میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
منافع ۔کت۔۔ (علی عمران جونیئر)

منافع ۔کت۔۔ (علی عمران جونیئر)

ویب ڈیسک
اتوار, ۸ ستمبر ۲۰۱۹

شیئر کریں

دوستو، آپ مانیں یا نہ مانیں فی زمانہ ’’منافقت‘‘ کا دور دورہ ہے۔۔ہر انسان منافقت پسند ہوچکا ہے، شوہر بیوی سے، اولاد والدین سے، بہن بھائی آپس میں، عزیز،رشتہ دار، دوست احباب غرضیکہ جسے بھی آپ پرکھیں گے آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ یہ شخص منافقت کررہا ہے۔۔ شاید اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ منافقت کو اب لوگ’’منافع۔کت‘‘سمجھنے لگے ہیں، یعنی منافقت میں نفع ہی نفع ہے۔۔حالانکہ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو قرآن پاک میں منافقین سے دور رہنے کا حکم دیا ہے، ساتھ ہی فرمادیا کہ۔۔منافقین ہرگز تمہارے دوست نہیں ہوسکتے۔۔پھر کیا وجہ ہے کہ ہم اپنے آس پاس ،گھر،دفتر،محلے،علاقے ہرجگہ منافقوں کا ہی راج دیکھتے ہیں۔۔ لوگ کہتے ہیں کہ کرپشن ہمارے معاشرے میں زہر کی طرح سرایت کرگئی ہے، لیکن ہمارا کہنا ہے کہ، منافقت ہمارے معاشرے میں ایڈز کی طرح پھیل چکی ہے، زہر کا تو پھر بھی تریاق ہوتا ہے، ایڈز کا ابھی تک کوئی علاج دریافت نہیں ہوسکا۔۔ فلسفہ بہت ہوگیا۔۔ اب اپنی اوٹ پٹانگ باتوں کا سلسلہ شروع کرتے ہیں۔۔
ہمارے تھانے رشوت کا گڑھ ہیں۔۔۔ مگر وہاں لکھا ہوتا ہے ،’ رشوت لینے والااور دینے والا دونوں جہنمی ہیں ۔۔ہماری کچہری میں 200 روپے میں گواہ مل جاتا ہے۔۔۔ مگر وہاں لکھا ہوتا ہے، جھوٹی گواہی شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ ہے ۔۔ہماری عدالتوں میں انصاف نیلام ہوتا ہے۔۔ مگر وہاں لکھا ہوتا ہے، لوگوں کے درمیان حق کے مطابق فیصلہ کرو ۔۔ہماری درسگاہیں جہالت بیچتی ہیں۔۔مگر وہاں لکھا ہوتا ہے ، علم حاصل کرو، ماں کی گود سے لیکر قبر کی گود تک ۔۔ہمارے اسپتال موت بانٹتے ہیں۔۔ مگر وہاں لکھا ہوتا ہے، اور جس نے ایک زندگی بچائی اس نے گویا سارے انسانوں کو بچایا۔۔ہمارے بازار جھوٹ ، خیانت ، ملاوٹ کے اڈے ہیں۔۔ مگر وہاں لکھا ہوتا ہے ، جس نے ملاوٹ کی وہ ہم میں سے نہیں ۔۔ہماری مسجدیں ذاتی پراپرٹی ہیں۔۔ مگر وہاں لکھا ہوتا ہے، وان المساجد للہ۔۔۔ اور مسجدیں اللہ کی ہیں۔۔ہم جو لکھتے ہیں یہ ہمارا عقیدہ ہے۔ اور جو کرتے ہیں یہ ہمارا عمل ہے۔ جب عمل عقیدے کے خلاف ہو تو اس کا نام منافقت ہے۔۔اور فی زمانہ ہمارے معاشرے میں منافقت کثرت سے پائی جاتی ہے۔۔
ایس ایچ او اپنے علاقے کے تھانے میں بیٹھا اپنے بال نوچ رہا تھا،اس کے ’’سسرالیوں‘‘ کے باغ سے ہرہفتے آم چوری ہورہے تھے لیکن چورہاتھ نہیں لگ رہا تھا، اس نے ایک سپاہی کو بلایا اور کہنے لگا۔۔تم دوسال سے اس تھانے میں ہو، لیکن آج تک تم نے ایک بھی مجرم پکڑ کر نہیں دکھایا، تمہاری اس کارکردگی پر ہی تبادلہ کر سکتا ہوں، لیکن ایسا کرنے سے پہلے میں تمھیں یہ آخری موقع دے رہا ہوں۔ باغ سے روزانہ آم چوری ہو رہے ہیں ،اگر تم نے تین دن کے اندر آم چوری کرنے والے کو نہ پکڑا تو میں سچ مچ تمھارا تبادلہ کردوں گا۔۔تبادلے کے خوف سے سپاہی نے رات کو پہرا دینا شروع کیا ۔۔آخر کار دوسری رات کو اس نے ایک شخص کو باغ کے کونے میں دھر لیا، جس کے پاس ایک بھرا اہوا تھیلا تھا ،سپاہی کے حکم پر اس آدمی نے تھیلا اْلٹ کر دکھا دیا تو اس میں کچھ زیورات اور روپے پیسے تھے ،یہ دیکھ کر سپاہی نے ہنس کر کہا۔۔ معاف کرنا بھائی مجھ سے غلطی ہو گئی ،اب تم اپنا یہ سامان اْٹھا کر جاؤ اور خدا کا شکر ادا کرو کہ تمھارے تھیلے سے آم برآمد نہیں ہوئے۔۔برائے کرم اس واقعہ کو الیکشن سے نہ جوڑا جائے،جہاں تھیلے میں سے آم کی جگہ کچھ اور ہی نکلے۔۔ایک اور دلچسپ واقعہ سن لیجئے لیکن خیال رہے کہ یہ بھی مکمل غیرسیاسی ہے،اسے کسی پر تھوپا نہ جائے۔۔محفل میں ایک میراثی بہت برا گانا گا رہا تھا۔ اتنے میں ایک شخص ہاتھ میں جوتا لے کر کھڑا ہوا تو میراثی نے خوفزدہ ہو کر گانا بند کر دیا اور سہم گیا۔۔جوتے والا شخص بولا۔۔’’سوہنیا تو گاندا رہ میں تے اوہنوں لب رہیا جیہڑا تینوں لے کے آیا‘‘۔۔۔سمجھ تو گئے ہوں گے آپ۔۔
ایک شادی شدہ جوڑا باغ میں ٹہل رہا تھا،اچانک ایک بڑا سا کتا بھونکتا اور غْراتا ہوا ان کی طرف لپکا ،دونوں کو ہی لگا کہ یہ انہیں کاٹ لے گا ، بچنے کا کوئی راستہ نہ دیکھ کر شوہر نے فوری طور پر اپنی بیوی کو اوپر اٹھا لیا تاکہ کتا بیوی کو نہ کاٹ سکے اور کم از کم بیوی تو کتے کے حملے سے بچ جائے۔ کتا بالکل نزدیک آکر رکا، کچھ دیر تو بھونکا اور پھر پیچھے کی طرف بھاگ گیا۔۔ شوہر نے چین کی سانس لی اور اس امید میں بیوی کو نیچے اتارا کہ بیوی کو آج میری محبت کا یقین ہو گیا ہو گا ،خوشی سے اس کی آنکھوں میں آنسو آ جائیں گے،لیکن اس کی امیدوں پر پانی پھیرتے ہوئے اس کی بیوی چلائی ۔۔میں نے آج تک لوگوں کو کتے کو بھگانے کے لیے ڈنڈا مارتے یا پتھر پھینکتے تو دیکھا تھا ،پر ایسا آدمی پہلی بار دیکھ رہی ہوں جو کتے کو بھگانے کے لیے اپنی بیوی کو بھی پھینکنے کے لیے تیار تھا۔۔منافقت کے حوالے سے ایک اور واقعہ سن لیجئے۔۔ایک ادھیڑ عمر جوڑا سینما میں بیٹھا کوئی پرانے زمانے کی رومانوی فلم دیکھ رہا تھا، اچانک بیوی نے کہا۔۔دیکھو ہیرو اپنی بیوی سے کتنے پیارسے بات کررہا ہے اور ایک تم ہو۔۔شوہر تپ کربولا۔۔ وہ ہیروہے اسے پیارسے بات کرنے کے پیسے ملتے ہیں اور جب میں بات کرتا ہوں تو میرے اپنے پیسے چلے جاتے ہیں۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اکثر لوگ ہر بات میں، ہر چیز میں، ہر وقت، ہر جگہ بس مَیں مَیں ، میرا میرا ، میری میری، طوطے کی رٹ لگائے رہتے ہیں۔ بکری کی طرح ممیاتے رہتے ہیں، مگر یاد رہے کہ یہ اندازِ گفتگو فخر و غرور پر دلالت کرتا ہے، مَیں مَیں کی رٹ لگانا تواضع و خاکساری، سنجیدگی و متانت اور حلم و بردباری کے منافی ہے، کیونکہ مومن بڑا متواضع، ملنسار، خوش اخلاق اور خوش طبع ہوتا ہے، اپنے آپ کو لوگوں سے کمتر و کہتر سمجھتا ہے، اپنی خامیوں، کوتاہیوں، لغزشوں، خطاؤں اور گناہوں کو تسلیم کرتا ہے، عجب پسندی کا شکار نہیں ہوتا ، مگر ہم اپنی اصلاح اور درستگی کی بجائے دوسروں کی فکر میں ڈوبے رہتے ہیں، دوسروں پرکیچڑ اچھالتے ہیں، دوسروں کو حقیر و ذلیل سمجھتے ہیں، دوسروں کی خدمات و حسنات کو کچل کر بدنام اور ذلیل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، لوگوں کی عزت و ناموس کو خاک میں ملاتے ہیں، لوگوں کے عزت و وقار اور ادب و احترام کا خون کرتے ہیں، مگر اس کے مقابلے میں مومن صرف اپنی اصلاح کرتا ہے، اسے فرصت کہاں ملتی ہے کہ دوسروں پر انگلی اٹھائے، کیوں کہ یہی تو عقلمندی دانشمندی ہوشیاری ہوش مندی اور دانائی کی بات ہے۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں