دوست دشمن کی تمیز
شیئر کریں
سمیع اللہ ملک
میرے بہت ہی عزیزدوست اورمشہورصحافی نے اخبارمیں سکھ مسلمانوں کے تعلقات کے بارے میںبالواسطہ اس موضوع کوچھیڑدیا،جس کے بعد میں یہ لکھنے پرمجبورہوگیاہوں کہ اس کے بارے میں تاریخی حقائق سے قارئین کوآگاہ کرسکوں۔
”اوبھراگامیاتوتے آزاد ہوگیاپراسی تے ہمیشہ لئی غلام ہوگئے،اج اسی اپنے پرکھاں اگے بڑے شرمندہ ہاں اوراپنی آون والی پیڑھی اگے بڑے شرمندہ ہا”(اوبھائی غلام محمد تم توآزادہوگئے لیکن ہم توہمیشہ کیلئے غلام بن گئے ہیں،اپنے بزرگوں کے سامنے بڑے شرمندہ ہیں اوراپنی آنے والی نوجوان نسل کے سامنے بھی شرمندہ ہیں)۔یہ رقت آمیزمنظرتیس سال کے بعدمیری آنکھوں کے سامنے آج پھرتازہ ہو گیا کہ جس نے ہردیکھنے والے کوآبدیدہ کردیاتھاجب ساراگاؤں دودیرینہ دوستوں باباغلام محمداورباباہرنام سنگھ کی نہ رکنے والی آو وزاری اور سسکیوں کے ساتھ سفید داڑھیوں کوترکرتیہوئیبے اختیار بہتے آنسوں کودیکھ رہاتھا۔یہ دونوں دوست قیام ِ پاکستان کے بعدپہلی مرتبہ مل رہے تھے اورہرنام سنگھ اور باباغلام محمد اس پیرانہ سالی میں ایک دوسرے کو اس طرح مل رہے تھے جیسے ایک دوسرے کے اندرضم ہوجائیں گے۔ مسلم سکھ دوستی کی اس مشترکہ میراث کوظالم طاقتوں نے جداتو کر دیالیکن ان کی محبت والفت کوپانچ دہائیوں کافراق اورمضبوط کردے گا، اس کی کسی کوبھی توقع نہ تھی۔
سکھ مذہب کے بانی اورپہلے گرو”بابانانک”15/اپریل1469لاہوراورشیخوپورہ کے وسط ایک گاؤں”بھوئے دی تلونڈی (موجودہ ننکانہ)”میں ایک کھتری نسل کے ہندوکلیان چاند داس بیدی جو”کالومٹھا”کے نام سے مشہورتھے،کے گھرمیں پیداہوئے ۔اس وقت ہندوستان پرسلطان لودھی کی حکومت تھی۔باباگرونانک کے والدعلاقے کے ایک مسلمان جاگیرداررائے بلواربھٹی کے ہاں پٹواری تھے۔ سکھوں کے ہاں نومبرکے مہینے میں چوہدویں کے چاند کی رات کوان کے جشن پیدائش پر”اکاش دیواس ”منایاجاتاہے،اوراسی جشن میں شمولیت کیلئے60سکھ خاندانوں کایہ گروپ میرے ساتھ پاکستان گیاجہاں حکومتی اورعوامی سطح پربڑے والہانہ استقبال نے لاہور ائیرپورٹ پرتمام سکھ خاندان کے افرادکونہ صرف حیران بلکہ آبدیدہ کردیا۔اس دوران ہمیشہ کی طرح پاکستانی حکومت کے علاوہ پاکستانی عوام نے دل کھول کران سکھوں کی خدمت میں کوئی کسرنہیں چھوڑی۔
بابا گرونانک کابچپن ان کی ہمشیرہ کے سسرال میں گزرا۔ان کی ہمشیرہ کانام ”بے بے نانکی”تھا۔سکھ روایات کے مطابق پانچ سال کی عمر سے ہی باباجی مذہبی کہانیوں میں بہت زیادہ دلچسپی لیتے تھے۔ان کے والدنے انہیں سات سال کی عمرمیں روایتی تعلیم کیلئے اسکول میں داخل کروادیا۔ فطری ذہانت کے باعث بہت جلداپنے ہم جولیوں سے آگے نکل گئے۔نو سال کی عمرمیں جب پروہت نے ایک مذہبی تقریب میں جانونامی دھاگاپہناناچاہاتوانہوں نے اس رسم کواداکرنے سے انکارکردیاگویا ان کے اندرتوحیدکی ایسی کوئی کرن چھپی ہوئی تھی جس نے ان کوایسے انکارکی طاقت فراہم کی۔اپنی ذہانت کے بل بوتے پرسنسکرت کے علاوہ عربی اورفارسی پران کومکمل عبورحاصل تھا۔ بابا کے بہنوئی لاہورمیں گورنر کے ہاں ناظم جائدادکی حیثیت سے ملازم تھے،سرکاری امورکی ادائیگی میں باباجی اپنے بہنوئی کاہاتھ بھی بٹاتے تھے۔باباگرونانک کے اس مذہبی رحجان نے سب سے پہلے ان کی ہمشیرہ ”بے بے نانکی”کواس قدرمتاثرکیاکہ انہوں نے باباگرونانک کو اپنا روحانی پیشواتسلیم کرلیا۔
