صلیبی جنگیں کیا ہیں؟
شیئر کریں
میر افسر امان
بیت المقدس جو فلسطین میں واقع ہے اسے عیسائیوںاور یہودیوں اورمسلمانوں سے گہرا تعلق ہے۔صلیبی جنگوںکے زمانے میں
بیت المقدس مسلمانوں کی حکومت سلطنت ِسلاجقہ کے قبضہ میں تھا۔ اس کے علاوہ سلاجقہ قسطنطنیہ کے دروازوں تک پہنچ گئے تھے۔ اس پر عیسائیوںمیںخوف وہراس پیدا ہوا۔ پاپائے روم نے سن1095ء میں ایک بھاری مجلس مشاورت بلائی۔ قسطنطنیہ کے قیصر نے بھی اپنا سفیر مددکے لیے بھیجا۔ فرانس کے راہب پطرس نے اپنی آتشیں تقریروں سے عیسائیوں کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکایا۔ عیسائیوں نے یہ لڑائیاں مسلمانوں کیخلاف لڑیں۔ عیسائیوں اور مسلمانوں کے درمیان یہ صلیبی جنگیں دو سو سال جاری رہیں۔عیسائی سپاہی اپنے کپڑوں پر سرخ صلیب کا نشان لگاتے تھے اس لیے ان کو کروسیڈرز( crusaders) یعنی صلیبی سپاہی اور ان جنگوں کو کروسیڈ(crusades) یعنی صلیبی جنگیں کہتے ہیں۔سن1096ء میں پطرس راہب کی سرکردگی میں چالیس ہزار عیسائی یورپ سے ایشیا کی طرف روانہ ہوئے۔ جب یہ ایشیائے کوچک میں پہنچے تو سلجوقی سلطان قلج ارسلان نے ان پر حملہ کرکے ان کو ہلاک کر دیا۔ اس ناکامی کے بعد عیسائیوں نے سات لاکھ فوج کی مدد سے سلجوقی سلطان پر حملہ کر کے اس کے دارالحکومت نیقیہ پر قبضہ کر لیا۔وہاں پرصلیبیوں نے اپنی پہلی ریاست قائم کر لی۔ ایک عیسائی لشکر نے شہر انطا کیہ کی طرف بڑھ کر اس پر بھی قبضہ کرلیا۔یہاں پر عیسائیوں نے ایک دوسری صلیبی ریاست نے قائم کی۔ پھر صلیبی بیت المقدس کی طرف بڑھے اور سن1099ء میں بیت المقدس پر قبضہ کر لیا۔ تین دن تک بچوں ، عورتوں اورعام باشندوں کا قتل عام کیا۔ ہزاروں یہودی بھی مارے گئے۔ پہلی صلیبی جنگ میں بیت المقدس، انطاکیہ اور اڈیسہ میں عیسائی حکومتیں قائم ہو گئیںاور بیت المقدس پر عیسائی نوے سال تک قابض رہے۔
عمادالدین کوسلجوق سلطان نے موصل کا حاکم بنایاتھا۔ اس نے عیسائیوں کے خلاف جارحانہ کارروائی کی۔اس کی وفات کے بعد اس کا بیٹا نورالدین زنگی موصل کا حکمران بنا۔ اس نے ساری عمر عیسائیوں کے خلاف جہاد کیا۔ ان سے انطاکیہ اور آس پاس کے علاقے واپس لے لیے۔یورپ کے عیسائیوں کو پتہ چلا تو وہ دوربارہ لشکر کشی کر کے دوسری صلیبی جنگ کے لیے تیار ہوگئے۔ عیسائی نو لاکھ فوج کے ساتھ آگے بڑھے تو سلجوقیوں کے ہاتھوں دمشق میں تباہ و برباد ہو گئے۔ جو بچے وہ سمندر کے راستے یورپ چلے گئے۔ اس طرح دوسری صلیبی جنگ کا خاتمہ ہوا۔ سلطان صلاح الدین ایوبی مصر کے حاکم تھے۔ عیسائیوں کے ساتھ سلطان صلاح الدین کا معاہدہ تھا۔ ایک عیسائی سردار نے مسلمان قافلہ پر حملہ کرکے اس کا مال اسباب لوٹ لیا۔ صلاح الدین نے بیت المقدس کے عیسائی حکمران سے ہرجانہ طلب کیا۔ انکار پر سلطان نے چڑھائی کرکے حطین کے مقام پر عیسائی لشکر کو شکست دی۔ باقی علاقے بھی فتح کر لیے۔ عیسائیوں کے پاس صرف صور، طرابلس، اور عسقلان کے ساحلی مقامات رہ گئے۔سلطان نے اس کے بعد بیت المقدس کا رخ کیااور شہر کا محاصرہ کر لیا۔ عیسائیوں نے ڈر کے مارے شکست منظور کرلی۔ اس پر سلطان نے تمام لوگوں کو عام معافی دے دی۔چالیس دن کے اندر اندر عیسائیوں کو بیت المقدس خالی کرنے کا حکم دیا۔ جب شہر خالی ہو گیا تو پھر سلطان جمعہ کو روز 1187 ء کو شہر کے اندر داخل ہوا۔ بیت لمقدس نوے سال بعددوبارہ مسلمانوں کے قبضے میں آگیا۔جب یورپ کو اس کی خبر ملی تو پورے یورپ کے عیسائیوں نے حکمران شاہ انگلستان کے جھنڈے تلے جمع ہوکر آگے بڑھ کر عکہ پر قبضہ کر لیا۔ اس کے بعد عیسائی عسقلان کی طرف بڑھے مگر سلطان نے انہیں بیت المقدس کی طرف بڑھنے نہیں دیا۔ شاہ انگلستان جلد واپس جانا چاہتا تھا۔ اس لیے فریقین میں اس بات پر صلح ہوئی کہ عیسائی زائرین زیارت کرکے واپس چلے جائیں گے۔ اس طرح تیسری صلیبی جنگ اپنے مقصد میں ناکام رہی ۔شاہ انگلستان کے واپس جانے کے بعد سلطان نے شہر کا انتظام مزید درست کیا۔ مدرسے اور شفاخانے قائم کرنے کے بعد دمشق کی طرف روانہ ہوئے۔ کچھ عرصہ بعد سن1193 ء میں وہیں راہی ملک بقاہوئے۔سلطان صلاح الدین ایک بڑے نیک سیرت، شجاع، فیاض اور مدبر سلطان تھے۔ انہوں نے تمام عمر مسلمانوں کو یکجا کر کے مملکت اسلامیہ کو مضبوط کیا۔ جنگوں میں جو نقصان پہنچا اس کی تلافی کی۔قلعے تعمیر کیے۔ برباد شدہ مساجد اور عمارتوںکو دوبارہ تعمیر کیا۔ جابجا مدرسے قائم کیے۔ علماء اور صلحاء کے قددان تھے۔سلطان صلاح لدین کے بعد ان کی اولاد، دادا نجم الدین ایوبی کے نام سے ایوبی کہلائے۔پھر صلاح الدین کی اولادعیسائوں سے لڑتی رہی۔ اگر چہ صلیبیں جنگوں کا سلسلہ جاری رہا مگر عیسائی لشکر اپنی اصلی مقاصد میں کامیاب نہ ہو سکے۔پھر عیسائیوں نے1948ء میں فلسطین پر یہود کو ذبردستی قبضہ کرا کر اسراعیلی ناجائز ریاست قائم کر دی۔ اسراعیل نے اس کے باشندوں کو فلسطین سے نکال دیا اور آج تک قابض ہے۔صلیبی جنگیں دو سال سال جاری رہیں۔ یورپ اور ایشیا دونوں براعظموں میں نہایت گہرے اور دور رس نتائج پیدا ہوئے، فریقین کا بے حد جانی نقصان ہوا۔ شام اور فلسطین میں تباہی پھیلی۔ عیسائیوں اور مسلمانوں میں عداوت اور منافرت کا جذبہ زروں پر رہا۔ جس کے اثرات اب تک باقی ہیں۔جب نائن الیون کاخود ساختہ واقعہ ہوا تو امریکا کے صدر جو ایک مذہبی جنونی تھے، نے کہا تھا کہ اس نے کروسیڈ دوبارہ شروع کر دی ہے۔ ہمارے سامنے ہے کہ یہود، نصاریٰ اور ہنود مسلمانوں کو مارتے بھی ہیں اور ان کو اپنے دجالی میڈیا کے ذریعے دہشت گرد بھی ثابت کرتے ہیں۔افغانستان، عراق، لیبیا، بھارت، شام، کشمیر، فلسطین، برما،بوسینیا، چیچنیا وغیرہ اور خود پاکستان کے اندر عیسائی امریکا نے یورپ اور ہندوستان کے ساتھ مل کر دہشت گردی پھیلا ئی ہوئی ہے۔ داعش اور دیگر جنگجو تنظیمیںبنا کر مسلمانوں کی خو ن ریزی کی حد کر دی ہے۔ اپنی ناجائز اولاد اسرائیل کو کھلی چھٹی دی ہوئی ہے۔ وہ فلسطین پر قابض ہو گیا۔ فلسطین کے اصلی باشندوںکو وہاں سے نکا ل دیا ہے۔ غزہ جو23 لاکھ فلسطینیوں کی جیل ہے۔ اس پر آئے دن آگ برسا کر ہمیشہ ظلم کر رہتا ہے۔ موجودہ جنگ میں حماس نے بری، بحری اور فضائی راستوں سے حملہ کیا اور پانچ ہزار سے زائد راکٹ برسا کر سیکڑوں اسرائیلوں کو موت کے گھاٹ اُتار دیا۔ اس کے بدلے اسرائیل نے چار ہزار غزہ کے نہتے لوگوں کو قتل اور اس سے زائد زخمی کر چکاہے۔اس میں بچوں اور عورتوں کی تعداد زیادہ ہے۔ اس طرح موجودہ دور میں بش کی جاری کردہ کروسیڈ اب بھی جاری ہی ہے۔ مسلمان کسی سلطان نورالدین زنگی اور سلطان صلاح الدین ایوبی کی تلاش میں ہیں۔ اس وقت مسلمانوں کے پاس دولت، معدنیات، بحری اور بری راستے ہیں۔ پونے دو ارب آبادی ہے۔ مگر اس کے حکمرانوں کو عیسائی امریکہ نے قابو کیا ہوا۔ اس میں کسی کو مسلمانوں کا لیڈر نہیں بننے دیتا۔ چاہئے تو یہ کہ تمام اسلامی ملک اپنی اپنی جنگی صلاحیت کو بڑھائیں اور پاکستان کی بھر پورمالی مدد کریں کہ وہ اپنا ایٹمی اور میزائل پروگرام کو ترقی دے کر مسلم دشمنوں کو للکارنے کے قابل ہو ۔مسلمان دنیا میں ویٹو پاؤر حاصل کریں۔اقوام متحدہ یہود، نصاریٰ کی لونڈی بنی ہوئی ہے۔ مسلمان ملکوں کو اپنی اقوام متحدہ بنانی چاہیے۔مسلمان ملکوں کی مشترکہ اقتصادی منڈی ہونی چاہیے۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ مظلوم مسلمانوں کی مظلومیت کو ختم کرنے کے لیے کسی ایسے لیڈر کو پیدا کرے جو یہ سب کام کرکے دشمنوں کو مناسب جواب دے سکے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