طاقت اوربددعاؤں کی جنگ
شیئر کریں
سمیع اللہ ملک
ہلاکوخاں جب بغدادپہنچاتواس کے سپاہیوں نے قتل وغارت گری شروع کردی،سنگ دل منگولوں کوجہاں کوئی سرسلامت دکھا ئی دیا، انہوں نے کاٹ دیا،جہاں کوئی عمارت نظرآئی،جلاکر خاکستر کردی، جہاں کوئی کتب خانہ،لائبریری یاکوئی درسگاہ ملی اس کوراکھ کردیا۔ تاریخ کہتی ہے کہ خون کے دھبے اورراکھ کے داغ دھوتے دھوتے دجلہ کاپانی سوکھ گیالیکن منگولوں کی وحشت کے آثارنہ مٹے ۔اسی قتل وغارت گری کے دوران عراقی صوفیوں کاایک گروہ منگول سپاہیوں کے ہتھے آچڑھا،سپاہی زہدکے بوجھ تلے دبے ان بزرگوں کو لیکر ہلاکو خان کے دربارمیں حاضرہو گئے ۔سپاہیوں کاکہناتھاکہ یہ صاحبانِ دعا ہیں، عراقیوں کے بقول ان کی دعابارگاہِ رب العزت میں قبولیت کی سندرکھتی ہے ۔
ہلاکوخان نے نخوت سے پوچھاپھرکیاسپاہیوں نے جواب دیاحضور!یہ لوگ آپ کوبددعائیں دے رہے تھے ہلاکوخان صوفیا ء کے اس گروہ کی طرف مڑااورجلالی لہجے میں اس الزام کی تصدیق چاہی۔صوفیائے کرام میں سے ایک نسبتاًبزرگ نے اقرار میں گردن ہلاکرجواب دیااے بادشاہ! تم خلقِ خداکے قاتل ہو،تم نے ہزاروں بے گناہوں کالہوبہایا،تم نے اللہ کی مقدس کتابوں کی توہین کی،تمہارے سپاہیوں کے گھوڑوں نے مسجدوں کاتقدس پامال کیا،لہنداتم اب اللہ کے انتقام سے بچ نہیں پاؤگے ،تمہیں اس زمین پرحساب دیناہوگا۔ہلاکوخان اوراس کے حواری اس کہنہ بزرگ کی جرأت پرحیران ہوگئے ۔سپاہیوں نے تلواریں سونت لیں،لیکن اس سے قبل کہ تلواریں اپناکام دکھاتیں، ہلاکوخان نے اشارہ کیا،ایک بلند و بانگ قہقہہ لگایا اور صوفیائے کرام کے اس گروہ سے مخاطب ہوکر بولااے شکست خوردہ بزدل قوم کے مظلوم بزرگو!بغداد کی تباہی کے بعدہلاکو خان کاحساب ہوابھی توکیاہوا،اب اگرتمہاری بددعائیں قبول بھی ہو جائیں، ہلاکوخان کوسوبارجنم دیکرسوبار قتل بھی کردیاجائے ،توبھی بغدادآبادنہ ہوگا،گردن سے اترے سر دوبارہ شانوں پرنہیں لگیں گے ،خاک ہوئی عمارتیں اورراکھ ہوئے کتب خانے دو بارہ آبادنہیں ہوں گے ،اب دنیاکاکوئی انتقام دجلہ کے کناروں پرگھاس نہیں اگاسکتا۔ہلاکوخان اٹھا، صوفیاء کے گروہ کے قریب پہنچااوران پر نظریں گاڑکربولاجاؤمیں تمہیں اس قبرستان میں زندہ رہنے کی سزادیتاہوں۔ہلاکوخان بغدادسے واپس چلا گیا۔اب تومعلوم نہیں قدرت نے واقعی ہلاکوخان سے انتقام لیایاپھرآسمانی طاقتیں اس سے رعائت برت گئیں لیکن جہاں تک بغدادکی تباہی کامعاملہ ہے آج بھی تاریخ جب اس موڑپرپہنچتی ہے تواپنے بال کھول دیتی ہے اوراس کے منہ سے دردناک بین کی آوازیں آنے لگتیں ہیں۔