باباگرونانک کایہ بچپن سے معمول تھاکہ وہ سورج نکلنے سے قبل گھرکے قریب ندی کے ٹھنڈے پانی میں اترجاتے اوروہاں خدائے واحد کی حمدبیان کرتے تھے۔سکھ روایات کے مطابق1499تیس سال کی عمرمیں باباجی نے گاؤں کے قریب”کالی بین”ندی میں ایک گہرا غوطہ لگایااورجب کافی دیرتک اپنے دوستوں کے پکارنے پربھی پانی کی سطح پرنہ آئے توان کے دوستوں کوبڑی تشویش ہوئی۔گاں میں موجود دولت نامی مسلمان غوطہ خورنے ندی کاوہ خاص حصہ چھان مارا لیکن بابا جی کاکوئی سراغ نہ مل سکا۔گاؤں والوں کوبابا جی کے ڈوب جانے کاقطعی یقین ہوگیالیکن تین دن کے بعدبابا جی اچانک اپنے گھرلوٹ آئے لیکن اپنے غائب ہونے کے بارے میں ایک دن مکمل خاموش رہے۔اگلے دن لوگوں کے بے انتہااصرارپر اپنی خاموشی توڑتے ہوئے بولے:
”نہ کوئی مسلمان ہے اورنہ ہی کوئی ہندوہے،توپھرمیں کس کے راستے پرچلوں؟میں توبس خداکے راستے پرچلوں گاجو نہ مسلمان ہے نہ ہندوہے”۔انہوں نے اپنے غائب ہونے کی بابت یہ بھی بتایاکہ ان تین دنوں میں انہیں خداکے دربارمیں لے جایاگیاجہاں انہیں ”امرت”خدائے واحد کی محبت کاجام پلایاگیاجہاں انعام کے طورپرخدانے اپنی رحمتوں اوربالا دستی کاوعدہ فرمایا۔خدانے اسی توحیدکے پیغام پرعمل کرنے اوردوسروں کوپہنچانے کاحکم بھی دیا،جس کے بعدباباجی نے فوری طورپر اپنی کل جمع پونجی غریبوں میں تقسیم کردی اوراپنے بہت ہی قریبی دومسلمان دوستوں”بالامطرب اورمردانہ”کے ہمراہ اسی توحیدی عقائدکی ترویج کیلئے گاؤں چھوڑکرایک لمبے سفرپرروانہ ہوگئے۔
سکھ روایات کے مطابق باباگرونانک کے پہلے چارطویل سفروں(اداسی)میں بلا شبہ ہزاروں میل کی طویل مسافت میں ”توحید”یعنی خدائے واحد کے سچے پیغام کادرس مقصود رہا ۔ بنگال سے آسام،تامل ناڈو،کشمیر،لداخ،تبت اورآخری مشہورسفر بغدادسے ہوتے ہوئے مکہ مکرمہ اورمدینہ منورہ کے علاوہ دیگرعرب ممالک میں بھی اپنے عقیدے کے پرچارمیں مشغول رہے۔ان کاآخری اورپانچواں سفر اندرون پنجاب رہاجہاں انہوں نے بے شمارمریدوں کوبت پرستی کی لعنت سے آگاہ کرتے ہوئے توحیدکی طرف مائل کیااوراس پیغام میں ان کے دومسلمان ساتھی”بالااورمردانہ”ان کے پیغام کوگیت اورسنگیت کی شکل میں ڈھال کرلوگوں کومتوجہ کرتے تھے۔باباگرونانک نے ابتدائی تعلیمات میں سب سے پہلے جھوٹ کوترک کرنے، مذہب کی غیرضروری رسومات سے پرہیز،مذہبی کتب کے عین مطابق زندگی گزارنے کے اصول اوربغیرکسی وسیلے کے اللہ تک رسائی کی تعلیمات سے روشناس کروایااوراس کے ساتھ ساتھ انسان کے اندرچھپے ہوئے پانچ خطرناک امراض (چھپے ہوئے چوروں)تکبر،غصہ،لالچ،ناجائزخواہشات اورشہوت سے مکمل پرہیزکاحکم دیا گویاتوحیدکادرس اورپانچ امراض کی نشاندہی یقینااسلام کے وہ بنیادی سنہری اصول ہیں جن سے باباگرونانک اس قدرمتاثرہوئے کہ انہوں نے بھی اپنے عقیدت مندوں کیلئے ان کوضروری جانا۔
انہوں نے سکھ مذہب کی مکمل عمارت تین ایسے بہترین رہنماستونوں پراستوارکی جس سے ان کی مذہب اسلام سے محبت اوریکسانیت کاپتہ چلتاہے:
1۔نام جپنا:اس سے مراد خدا کانام لیتے رہنا،اس کے گیت گاتے رہنااورہر وقت اسی کو ذہن وزبان میں تازہ رکھناہے۔جبکہ قرآن ہمیں یہ حکم دیتا ہے کہ”اے اہل ایمان خدا کا کثرت سے ذکرکیاکرو۔33:41
2۔کرت کرنی:اس سے مراددیانت داری سے محنت کر کے رزق حلال کماناہے جبکہ اللہ نے قرآن کریم میں دعاؤں کی قبولیت کی اولین شرط رزق حلال کوقراردیاہے۔
3۔ونڈچھکنا:اس سے مراد دولت کوبانٹناہے اورمل جل کرکھاناہے۔قرآن ہمیں یہ سبق دیتاہے کہ”بیشک صدقات(زکوٰة)محض غریبوں اورمحتاجوںاوران کی وصولی پرمقررکئے گئے کارکنوں اورایسے لوگوں کیلئے ہیں جن کے دلوں میں اسلام کی الفت پیدا کرنا مقصود ہو اور (مزید یہ کہ)انسانی گردنوں کو(غلامی کی زندگی سے)آزادکرانے میں اورقرض داروں کے بوجھ اتارنے میں اوراللہ کی راہ میں(جہادکرنے والوں پر)اورمسافروں پرزکوٰة کاخرچ کیاجاناحق ہے یہ سب اللہ کی طرف سے فرض کیاگیاہے،اوراللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہے (60:9)۔گویاباباگرونانک کے وضع کردہ سکھ مذہب کے تینوں بنیادی اصول قرآن کریم سے ماخوذ ہیں۔
گرو نانک سکھ مذہب کے صرف بانی ہی نہیں بلکہ وحدانیت،تصوف اورروحانیت کاپرچارک بھی ہیں۔آپ مسلمانوں کے عظیم روحانی پیشواحضرت بابافریدگنج شکرکے ہمعصرتھے ۔ اپنے طویل تبلیغی سفروں میں باباگرونانک کوکئی جیدمسلمان عالم مبلغوں کے ساتھ ملاقات اور مکالمے کے کئی مواقع ملے۔ہمیشہ سے صوفی منش مبلغ مسلمان اپنے مدارس اور خانقاہوں پرغریبوں کے مفت کھانے پینے کاخصوصی اہتمام کرتے چلے آئے ہیں جوابھی تک جاری وساری ہے جس کوعرفِ عام میں ”لنگر”کانام دیاجاتاہے۔باباگرونانک نے بھی اپنے طویل سفر کرنے کے بعدبقیہ زندگی گزارنے کیلئے1522میں کرتار پور گاؤں کی بنیادرکھی(جوبھارت اورپاکستان کی سرحدپرپاکستان میں واقع ہے)جہاں”کرتان اور لنگر”کی تقریبات کاآغازکرتے ہوئے اپنے عقائدکی ترویج وتبلیغ کے ساتھ ساتھ غریبوں کومفت کھانے پینے کی سہولت فراہم کی۔سکھ مورخین کے مطابق اس دھارمک بستی کیلئے جہانگیربادشاہ نے اپنی شہزادگی کے دوران ہی گروارجن صاحب کو نذر کر دی تھی۔اس جگہ پرگرو صاحب نے ایک دھرم شالہ بھی بنوائی۔مشہورسکھ سکالرگیانی گیان سنگھ کے مطابق کرتارپورکوآبادکرنے کی تحریک ایک مسلمان میرعظیم خان نے شروع کی تھی اورکرتارپورپنجاب کی ایک مقدس بستی بن گئی تھی۔اکبربادشاہ باباگرونانک سے خصوصی محبت کرتے تھے جس کی وجہ سے انہوں نے کرتارپورکیلئے ساری زمین تحفہ میں دی تھی۔
اسی طرح امرتسرشہرکی ابتداکے بارے میں یہ ذکربھی تاریخ میں ملتاہے کہ مغلیہ سلطنت کے شہنشاہ اکبرنے امرتسرکا علاقہ سکھوں کے چوتھے روحانی پیشواگرورام داس کودے دیاتھا اور رام داس نے یہاں رام داس پورکی بنیاد ڈالی جس کانام بعدمیں امرتسرہوالیکن یہ بھی کہا جاتا ہے کہ شہنشاہ اکبرنے1565میں گروامرداس اورپھر1579میں گرورام داس اور1606 میں گروارجن دیوکوعلاقے کی پیشکش کی تھیں جنہیں ان تینوں اشخاص نے قبول نہیں کیاتھا۔گروامرداس کی نسبت یہ بھی تاریخ میں آتاہے کہ جاگیرقبول کرنے سے انکار کے بعد اکبر نے وہ جاگیرجس پرامرتسرقائم ہوا،امرداس کی بیٹی بی بی بھانی کوشادی کے تحفے کے طورپر دے دی تھی جس سے امرداس انکارنہ سکے، مزیدیہ کہ اکبرنے سکھوں کے تمام علاقوں کو محصول اداکرنے سے آزادکردیاتھا۔امرتسرکیلئے پرانے نام رام داس پورکے علاوہ گروچک اور رام داس چک بھی استعمال ہوتے رہیں ہیں۔کرتارپور (پاکستان ) میں 1539میں اپنے انتقال سے قبل گرونانک نے گرو انگددیو کو نیا گرونامزدکردیاتھاپھر تیسرے گروامرداس(1479تا1574)کے بعدآنے والے چوتھے گرورام داس 1534 تا1581نے امرتسر کے پرانے تالاب کی مرمت کاکام شروع کیااوراس کے درمیان میں ایک مندریاگردوارادربارصاحب تعمیرکیاجس کوہری مندربھی کہا جاتا ہے۔ شہنشاہ اکبراوراس کے بعدبھی عمومی تعلقات رام داس پور(امرتسر)سے نہ صرف اچھے رہے بلکہ مغلیہ سلطنت میں رام داس پورکی حیثیت نیم خودمختار علاقے کی سی تھی۔
