آپریشن کے نام پر 2010سے مار کھا رہے ہیں،ہم سے پنگا نہ لیں، فضل الرحمان
شیئر کریں
جے یو آئی (ف) کے رہنما مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا ہے کہ ہم آپریشن کے نام پر 2010 سے مار کھا رہے ہیں۔قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ہم آپریشن عدم استحکام کی طرف جا رہے ہیں۔ عزم استحکام کے نام پر پتا نہیں کیا چیز شروع کردی گئی ہے ۔ اس سے استحکام نہیں عدم استحکام آئے گا۔ ہم 2010 سے آپریشن کے نام پر مار کھا رہے ہیں۔ یہ عزم استحکام نہیں یہ چین کو جواب دے رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہم نے آپریشن کے لیے لوگوں کو علاقے خالی کرنے کا کہا۔ عوام نے اپنے علاقوں میں ہجرت کی قبائلی خواتین کو صحراہوں میں بھیجا گیا۔ قبائلی علاقوں میں متعدد جگہوں کو لوگوں سے خالی کروالیا اور انہیں بھیک مانگنے پر مجبور کردیا گیا۔ ان کی چادریں تار تار کردیں اور روایات کو نقصان پہنچایا۔فضل الرحمٰن نے کہا کہ متاثرین کو مکان بنانے کے لئے چار لاکھ دیئے جارہے ہیں۔ چار لاکھ سے گھر تو کیا غسل خانہ بھی نہیں بن سکتا۔آپ مذاق کررہے ہیں۔ ان کو چار لاکھ بھی نہیں دیئے گئے بلکہ ٹوکن دیئے گئے ہیں۔ ریاست نے ہمیں کہاں کھڑا کردیا ہے ۔ کیا بطور شہری ہم ریاست پر کوئی حق نہیں رکھتے ۔ ہم نے ان سے کہا تھا کہ یہ پنگا نہ لیں۔مولانا فضل الرحمٰن نے مزید کہا کہ 25 سے 30 ہزار افغانی اپنے ملک گئے اور 40 سے 50 ہزار پاکستان واپس آگئے ۔ جنرل باجوہ نے میرے سامنے کہا کہ باڑ لگا دی اب کوئی دہشت گرد نہیں آسکتا۔ اب کہا جا رہا ہے کہ باڑ اکھاڑ دی ہے ۔سربراہ جے یو آئی کا مزید کہنا تھا کہ آج حکومت لوگوں کو بے روزگار کرنے جارہی ہے ۔ اس محکمے کو ختم کیا جا رہا ہے جو پاکستان سے بھی پرانا ہے ۔ تنخواہ اور کاروبار پر ٹیکسز عائد کر دئیے گئے ہیں۔ ہم قوم سے ٹیکس دینے کا مطالبہ تو کرتے ہیں حقوق نہیں دے رہے ۔ جب قوم کو حقوق نہیں ملتے تو ٹیکس کیسے لیے سکتے ہیں۔ عوام آپ کو ٹیکس نہیں دیں گے کیونکہ ان کو آپ پر اعتماد نہیں۔ عوام امن اور خوشحالی کا مطالبہ کرتے ہیں۔مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ہمارے ملک میں بیشتر علاقوں میں صورت حال فاقوں تک پہنچ گئی ہے ۔ چمن میں 9 ماہ سے لوگ احتجاج کررہے ہیں۔ کیا کسی ملک میں سرحدی علاقوں کے لوگوں سے یہ سلوک کیا جاتا ہے ۔ ان لوگوں کے پاس کوئی متبادل روزگار نہیں ہے ۔ ماؤں بہنوں نے زیورات بیچ دیئے مگر یہ رقم بھی ختم ہوگئی۔ لوگ اب گھر کے برتن اور دروازے بیچنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ کیا ریاست کو اس بات کا احساس ہے ۔