یہ حقیقت ہے کہ قتل کے بعدقاتل پھانسی چڑھے یاعمرقیدکی سزا بھگتے ، مقتول کواس کاکوئی فائدہ نہیں ہوتا۔پانچ ہزارقاتلوں کی پھانسی بھی ایک مقتول،ایک مظلوم کودوبارہ زندہ نہیں کرسکتی لیکن کیا کیجئے خوش فہمی بھی بڑی چیزہے ۔دنیا کے تمام کمزور،بزدل اورمظلوم لواحقین اپنے پیاروں کی لاشیں سمیٹتے ہوئے ،مظلوموں اورمقتولوں کوآخری غسل دیتے ہوئے یہ سوچ سوچ کرخوش ہوتے رہتے ہیں کہآخرکسی نہ کسی روز قاتل نے بھی مر جانا ہے ۔ لمحہ موجودمیں ساراعالمِ اسلام اسی خوش فہمی کاشکارہے ،پوری مسلم امّہ کے دانشورامریکاکی تباہی،امریکاکی بربادی کی پشین گوئیاں کررہے ہیں۔کوئی کہتاہے کہ یورپ امریکاکے خلاف اٹھ کھڑاہوگا،کسی کاکہناہے کہ عراق کی راکھ سے ہزاروں لاکھوں اسامہ پیداہوں گے ،افغانستان کے سیاہ پہاڑوں سے لاکھوں ملاعمرکے لشکر نکلیں گے ،اب امریکااوراس کے اتحادیوں کاکوئی شہری چین کی نیندنہیں سوسکے گا،کوئی اعلان فرماتاہے کہڈی ڈے شروع ہوچکاہے لیکن کوئی ان سے پوچھے بغداد کی تباہی اورموت کے بعدڈی ڈے شروع ہوا،امریکیوں اوراس کے اتحادیوں کی نیندیں حرام ہوئیں،ہزاروں بن لادن پیداہوئے ، لاکھوں ملاعمرمیدان میں اترے یایورپ امریکاکے خلاف اٹھ کھڑاہواتوکیا فائدہ؟کیابغداداورافغانستان کے بے گناہ لوٹ آئیں گے ؟
میرے ایک دوست اسی قسم کی مذہبی خوش فہمی کاشکارہیں۔وہ کل میرے پاس تشریف لائے اور آتے ہی فرمانے لگے مظلوم عراقیوں، بے بس افغانیوں،کشمیریوں اوربے گناہ پاکستانیوں کی نعشیں کہہ رہی ہیں امریکااوراس کے تمام ساتھیوں کابدترین انجام قریب ہے ،تم اپنے پاس لکھ کررکھ لو امریکااوراس کے موجودہ اتحادی عنقریب تباہ وبربادہوجائیں گے ۔میں نے قہقہہ لگایا ،اس کاکالر جھاڑا اوربڑے پیارسے کہابرادرم!غصے اورانتقام کی تلخی اس طرح تودورنہیں ہوگی،امریکا اوراس کے اتحادی بے شک دس ہزارمرتبہ تباہ ہوں لیکن ہمارے اوپر گر کر توتباہ نہ ہوں۔میرے دوست کومیری بات ناگوارگزری اورناراض ہوکر منہ بسورکربیٹھ گیا۔مجھے معلوم ہے کہ ایک خوش فہم شخص اسی ردعمل کااظہارکرسکتاہے ۔ہوسکتاہے کہ میرے دوست کی خوش فہمی درست ثابت ہو،واقعی کل کاسورج طلوع ہوتودنیاکے نقشے پراٹلانٹک اوشن اوربحر ہندکے پارچندبدبودار جوہڑوں اورجلی سڑی چٹانوں کے سواکچھ نہ ہولیکن یہ ابھی محضہوسکتاہے ،امکان،گمان یاخیال ہے ۔آج کی حقیقت تویہ ہے کہ عراق کی سرزمیں نعشوں سے اٹ چکی،افغانستان میں لاشیں بچھ چکیں،کشمیرکے لاکھوں باشندے موت کوگلے لگاچکے ، جب امریکی ڈرون کابھی پاکستانیوں کے پرخچے اڑاکرسانس پھول چکاتب اس نے اپنے فیصلے پرنظرثانی کی ،بش،رمزفیلڈ،کولن پاؤل، رچڑدباؤچر،اوباما،ہالبروک،ٹرمپ اور اب بائیڈن ، جنرل مشرف،زرداری،نواز،عمران خان،مودی،امیت شاہ اوراب نیتن یاہورہیں یاختم ہوجائیں،امریکا،بھارت،اسرائیل اوریورپ باقی بچے یاتباہ ہوجائیں،ان نعشوں،ان جلی سڑی عمارتوں کواس سے کوئی غرض نہیں۔ زمینی حقائق تویہ ہیں کہ خادمین حرمین اپنے ہاتھوں سے پہلے ٹرمپ کواوربعدازاں نہ صرف مودی کوملک کاسب سے بڑاسول اعزاز پہنا چکے بلکہ ملک کاسب سے بڑاادارہآرامکوعملی طور بھارتی افرادکے سپرد ہوچکااورمہاراشٹرکی ریفائنری سمیت دیگراداروں میں75بلین ڈالرز کی سرمایہ کاری بھی ہوچکی۔ٹرمپ کے دامادکی کامیاب سفارت کاری کے جواب میں پانچ عرب ممالک اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرکے ایک دوسے کوگلے لگا چکے اوراب تجارتی تعلقات عروج پرہیں۔امریکی خبررساں ادارے اے پیکی رپورٹ کے مطابق بھارت میں 100ارب ڈالرکی سرمایہ کاری، اہم اقتصادی شراکت داری اورتجارتی مفادات کے باعث خلیجی ممالک نے مقبوضہ کشمیرمیں آرٹیکل370ختم کرنے کے بھارتی اقدام پرچپ سادھ لی تھی بلکہ یواے ای نے مودی کوملک کاسب سے براسول اعزازدیکرپاکستان کو باقاعدہ پیغام بھی دے دیا۔اب غزہ میں وحشیانہ ظلم میں اسرائیل کی پشت پرکھڑے چہروں کے نقاب بھی نمایاں ہوگئے ہیں۔غزہ کی جنگ
کی ابتداء میں امریکی وزیرخارجہ انتھونی بلنکن کاڈرامائی انتقامی اورمکارانہ کرداراب مگرمچھ کے آنسوبہارہاہے اوریہ تمام طاقتیں پریشان ہیں کہ آخرحماس پچھلے دوماہ سے ختم کیوں نہ ہوسکی اور اب تک محصورغزہ کے چپے چپے کوتباہ کرنے کے باوجود اسرائیلی قیدی رہاکیوں نہ ہو سکے ؟ اب ایک مرتبہ پھرایک نئے چہرے کے ساتھ خطے میں پڑوسی عرب ریاستوں کے دورے میں مصروف ہیں۔ادھرحوثیوں نے بحیرہ احمر سے گزرنے والے بڑے بحری جہازوں کونشانہ بناناشروع کردیاہے اوراب لبنان میں حماس کے اہم رہنماؤں کی ڈرون حملے میں ہلاکت ایک ایساواقع ہے جو حالات کوخطرناک راستے پرڈال سکتاہے ۔خطے کی دوسری ریاستی اورغیرریاستی طاقتیں اس جنگ میں بھرپور طریقے سے شامل ہونے کیلئے پرتول رہی ہیں۔حزب اللہ کے سربراہ نصراللہ بھی میدان میں خم ٹھونک کرللکاررہے ہیں۔اب دیکھنایہ ہے کہ یہودی نژاد بلنکن اپنے دورہ کے دوران اپنی طاقت کے مظاہرہ میں کہاں تک کامیاب ہوتے ہیں؟
ہلاکوخان نے بغدادہی کی سرزمین پرکھڑے ہوکرکہاتھاکہطاقت اوربددعاؤں کی جنگ میں طاقت ہمیشہ پہلی فاتح ہوتی ہے ۔رہے نام میرے رب کا جس کی طرف سب کو لوٹ کرجاناہے ۔
وجہۂ بے رنگیٔ گلزارکہوں توکیاہو
کون ہے کتناگناہ گارکہوں توکیاہو
تم نے جوبات سرِبزم نہ سنناچاہی
میں وہی بات سرِدارکہوں توکیاہو