امرتسرمیں واقع دربارصاحب کیلئے زمین بھی اکبربادشاہ نے ہی دی تھی۔1589میں لاہورکے نیک سیرت فقیراورمشہور خدارسیدہ بزرگ حضرت میاں میرصاحب نے اس کا سنگ بنیادرکھا۔گوروارجن جی کاپیارسب سے زیادہ میاں میرجی سے تھا۔ یہ مسلمان فقیر تھے، جن کے ہاتھوں گروجی نے ہرمندرصاحب کی بنیادرکھوائی تھی(بحوالہ رسال ہنویاں قیمتاں جنوری1949)۔ گوروصاحب نے صرف اس پوتر استھان کی بنیادہی ایک پوترمسلمان کے ہاتھوں سے نہیں رکھوائی بلکہ زمین بھی ہرمندر کیلء یوہ چنی جوایک مسلمان بادشاہ اکبرکی طرف سے نذرکی گئی تھی۔(بحوالہ بھارتی راشٹریہ کانگریس امرتسر1956)۔ اس بارے میں ایک سکھ ودوان یوں لکھتے ہیں:1923میں جب تالاب کی سیواکی گئی تومالیرکوٹلہ کے نواب کی جتھے داری کے ماتحت دوسوانتہائی معززمسلمان پوترگارے کی ٹوکریاں اٹھانے کیلئے امرتسرآئے تھے۔بحوالہ رسالہ خالصہ پارلیمنٹ گزٹ اکتوبر1956 بعدازاں مہاراجہ رنجیت سنگھ کے زمانے میں اس کا سنہری جڑا بھی ایک مسلمان انجینئرمحمدیارخان نے تیارکیاتھا۔ایک مشہورسکھ سکالرسردارگوربخش سنگھ شمشیرلکھتے ہیں: ایک مسلمان فقیرحاجی محمدمسکین بابا گرو نانک کے پیارکی کشش میں امرتسرآئے اور31دسمبر1925کودن کے دوبجے انہوں نے ایک بہت قیمتی چندن کاچنوربڑی عقیدت سے بھائی ہیرا سنگھ راگی کی معرفت دربارصاحب کی نذرکیا۔اس نانک پریمی مسلمان نے یہ چندن کاچنورپانچ برس اورسات مہینے کی محنت سے تیارکیاتھاجس کی ایک لاکھ پینتالیس ہزارباریک تاریں ہیں۔ان کو9من14سیرچندن سے تیارکیاگیاتھا۔آج کل یہ چنور بڑی حفاظت کے ساتھ جلوخانے میں رکھاہواہے۔جب یہ چندن کاچنورفقیرنے نذرکیاتھاتوسری ہرمندرکی طرف سے ایک سو پونڈکے قیمتی دوشالے ان کوبطورخلعت دیئے گئے تھے۔ بحوالہ رسالہ امرتسرمئی1938سکھوں کی ایک مقدس زیارت پنجہ صاحب پاکستان کے ضمن میں ایک سکھ سکالرگیانی گیان سنگھ یوں لکھتے ہیں:پنجہ صاحب کاتالاب خواجہ شمس الدین صاحب نے بنوایاتھا۔وہاں پرموجود گوردوارہ کو مشہور مسلمان نواب خان آف قلات نے ایک وسیع جاگیر عطاکی تھی۔(بحوالہ گوردھام سنگرہ ص22)
گوروگوبندسنگھ صاحب کے اپنے زمانے کے مسلمان رئیسوں اورعام لوگوں کے ساتھ نہایت دوستانہ تعلقات تھے چنانچہ میر گامے شاہ، میر حسن شاہ،چودھری پیرعلی،بلونت خان، چودھری پھتو،چودھری سمو،جمال خان وغیرہ آپ کے جگری دوستوں میں سے تھے اورآپ کی سیوا کرتے تھے۔سکھ مورخین نے لکھاہے کہ پٹنہ(بہار)میں وہاں کے قاضیوں نے گوروتیغ بہادر صاحب کوایک باغ نذرکیاتھاجسے آج کل گوروکاباغ کہتے ہیں۔بہادرگڑھ(پٹیالہ)میں گوروتیغ بہادرصاحب کئی ماہ ٹھہرے تو وہاں پرایک مسلمان علی خان نے دل وجاں سے آپ کی بہت خدمت وتکریم کی۔متھراکے نواب نے گوروگوبند صاحب کو ایک باغ نذرکیاتھاجسے آج کل نذرباغ کہاجاتاہے۔
بہت سے سکھ مورخین کے علاوہ ایک اورمشہورسکھ سکالرسردارگیان سنگھ لکھتے ہیں:جب پہاڑی راجاؤں اورمہاراجوں نے گرو گوبند صاحب کے خلاف مورچہ شروع کیاتوپانچ سو اداسی سادھوجن کی گوروصاحب کی روٹیوں پرپرورش ہوئی تھی ،موقعہ آنے پرمیدان سے بھاگ گئے۔جب بدھوشاہ کومعلوم ہواتووہ دوہزارسپاہی لے کرمیدانِ جنگ میں آیااور اس لڑائی میں بدھوشاہ کے دوبیٹے بھی گوروصاحب کی طرف لڑتے ہوئے مارے گئے جس کے نتیجہ میں گوروگوبندصاحب کوآنندپور صاحب چھوڑناپڑا،اورآپ ماچھی واڑہ کے جنگلوں میں چلے گئے اورمسلمان حاجیوں کاجیسالباس پہنناپڑا۔اس موقعہ پرسب سے پہلے غنی خان اورنبی خان نے گوروصاحب کی سیوا کیلئے خودکوپیش کیااورانہوں نے گورو صاحب کوپالکی میں بٹھا کرانہیں اپنے کندھوں پراٹھالیا۔اس طرح ان دوبھائیوں نے گوروگوبندسنگھ صاحب کو دشمنوں سے بچاکے محفوظ مقام پرلے گئے۔غنی خان اورنبی خان کی اس خدمت پرگوروصاحب نے ایک حکم نامہ لکھاکہ”نبی خان اورغنی خان مجھے اپنے بیٹوں سے بھی زیادہ پیارے ہیں”۔اس واقعہ کاحوالہ سکھوں کی مختلف کتابوں میں درج ہے جن میں گورپرتاپ سورج گرنتھ ورت، ظفرنامہ سٹیک،جیون کتھااورسکھ اتہاس نامی کتابیں قابل ذکرہیں۔(بحوالہ تواریخ گوروخالصہ اردوص158)سکھ مورخین لکھتے ہیں کہ گوروگوبند صاحب کی پہاڑی راجاؤں کے ساتھ جتنی بھی لڑائیاں ہوئیں ان میں گوروصاحب کی طرف سے بہت سے مسلمان کمانڈربھی شامل رہے اوران لڑائیوں میں بڑھ چڑھ کرحصہ لیا۔ ان کمانڈروں میں یدبیگ،الف خان،صیاد خان، صیادبیگ،میمون خان وغیرہ شامل تھے۔
سکھ مورخین نے دعویٰ کیاہے کہ مغلوں کے آخری فرمانروابہادرشاہ ظفرنے گوروگوبندصاحب کواسلام کی ایک برگزیدہ شخصیت کی ایک یادگاراورمتبرک تلوارنذرکی تھی،جوآج بھی سری کیس گڑھ آنندپورمیں موجودہے۔مذکورہ ایک سکھ وِدوان نے رسالہ سنت پا ہی(اگست1951)میں تحریرکیاہے کہ سکھ ودوان سردارکاہن سنگھ کے مطابق اس تلوارکے ایک طرف کلمہ شریف اوردوسری طرف ”نصرمِن اللہِ وفتح قرِیب” لکھاہے۔الغرض مسلمانوں نے اپنی نہایت مقدس اورلاثانی چیزبھی گوروصاحب کوعطاکی تھی ۔ اس سے اس بات کااندازہ بخوبی لگایاجاسکتاہے کہ مسلمان آپ کی کتنی عزت کرتے تھے اورمسلمانوں اورسکھوں کے درمیان کس قدر خوشگوار تعلقات رہے ہیں۔مغل بادشاہوں کے ساتھ گوروصاحبان کے کس قسم کے خوشگوار تعلقات تھے،اس کااندازہ لگانے کیلئے اوپردرج کئے گئے واقعات نہایت چشم کشاہیں۔جہاں مسلمان بادشاہوں،نوابوں،رئیسوں، ،فقیروں اورصوفیوں نے گوروصاحبان کے ساتھ نہایت دوستانہ اوربرادرانہ تعلقات قائم کئے تھے وہاں سکھ صاحبان نے بھی مسلمانوں کے ساتھ ہمیشہ دوستانہ اورخوشگوارتعلقات قائم رکھے ہیں۔ چنانچہ گوروصاحب نے اپنے خرچے سے کرتارپور ہرگوبندپوراورامرتسروغیرہ جگہوں پرعالی شان مسجدیں بنائی ہیں۔
باباکے جانشین گوروانگدنے ان کی تعلیمات کوعام کرنے کیلئے قدیم کلاسیکی پنجابی زبان میں گرمکھی رسم الخط کومتعارف کرایا۔1551میں امر داس تیسرے گرومنتخب ہوئے،ان کی 1574میں وفات کے بعدچوتھے گورورام داس نے امرتسرکی بستی آبادکی،جس کیلئے شہنشاہ اکبرنے اخراجات اداکرنے کے علاوہ500بیگھے زمین بھی وقف کی۔رام داس کی وفات کے بعد 1581میں ان کابیٹاگروارجن جانشین منتخب ہوئے۔گروارجن دیونے ہی سکھوں کی مقدس کتاب”گوروگرنتھ”مرتب کی جس میں پہلے پانچ گروں کی(1469 سے لیکر 1708 تک239سال پرمحیط تعلیمات)کوگرمکھی زبان میں ہی تحریرکیاگیاہے۔یہ 3381/اشعارپرمشتمل ہے جوکہ ہندوں کی مقدس کتاب”رگ وید”سے تقریباتین گنابڑی ہے۔اس میں باباگورونانک،بھگت کبیر اوربابافریدکے اشعارشامل ہیں۔
سکھوں کے تمام مذہبی مقامات گوردواروں میں یہ کتاب موجودرہتی ہے اورمذہبی تہواروں کے مواقع پراس کتاب کے مندرجات پڑھ کر اورگاکرسامعین کوسنائے جاتے ہیں۔اس کتاب میں سکھوں کے خداکی جوپہچان بتائی گئی ہے وہ بعینہ قرآن مجیدکی دی ہوئی تعلیمات کے عین مطابق ہے۔آج سکھ مذہب کے تمام افرادکثرت سے”ست سری اکال” (سچا،بڑا،خدا)کادعائیہ جملہ استعمال کرتے ہیں جس کا ترجمہ حیرت انگیزطورپر”اللہ اکبر”ہے اورسکھوں کاسب سے بڑانعرہ”واہگوروکاخالصہ واہگورو کی فتح”بھی قرآن کریم کی مشہور آیت…..کہوکہ اے خدا(اے) بادشاہی کے مالک توجس کوچاہے بادشاہی بخشے)کا لفظ بہ لفظ ترجمہ ہے۔چنانچہ دنیاکے دو مذاہب اسلام اور سکھ ایسے مذاہب ہیں جن کے ہاں خدائی کاتصورشرک سے پاک ہے۔
بالآخرکرتارپورمیں ہی پیر22ستمبر1539(9جمادی الاول 946 ھ)کوصوفی منش باباگرونانک اپنے ہزاروں عقیدت مندوں کو داغِ مفارقت دیکراسی رب ِکائنات کی طرف لوٹ گئے جس کاوہ دنیامیں پرچارکیاکرتے تھے۔ان کے جسدِ خاکی کی آخری رسومات کیلئے ہندوؤںاورمسلمانوں میں ٹھن گئی توباباگرونانک کی وصیت کے مطابق یہ فیصلہ کیاگیا کہ باباکے جسدِخاکی کے گردپھول رکھ دیئے جائیں، اگلے دن جن کے پھول تازہ ہوں گے وہی ان کی آخری رسومات کے حق دارہوں گے۔اگلے دن جب چادرہٹائی گئی تولاش غائب تھی اور دونوں اطراف کے پھول تروتازہ تھے۔چنانچہ ہندوؤں نے اپنے حصے کے پھولوں کونذرآتش جبکہ مسلمانوں نے اپنے حصے کے پھولوں کو دفن کردیا،آج کرتارپورمیں دونوں کے مقامات موجودہیں۔
