ او ایم جی میں اکشے کمار ملحد عقائد کے باوجود مورتیاں فروخت کرتا ہے مگر ساتھ ہی بتوں کو برا بھلا بھی کہتا رہتا ہے ۔ سوئے اتفاق سے پاس پڑوس کی دوکانوں کو چھوڑ کر اسی دوکان پر بجلی گرجاتی ہے ۔ مذہبی لوگ اس تباہی کو خدائی عذاب سے منسوب کرتے ہیں تو وہ عدالت سے رجوع کرکے نعوذ باللہ خدا کے خلاف عرضی داخل کردیتا ہے ۔ اکشے کے خلاف سارے دھرم گرو میدان میں اتر جاتے ہیں مگر اس کا وکیل پریش راول سب کی دھجیاں اڑا دیتا ہے ۔اس فلم کا مرکزی کردار گجراتی ہے اور اتفاق سے اس وقت نریندر مودی گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے ۔ انہوں اس فلم کے خلاف کوئی احتجاج نہیں کروایا بلکہ ہندو دیوی دیوتاوں سمیت دھرم گرووں کا مذاق اڑانے والے پریش راول کو ٹکٹ دے کر پارلیمان کا رکن بنوا دیا ۔
2023 کے آتے آتے منظر بدل گیا ۔ فلم او ایم جی ٢ میں ہندو دیوی دیوتاوں کا تمسخر اڑانے والا اکشے کمار بذاتِ خود شیو کے کردار میں نظر آ تا ہے ۔ سنسر بورڈ نے جب اس کی اجازت نہیں دی تو اسے شیو کا پیغامبر بناکر پیش کیا جاتا ہے ۔ دراصل فلم کے پردے پر ہونے والی تبدیلی وہی ہے جو وزیر اعظم کی شبیہ میں واقع ہوئی کہ ‘چائے والا’ سے پہلے وشنو کا اوتار اور پھر نمائندہ بن گئے ۔ او ایم جی ٢ میں بت پرستی کا توہم پرستی کے بجائے نوجوانوں میں جنسی مسائل کو مرکزی موضوع بنایا گیا ۔ اس کے برعکس شاہ رخ خان نے ‘جوان’ بناکر ملک کے سیاسی حالات ، تشدد، بدعنوانی اور ووٹ کی اہمیت پر ایسا پیغام دیا کہ جس نے نوجوانوں کی سوچ کا دھارا بدل دیا ۔ فلم جوان نے او ایم جی پانچ گنا زیادہ کاروبار کرکے راہل اور مودی کا فرق بھی واضح کردیا ۔ بی جے پی نے اپنے سیاسی مفادات کے حصول کی خاطر فلموں کا استعمال کرنے کی کوشش کی ۔ اس کا سب سے بھونڈا اظہار کشمیر فائلس نامی فلم تھی ۔
کشمیر فائلس جیسی گھٹیا فلم کا ٹیکس معاف کیا گیا اور پھر تشہیر کے لیے وزیر اعظم ، وزیر داخلہ اور اترپردیش کے یوگی بھی اپنے دھرم کی مریادہ(وقار) بھول گئے ۔ پورے پورے تھیٹر بُک کیے گئے ۔ لوگوں کو مفت میں دکھا نے کا اہتمام کیا گیا نیز قومی ایوارڈ دینے کی خاطر ایک یہودی جیوری کو بلایا گیا۔ اس باضمیر شخص نے کشمیر فائلس کو پروپگنڈا فلم قرار دے کر اس کے انتخاب پر سوالیہ نشان لگا دیا اور وہ خواب چکنا چور ہوکر رہ گیا۔ اس کے بعد کیرالہ اسٹوری بنی جس کو عوام نے مسترد کردیا اور ‘ہم دو ہمارے بیس ‘ میں عدالت نے مداخلت کرکے قرآن مجید کے خلاف باتوں کو نکلوا دیا۔ یہ فلم کیرالہ اسٹوری سے بھی بڑی فلاپ ثابت ہوئی ۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے آقاوں اور بھگتوں کی خوشنودی کے بنائی جانے والی ان فلموں کی ناکامی کے پس پشت کئی وجوہات تھیں ۔ ان میں سے ایک پروپگنڈا فلموں کے خلاف عوام کا غم و غصہ تھا ۔ اس کا ثبوت اس وقت سامنے آیا جب بھگتوں نے شاہ رخ کی فلم پٹھان کے نغمہ ‘بے شرم رنگ’ پر اعتراض کرتے ہوئے اسے ہندو مذہب کی توہین بتایا ۔
وزیر اعلیٰ یوگی نے جوش میں آکر یہاں تک کہہ دیا کہ شاہ رخ کو پتہ ہونا چاہیے کہ اگر ملک کا اکثریتی طبقہ ان کی فلمیں دیکھنا بند کردے تو وہ بھی عام مسلمانوں کی مانند سڑک پر آجائیں گے ۔ یوگی جی بھول گئے کہ عام مسلمانوں کی مانند عام ہندو بھی سڑک پر ہی ہے وہ تو ان کا جذباتی استحصال کرنے والے ڈھونگی رہنما ہوا میں اڑتے پھرتے ہیں ۔ خیر شائقین نے پٹھان کو سوپر ڈوپر ہٹ کردیا۔ ہندوستان کے سیاسی افق پر عامر خان کی فلم ‘ پی کے ‘ کا ہیرو راہل گاندھی کے نمودار ہونے سے عوامی رجحان میں بہت بڑی تبدیلی واقع ہوئی ۔ راہل گاندھی نے اپنی یاتراوں کے ذریعہ پہلے تو سڑک پر مودی کا جینا دوبھر کیا اور پھر ایوان پارلیمان میں بھی شیو کی تصویر کے ساتھ تمام مذاہب کی علامات پیش کرکے ملک کے کثیرالمذہب ہونے کا اعلان کیا ۔ ستم بالائے ستم سنگھ پریوار نے سوچا بھی نہیں تھا کہ ٩٩ سال کی محنت کے بعدجب وہ اقتدار میں آجائیں گے تو ان کے وزیر اعظم کے منہ پر کوئی اٹھ کریہ کہہ دے گا کہ بی جے پی اور آر ایس ایس نہ تو ہندو ہیں اور نہ ان کے نمائندے ہیں نیز راہل کے اس بیان کوشنکر آچاریہ کی تائید بھی مل جائے گی۔ سچ تو یہ ہے کہ راہل نے مودی کا وہی حال کیا جو فلم ‘پی کے ‘ میں ہندو مسلمان کرنے والے دھرم گرو کا ہوا تھا۔ چھپنّ انچ کے سینے ہوا نکال کر راہل نے گبر ّ کے پر کتر دئیے ہیں ۔ اب وہ ہوا میں اڑنے کے بجائے دو عد بڑی اور کئی چھوٹی موٹی بیساکھیوں کے سہارے گھسٹنے پر مجبور ہوگیا ہے لیکن فلم ہنوز اپنے انجام پر نہیں پہنچی۔ شائقین کو اس کے دلچسپ کلائمکس کا انتظار ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں