بلوچوں کے ساتھ نا انصافی کیوں ؟
شیئر کریں
جاوید محمد
عالمی سطح پر شائع ہونے والی سینکڑوں رپورٹس اس کی گواہ ہیں کہ 1966 سے بڑی طاقتیں بلوچستان پر نظریں گاڑے ہوئے ہیں۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ بلوچستان کی خوبصورتی زمین اور سر بلند پہاڑوں کے نیچے قدرت نے معدنیات کے خزانوں کے انبار لگائے ہوئے ہیں ۔ان میں دنیا کے قیمتی پتھر، قیمتی دھاتیں، ماربل کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ، گیس کا ختم نہ ہونے والا ذخیرہ ،تانبے اور سونے کی کانیں ، زنک، لوہا اس قدر ہے کہ پوری دنیا میں اس کی کھپت ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ قدرت نے اس زمین کے حصے کو جڑی بوٹیاں، وائلڈ لائف اسپیشل، قسم قسم کے پھل، ڈرائی فروٹ، بھیڑ بکریوں اور دیگر سینکڑوں اشیاء سے نوازا ہے۔ گوادر اور بندرگاہ کو شامل کر لیں تو پھر سمندری خوراک کی مدد سے افریقہ کی بھوک پر قابو پایا جا سکتا ہے ۔
تصور کریں! ناسا کی رپورٹ کے مطابق بلوچستان کی سرزمین میں سعودی عرب سے زیادہ تیل ہے ۔ جب قدرت کی اتنی ساری نعمتیں بلوچستان کی سرزمین میںہوں تو کیوں نہ ترقی یافتہ ممالک اور بڑی طاقتیں اس کو ہتھیانے کی کوشش کریں ؟ یہ جانتے ہوئے کہ پاکستان کے حکمرانوں کو خریدنا کوئی مشکل نہیں اور یہ طاقتیں موجودہ عالمی بحران کے اندر یہ کیسے برداشت کر سکتی ہیں کہ ان قدرتی معدنیات کے مزے پاکستان اور ایران لوٹیں ،چند سال قبل امریکا کے ایوان نمائندگان میں کیلی فورنیا سے تعلق رکھنے والے رکن کانگریس نے ایک دلخراش قسم کی قرار داد پیش کر کے ایک طرف پاکستانیوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی جبکہ دوسر می طرف علیحدگی پسند تحریکوں کو پاکستان کے خلاف اُکسا کر ان کے ہاتھ مضبوط کرنے کی یقین دہانی کرائی ۔ آخر مکروہ عزائم کے پیچھے کس نوعیت کے منصوبے پوشیدہ ہیں ؟ پیش کی جانے والی قرارداد کا متن کچھ یوں ہے کہ بلوچ عوام کو آزاد ملک حاصل کرنے کا حق ہے ۔ ان کا حقِ خود ارادیت تسلیم کیا جائے اور یہ کہ بلو چستان ، پاکستان ، ایران اور افغانستان میں تقسیم ہے ۔ان تینوں ملکوں کے اندر بلوچوں کو خود مختاری حاصل نہیں ہے ، اگر انسانی حقوق کے علمبر دار سینیٹر کو اچانک برسوں کے بعد اب احساس ہوا کہ بلوچوں کے اوپر مظالم ڈھائے جا رہے ہیں، جبکہ بلوچستان کی معدنیات پر 1966 سے ان طاقتور، با اثر لابیوں کی نظریں ہیں، جو ترقی یافتہ ممالک کو اپنی منشاء کے مطابق چلانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ کیا کوئی ہے جو کشمیریوں کی خود ارادیت کے لیے آواز اٹھائے ؟ کاش محترم سینیٹر ہی اس حساس ایشو پر ایک قرار داد پیش کر دیں۔ آخر ان کی نظر اس طرف کیوں نہیں اٹھتی ؟ اب بھارت بھی کہنے لگا ہے کہ یہ مسئلہ ہے ،یہ ستم ظریفی نہیں تو کیا ہے کہ امریکا کے ایوان نمائندگان میں بلوچستان کے حوالے سے قرار داد پیش کرنے پر حکومت پاکستان تماشائی بنی ہوئی تھی؟ آخر ان حکمرانوں کو ظالم کہیں یا جابر ، آخریہ یہ نوبت کیوں آئی؟ مذکورہ قرار داد سے پہلے حکمراں بے حسی کی تصویر کیوں بنے ہوئے تھے ؟ اب یہ حال ہے کہ حکمرانوں کے زخموں پر مرھم رکھنے کا ارادہ کیا ہے لیکن انھیں احساس ہو جائے کہ بلوچوں کی احساس محرومی کینسر میں بدل چکی ہے ۔ اب مرھم سے یہ زخم نہیں بھریں گے۔ اب بہت ضروری ہے کہ ان کی کیمو تھراپی کی جائے ۔ واضح رہے کہ کینسر اب لاعلاج مرض نہیں رہا۔
اس حقیقت کو بھی نظر انداز کرنا مناسب نہیں ہے کہ گوادر پورٹ کے شدید مخالف ممالک اور ان کی ایجنسیاں جو پاکستان اور ایران کے تعلقات بھی خراب کرانا چاہتے ہیں اور بلوچستان میں دہشت گردی اور قتل و غارت کے ذمہ دار بھی ہیں، اصل حقیقت یہ بھی ہے کہ گوادر پورٹ بلوچوں کی تقدیر بدل کر وہاں معاشی خوش حالی لانے کی صلاحیت رکھتاہے اور یہ بات دشمنوں کو ہضم نہیں ہو رہی۔ اس طرح کچھ ممالک پاکستان اور ایران کے تعلقات خراب کرانے کے لیے ہر نوعیت کے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کر رہے ہیں۔ درجنوں رپورٹ منظر عام پر آچکی ہیں جس میں بلیک واٹر، بھارت اور اسرائیل کا نام سر فہرست ہے جو بلوچستان میں انار کی پھیلا رہے ہیں اور ناراض بلوچوں میں علیحدگی پسندی کے جذبات ابھار کر انھیں مالی مدد فراہم کر کے بلوچوں کو پاکستان سے الگ کرنے کے منصوبے بنائے ہیں۔ دکھ اس کا ہے کہ جو لابیاں بلوچوں کے لیے سینے میں درد رکھتی ہیں ان سے کو ئی یہ پوچھے کہ وہ فلسطینیوں کے حقوق کے لیے آواز کیوں نہیں اٹھاتے ؟ عراق میں وسیع تباہی پھیلانے والا اسلحہ نہیں ملا، بے بنیاد جنگ مسلط کر کے لاکھوں عراقی شہریوں کو بارود میں دفن کر دیا گیاتو اُس وقت یہ بااثر لابیاں کیوں خاموش تھیں ؟ اس حقیقت کو نظر انداز کرنا سرا سرنا انصافی ہوگی۔ بلوچستان کا مسئلہ آج جس نہج پر پہنچ چکا ہے اسکی ذمہ داری پاکستان کے ماضی کے حکمرانوں اور موجودہ حکومت پر سب سے زیادہ عائد ہو گی ، جنھوں نے بلوچوں کے حقوق غصب کیے اور اُن پر جو مظالم ڈھائے گئے اس میں یہ بھی حصے دار ہیں ان کو ظالم کہیں ؟ جابر کہیں؟ آخر یہ یہ نوبت کیوں آئی کہ بلوچستان کو الگ کرنے کی باتیں زور پکڑ رہی ہیں؟ غیور بلوچوں نے پہلے کبھی علیحدگی کی بات نہیں کی موجودہ صورتحال میں حکومت کی ذمہ داری ہے کہ بلوچوں میں حالیہ برسوں میں جو تشدد کی لہر میں اضافہ ہوا شہریوں اور سیاسی کارکنوں، صحافیوں کی پر اسرار گمشدگیوں کے علاوہ لاپتہ کی مسخ شدہ لاشوں کے سامنے آنے کا نوٹس لیں۔ حکومت پاکستان کی بے حسی اور سست روی کے نتیجے میں آج پاکستان کے اوپر ہر زاویے سے خطرات کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ بیرونی سازشوں پر بھی گہری نظر رکھنی ہوگی، ان کو نظر انداز کرنا پاکستان سے دشمنی کرنے کے مترادف ہوگا۔ واضح رہے کہ بھارت اور اسرائیل 9/11 کے بعد سے پاکستان کو نقصان پہنچانے کے در پر ہیں، اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ رالف پیٹر زجو ریٹائر ڈ امریکی کرنل اور تجربہ کار ہیں اور آرم چیئر جرنل رسالے کے مدیر بھی ہیں، ان کا تعلق فتنہ انگیر صہیونیت سے ہے، صہیونیت کی اسلام دشمنی سے کون واقف نہیں کہ اسے ہر اس ریاست سے نفرت ہے جو اسلام سے نظریاتی وابستگی رکھتی ہے۔ اس وقت دنیا میں اکثر اسی پروردہ حکمران مسلم ممالک میں اقتدار و اختیارکے حامل ہیں مگر اس کے باوجود اسے اسرائیل کے حوالے سے ہمیشہ خطرات لاحق رہتے ہیں۔ صہیونی دماغ سیاسی، سماجی معاشی، معاشرتی، ثقافتی فکر ی اور عسکری ہر محازذپر نئی منصوبہ کرتے رہتے ہیں۔ انہی منصوبہ بندیوں میں سے ایک منصوبہ بندی دنیا کے جغرافیے کو اپنی خواہشات کے مطابق تبدیل کرنا ہے ۔ 2006ء میں رالف پیٹرز نے شمالی افریقہ سے جنوبی ایشیا تک کے مختلف مسلم ممالک کی نئے سرے سے حد بندی کرنے کے لیے” گریٹر رمڈل ایسٹ” کا ایک نقشہ ترتیب دیا، جس کے خدو خال کے مطابق مشرقی وسطی اور وسط ایشیا کے مسلم ممالک کی سرحدوں میں رد و بدل کر کے سارے علاقے کو لسانی اور مسلکی ریاستوں میں تبدیل کر دیا جائیگا۔ اس نقشے میں عراق کی سنی اور شیعہ آزاد ریاستوں میں تقسیم ، ایران، عراق ترکی اور شام کے ان علاقوں کو جہاں کر دبستے ہیں کردستان بنا دیا جائے گا۔ سعودی عرب کو ویٹیکن کی طرح مکہ اور مدینہ تک محدود کر دیا جائیگا ۔ ہرات اور افغانستان کا کچھ علاقہ ایران میں شامل کر دیا جائیگا ۔ آذربائیجان کو تقسیم کر کے آرمینا کی ریاست تخلیق کی جائے گی۔ پاکستان اس نقشے کے مطابق لسبیلہ، سندھ اور پنجاب کے جزوی حصوں پر مشتمل ریاست رہ جائیگا ۔ جنوبی پنجاب، سرحد ، فاٹا اور بلوچستان کا پشتون بیلٹ افغانستان کا حصہ بنا دیا جائیگا۔ بلوچستان کے باقی حصے اور ایران کے صوبے سیستان کو ملا کر آزاد بلوچستان قائم کیا جائے گا۔ اسرائیل جیسی نظریاتی ریاست کے پیچھے جو دماغ کام کر رہے ہیں۔ وہ نسلی اور لسانی اکائیوں کی فطری تقسیم ضروری سمجھتے ہیں۔ حکومت پاکستان کے پاس بس صرف ایک ہی راستہ ہے کہ وہ بلوچستان کے مسئلے کے حل میں مخلص ہوں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی کمزوریوں اور خامیوں پر قابو پاتے ہوئے بلوچوں کو ان کے جائز حقوقی جلد از جلد دیں اور جو قدرتی معدنیات بلوچستان کی سرزمین میں ہیں، وہ پہلے بلوچوں کا حق ہے ،گزشتہ 75 برسوں سے مسلسل بلوچوں کے حقوق غصب کیے جاتے رہے ہیں۔ اب جھوٹی تسلیوں اور دلاسوں سے کام نہیں چلے گا کہیں ایسا نہ ہو کہ جو مذکورہ قرار داد امریکی ایوان نمائندگان میں پیش کی گئی ہے حقیقت کا رنگ نہ ڈھال لے۔ اگر خدا نخواستہ ایسا ہوا تو اس کی ساری ذمہ داری جو بھی حکومت ہوگی اُس کے حصے میں آئی گی۔ مناسب یہی ہوگا کہ بلوچوں کے مطالبات تسلیم کرنے کے ساتھ ساتھ اُن سے ہو نے والی نا انصافی کا سلسلہ ختم کیا جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