بابا گرونانک کی اہلیہ محترمہ سلاخانی سے ان کے دوبیٹے”سری چند)اور”لکشمی چند”تھے۔سکھ روایات کے مطابق سری چندبہت عابد اور زاہد انسان تھے جن کی لمبی داڑھی اورسرکے طویل بال تھے۔سکھ مذہب کی تعلیمات کے مطابق ہماراجسم خدا(اللہ،بھگوان،جسے بھی آپ خدا مانتے ہیں)کی دین ہے اورہمیں اِسے ویساہی رکھناچاہئے جیساخدانے عطاکیا ہے ۔اس میں غیرفطری طریقوں سے کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں کرناچاہئے،یہ خداکی ناشکری کے مترادف ہے۔اسی حکم کی وجہ سے پختہ عقیدے کے مالک سکھ اپنے جسم کے بال نہیں کٹواتے جبکہ لکشمی چندنے شادی کی اوران کے بھی دوبیٹے ہوئے۔بابا گرونانک نے اپنی تعلیمات سے ہندوؤں اورمسلمانوں کے درمیان مشترکہ مذہبی ہم آہنگی کی بے حد کوشش کی لیکن توحیدتو نام ہی بت شکنی کاہے اسی لئے ایک اورنیاسکھ مذہب وجودمیں آگیا۔مسلمانوں کیلئے بابا گرو نانک کی تعلیمات قطعانئی نہیں کیونکہ یہ وہی تعلیمات ہیں جواس سے قبل آسمانی صحائف،قرآن کریم اورخاتم النبین ۖکی سیرتِ مبارکہ میں موجودہیں۔
لیکن کیاوجہ ہے کہ مسلمانوں اورسکھوں کے درمیان اس قدرمحبت واخوت کارشتہ استوارکرنے والے باباگرونانک کی تعلیمات کوپس پشت ڈال کرسکھوں اورمسلمانوں کے درمیان دشمنی اورنفرت کی ایسی فصیل کھڑی کردی گئی کہ آج کی نوجوان نسل کوآمنے سامنے کھڑا کر دیا گیا لیکن کیاوقت نے ان تمام سازشوں کوبے نقاب کردیاہے؟وہ کیاوجوہات تھیں کہ جن کی بدولت مسلم سکھ دوستی اوربرادرانہ تعلقات دشمنی اورنفرت میں تبدیل ہوگئے۔باباگرونانک سے مسلمانوں کی محبت اور عقیدت کایہ عالم کہ ان کی آخری رسومات کیلئے میدان میں اترآئے اوربالآخرباباکی وصیت کے مطابق ان کے حصہ میں جو تازہ پھول آئے ان کودفن کیاگیااورآج تک وہ جگہ مرجع خلائق ہے اوریہی وہ مقام ہے جس نے ابھی تک سکھوں اور مسلمانوں کومضبوط رشتے میں جکڑرکھاہے۔
باباگرونانک کی بنیادی تعلیمات میں غریبوں،مسکینوں اورکمزورلوگوں کی حمائت کاسبق موجودہے جس کااسلام بھی بڑی سختی سے حکم دیتا ہے۔ بابا گرونانک نے جب کرتارپورکواپنی تعلیمات وتبلیغ کاذریعہ بنایاتووہاں ہرخاص وعام کیلئے لنگر کاانتظام بھی اسی لئے کیاتاکہ وہاں غریبوں مسکینوں اورمحتاجوں کوکھانے پینے کی سہولت میسرآسکے اوران میں اکثریت ایسے افرادکی تھی جواپنے علاقے میں ہونے والے مظالم سے تنگ آکریہاں مقیم ہوگئے تھے جن کی حفاظت کابیڑہ خودبابا گرونانک اوران کے مریدوں نے اٹھایا۔اس طرح باباجی کی تعلیمات کا شہرہ دوردرازتک پھیل گیااوردن بدن ان کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلاگیا۔بالآخرسکھوں کے دسویں گروگوبندنے غریبوں میں سے اپنے پانچ ساتھیوں کاچناؤ کرکے ان کوپانچ پیاروں کالقب عطاکیااوراس طرح پہلی مرتبہ سکھ مذہب میں باقاعدہ طورپرخالصہ تحریک نے جنم لیا۔
اس زمانے ہندوستان میں مغلیہ حکومت کے فرمانرواں اورنگ زیب کی حکومت تھی اوراس کے دربار میں تمام مذاہب کے لوگ بلا تفریق مختلف عہدوں پرفائض تھے۔بعض ہندو عہدیداروں نے جب ہندوؤں کی ایک کثیرتعدادکوسکھ دھرم میں داخل ہوتے ہوئے دیکھاتوانہوں نے ایک گہری سازش کرکے اورنگ زیب کوان کے خلاف اکساناشروع کردیا کہ سکھ مغل حکومت کوختم کرنے کے درپے ہیں۔ہندواپنی سازش میں اس لئے بھی کامیاب ہوگئے کہ ان دنوں اورنگ زیب کابھائی دارشکوہ بھی فرارہوکرسکھوں کے ہاں پناہ گزیں تھا،اس لئے انہوں نے اس موقع سے سیاسی فائدہ اٹھاتے ہوئے اورنگ زیب کوسکھوں کے خلاف لشکرکشی پرآمادہ کرلیاکہ کوئی بھی حکومت اپنی سلطنت کے خلاف باغیوں کوسر اٹھانے کی اجازت نہیں دیتی جبکہ دوسری طرف سکھ یہ سمجھتے تھے کہ ان مظالم کے خلاف ان غریبوں کی حمائت باباگرونانک کے حکم کے مترادف ہے۔یہی وجہ ہے کہ مغلیہ دورِحکومت میں سکھوں کے خلاف جنگ کوئی مذہبی جنگ قطعانہ تھی۔اگرایساہوتاتوسکھوں کی افواج میں ایک کثیرتعدادمسلمانوں کی نہ ہوتی جوگرونانک سے محبت کی بناپراپنی جانیں قربان کرنے کیلئے میدان جنگ میں نہ صرف کودپڑے بلکہ بڑی شجاعت کے ساتھ اپنی جانیں بھی قربان کیں جس کاتذکرہ سکھ بڑے احترام سے آج بھی اپنی تاریخ میں محفوط کئے ہوئے ہیں۔
بالآخریہ مسلم سکھ اتحادجوکہ باباگرونانک کی محبت کی مشترکہ میراث تھی،رنجیت سنگھ کی معیت میں پنجاب پرحکومت بنانے میں کامیاب ہو گیااورتاریخ گواہ ہے کہ رنجیت سنگھ نے اپنے دربارمیں تمام اہم عہدے مسلمانوں کے سپردکئے اورکئی سال مسلمانوں کی وفاداری اورمحبت کے بل بوتے پریہ ایساامن وامان کادورِحکومت تھاجس کاآج بھی سکھ بڑے تفاخر کے ساتھ ذکرکرتے ہیں۔تاریخ گواہ ہے کہ وہی ہندو
عناصر جنہوں نے اورنگ زیب کوسکھوں کے خلاف اکسایا،بعدازاں انگریز کے ساتھ ملی بھگت کرکے پہلے ایسٹ انڈیا کمپنی کی داغ بیل ڈالی اورایک سازش کے تحت ہندوستان سے مغلیہ دورِحکومت کوختم کرانے میں کامیاب ہوکرانگریزکے دربارمیں رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ رنجیت سنگھ کی پنجاب میں کامیاب حکومت کے پیچھے سکھ مسلم اتحادکی مشترکہ میراث کاطاقتورجذبہ موجودتھااورانگریزاس بات سے واقف تھے کہ اس خطے میں یہی دونوں قومیں جنگجو ہیں اوریہاں اس وقت تک کامیابی حاصل نہیں ہوسکتی تاوقتیکہ ان دونوں قوموں کے درمیان کوئی ایسی منافرت اوردشمنی نہ پیدا کردی جائے جس سے ان دونوں قوموں کے درمیان ایک ایسی خون ریز جنگ شروع ہو جائے جس سے یہ نہ صرف ایک دوسرے کے خون کے پیاسے بن جائیں بلکہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے دشمنی اور نفرت کی ایسی دیوارکھڑی ہوجائے کہ اس خطے میں کبھی بھی ان کادوبارہ ایسامثالی اتحادنہ ہوسکے۔
برہمن اورانگریزکی مشترکہ سازشوں نے بالآخرمغلیہ دورِحکومت میں وہ تمام ہندوجوسکھوں کاروپ دھارکران میں شامل ہو گئے تھے، اس تحریک کولیکرآگے بڑھے اوراس امپیریل جنگ کوسکھوں اورمسلمانوں کے درمیان مذہبی جنگ سے تشبیہ دیکرتاریخ کومسخ کرنے میں کامیاب ہوگئے جس کے نتیجے میں ایک ایسی نفرت کی آگ پھیلادی جس کے شعلوں نے بالآخررنجیت سنگھ کے پنجاب میں مسلم سکھ اتحاد کو جلا کرخاکسترکردیااورانگریزوں کوپنجاب پرقبضہ کرنے میں کوئی دشواری نہ ہوئی۔انفرادی طورپربعدازاں سکھ اورمسلمان ایک دوسرے کے ساتھ شیروشکرتوہوگئے لیکن انگریزوں نے ہمیشہ حکومت کرنے کیلئے”ڈیوائڈاینڈرول”(Devide & Role)تقسیم کرنے کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے اس خطے میں سکھوں اورمسلمانوں کو سیاسی طورپردوررکھنے میں ہمیشہ کامیاب رہے۔یہی وجہ ہے کہ جب برطانیہ کا سورج بھارت میں غروب ہورہاتھاتوقائد اعظم جوباباگرونانک کی تعلیمات مسلمانوں اورسکھوں کی مشترکہ میراث کی تاریخ سے واقف تھے، انہوں نے سکھوں کے لیڈرماسٹرتاراسنگھ کونہ صرف ہندوؤں کی ذہنیت اورسازشوں سے آگاہ کیابلکہ پاکستاان کے اندرسکھوں کومکمل مذہبی آزادی کے ساتھ تمام بنیادی ومساوی حقوق کی یقین دہانی بھی کروائی لیکن ماسٹرتاراسنگھ نے اپنی کوربصری کی بناپر سکھوں کی آزادی کا یہ سنہرا موقع گنوادیاجسے آج حریت پسندسکھ قوم بھی اپنا سب سے بڑامجرم سمجھتی ہے کہ جن کے اس ناعاقبت اندیش فیصلے نے انہیں بے رحم برہمن بھیڑیوں کے سامنے پھینک دیا۔
عیاربرہمن نے ایک گہری سازش کے تحت قیام پاکستان کے موقع پرسکھوں کے ہاتھوں مشرقی پنجاب میں مسلمانوں کے قتل عام، مسلمان خواتین کی بے حرمتی اوربے یارومددگار قافلوں میں لوٹ مار،قتل وغارت گری کاایسابازارگرم کروایاکہ بعض مقامات پرکچھ جذباتی مسلمان بھی اپنے ردِعمل پرقابونہ رکھ سکے۔برہمن کی دوررس سازش کامیاب رہی تاکہ یہ دونوں قومیں مشترکہ سرحدپررہتے ہوئے بھی ایک دوسرے کے خلاف نفرت اورانتقام کی آگ میں جلتے رہیں۔کیا یہ قتل عام بابا گرونانک یاان کے بعد آنے والے سکھ مذہب کے گروں کی تعلیمات کے مطابق تھایااسلام میں اس کی کہاں اجازت تھی؟؟؟ اس کے برعکس جس ہندوقوم کوخوش کرنے کیلئے سکھوں نے مسلمان کی ریل گاڑیوں کوتہہ تیغ کیااور لاشوں سے بھرے خون آلود ڈبے پاکستان بھیجے،اس ہندوقوم نے سکھوں کوکون ساانعام دیا؟؟؟پاکستان میں تو سکھوں کے سارے مقدس مقامات محفوظ ہیں جبکہ اندراگاندھی نے امرتسرمیں واقع سکھوں کے دربارصاحب کی حرمت کوبھارتی فوج
کے ناپاک بوٹوں نے بری طرح پامال کردیااوروقت نے قائداعظم کے دانشمندانہ فیصلے کی تصدیق کردی۔
باباگرونانک کی روشن تعلیمات کواس وقت اورتقویت ملی جب روس کے سرخ ریچھ نے اچانک افغانستان پراپنی ناپاک جارحیت کا ارتکاب کیاجس کے نتیجے میں جہاں30 لاکھ افغان مہاجرین کو پاکستانی قوم نے اپنے گلے لگایاوہاں35ہزارکے لگ بھگ افغان سکھوں کوبھی پاکستانی مسلمانوں نے اپنے سرآنکھوں پرجگہ دی اورتاریخ نے باباگرونانک کی ان اسلامی تعلیمات”مسلم سکھ اتحادکی مشترکہ میراث”کوسچ ثابت کردکھایا۔پاکستان کے مسلمان آج بھی سکھوں کے ساتھ حسن سلوک کا وہی رویہ رکھتے ہیں جس کیلئے بابا گرو نانک نے بے انتہامحنت کی تھی۔قدرت کاانعام اورفیصلہ دیکھئے کہ نہ صرف بابا گرونانک کی جنم بھومی اورآخری آرام گاہ بلکہ سکھوں کے بیشترمذہبی مقامات سرزمین پاکستان میں واقع ہیں جن کی زیارت کیلئے ہزاروں سکھ ہرسال وطنِ عزیزکی سرزمین پرمہمان بن کرآتے ہیں بلکہ مشرقی پنجاب سے بہنے والے دریاں کاپانی،سب کارخ پاکستان کی جانب ہے جوسکھوں اورمسلمانوں کوایک دوسرے کی طرف محبت اورالفت کے ساتھ گلے ملنے کااشارہ دیتے ہوئے اپنے مشترکہ دوست اوردشمن میں تمیزکاسبق دے رہے ہیں۔
پاکستان واحد ملک ہے جہاں سکھ مذہب اوراس کے پیروکارسب سے زیادہ احترام کی نظرسے دیکھے جاتے ہیں۔حکومت پاکستان نے سکھوں کے مذہبی مقامات کی دیکھ بھال میں اہم کرداراداکیاہے۔پاکستان کے بانی قائداعظم محمد علی جناح کے ایک سو تیسویں یومِ پیدائش پر کاکول اکیڈمی کے جن کیڈٹس نے مزارکے گارڈزکے فرائض سنبھالے،ملکی تاریخ میں یہ پہلی مرتبہ ہواکہ قائداعظم کے مزارپرخاتون کیڈٹس یاکسی سکھ کیڈٹ نے سلامی پیش کی ہو۔
بابا ہرنام سنگھ کے تڑپتے وکانپتے ہونٹوں سے نکلاہوا ایک یادگار جملہ بھی تومیں آج تک نہیں بھول سکاجو انہوں نے لاہوربی بی سی کے نمائندے کوانٹرویو دیتے ہوئے کہا:یہ وہی لاہوراسٹیشن ہے جب 1947میں یہاں ٹرین رکی تھی،میں کہہ رہاتھاکہ یہاں ٹرین کیوں رک گئی ہے اورمارے خوف کے یہ دعاکررہاتھاکہ جلدسے جلدروانہ ہواورآج میں دعا کررہاہوں کہ کاش یہ ٹرین ہمیشہ کیلئے یہاں رک جائے اورزندگی یہیں تمام ہوجائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