میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
افغان مسائل کا حل ایک جامع حکومت

افغان مسائل کا حل ایک جامع حکومت

ویب ڈیسک
بدھ, ۶ ستمبر ۲۰۲۳

شیئر کریں

حمیداللہ بھٹی

رواں ماہ 29ستمبرکوایسے حالات میںافغانستان کے بارے میں کثیرالجہتی ماسکوفارمیٹ کا سالانہ اجلاس روس کے شہر کازان میں منعقد ہو رہا ہے جب کئی ہمسایہ ممالک کو طالبان سے تحفظات ہیں۔ روس کی میزبانی میں پاکستان ،بھارت ،چین ایران اور طالبان نمائندے مل بیٹھ کردہشت گردی ومنشیات اسمگلنگ کے خاتمے سمیت سیاسی نمائندگی کی عکاس ایک حقیقی اور جامع حکومت کی تشکیل کی اہمیت اور امکانات کا جائزہ لینے کے لیے تبادلہ خیال کریں گے موجودہ عبوری حکومت میں غیر پشتونوں کی نمائندگی نہ ہونے کے برابرہے۔ طالبان نے اگرچہ ایک جامع عبوری حکومت تشکیل دینے کی حامی بھرتے ہوئے غیر پشتونوں کوبھی شامل کرنے کا دنیاکو یقین دلایا تھا لیکن ایسا فی الحال نہیں ہو سکا یہ اجلاس نتیجہ خیز ہوتاہے یا طالبان کو وعدے یاد دلاتے ہوئے عمل درآمد ممکن بنانے کی ایک اور یقین دہانی حاصل کرنے تک محدودرہتاہے آثار اچھے نہیں کیونکہ طالبان کسی کی مان کر نہیں بلکہ منواکر چلنا چاہتے ہیں جس پر خطے کی کئی اقوام پریشانی کا شکار ہیں۔ طالبان وعدے تو کرتے ہیں عمل نہیں اور کسی کے پاس ایسا کوئی طریقہ یاطاقت نہیں جس سے طالبان کو وعدوں کی پاسدار ی پر مجبورکیاجا سکے۔ طالبان کو بھی اِس کا بخوبی ادراک ہے اسی لیے کسی کو خاطر میں نہیں لاتے اور اپنی مرضی کرتے ہیں۔
اقتدارمیں آنے سے قبل طالبان نے جو یقین دہانیاں کرائی تھیں حیرانگی کی بات ہے کہ اِس حوالے سے ابھی تک کوئی کام نہیں ہوا نہ صرف دہشت گرد بلاروک ٹوک افغان سرزمین استعمال کررہے ہیں بلکہ ملک کے مختلف طبقات کو بددستور پابندیوں کاسامنا ہے۔ خواتین خاص طورپر طالبان کے نشانے پرہیں۔ اسی بناپر افغانستان میں آج بھی بے چینی اوربدامنی ہے۔ اِن حالات میں بیرونی تحفظات اُسے مزید کمزور کرسکتے ہیں لیکن کیا اِن خطرات کا طالبان کو کچھ ادراک ہے ؟بظاہر ایسا کوئی اشارہ نہیں ملتا بلکہ افغانستان اور دنیا کووہ اپنی پسند کے مطابق چلانے کی کوشش میںہیں۔ حالیہ اجلاس ایسا موقع ہے کہ طالبان سے اندرونِ ملک ایک جامع سیاسی حل کانہ صرف مطالبہ کیاجائے بلکہ اُنھیںدہشت گردی کے خلاف کیے وعدے بھی یاددلائے جائیں۔
افغانستان میں دہشت گردی کے واقعات تواترسے جاری ہیں جن پرقابو پانے میں طالبان ناکام ہیں۔ دراصل نیٹوافواج جاتے ہوئے سامانِ حرب کا بڑاذخیرہ چھوڑ گئی ہیں جس سے طالبان سمیت دیگر افغان گروہوں کوبھاری ہتھیارکی کمی نہیں رہی مگر طالبان ہوں یا دیگر گروہ ،یہ نہ صرف غیر منظم ہیں بلکہ تربیت میں بھی کئی نقائص ہیں نیز سب ہی افغان وسائل پر تصرف حاصل کرنے کے لیے اکثر باہم برسرِ پیکار رہتے ہیں جو ملک میں بھوک و افلاس کی اصل وجہ ہے۔ بہتر تو یہ تھا کہ طالبان دیگر سرگرمیوں کے ساتھ ملک کے اندرسیاسی مکالمے کوفروغ دیکر ایک وسیع ترجامع سیاسی حل تلاش کرنے کی کوشش کرتے مگر اُن کی سخت گیر ی افغانستان میں بدامنی کی راہ ہموار کرنے کے ساتھ ہمسایہ ممالک کے تحفظات کاباعث بن گئی ہے۔ مستقبل قریب میں بھی ایسے کوئی اشارے نہیں ملتے کہ وہ اپنے سخت طرزِ عمل پر نظرثانی کے لیے آمادہ ہو جائیں گے۔ اجلاس میں طالبان پر یہ واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ اُن کے طرزِ عمل سے ہمسایہ ممالک غیر مستحکم ہوسکتے ہیں اور اندرونی خلفشاراُن کی سیاسی ناکامی پر منتج ہو سکتاہے ۔
کان کنی کی افغان وزارت نے رواں ماہ 6 ارب 56کروڑ ڈالر کے ملکی و غیر ملکی کمپنیوں سے سات معاہدے کیے ہیں جن کے زریعے سونے،تانبے ،سیسے،زنک اور لوہے کی کانوں سے کان کنی کرکے دھاتوں کی پروسیسنگ کی جائے گی۔ طالبان کو یقین ہے کہ اِس طرح نہ صرف روزگارکے ہزاروں مواقع پیداہوں گے بلکہ ملک کی معاشی صورتحال میں بھی نمایاں بہتری آئے گی مگر جدید ترین ہتھیاروں سے لیس طالبان مخالف گروہ آسانی سے کان کنی کاموقع دینے کی بجائے رخنہ اندازی کے ذریعے حصہ وصول کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ اِن خطرات پر کیسے قابو پانا ہے؟ طالبان کے پاس اِ س سوال کا کوئی جواب نہیں ظاہر ہے تحفظ نہ ملنے سے کان کنی کا عمل متاثر ہو گا اور پھر سرمایہ کار کمپنیوں کو متحارب گروہوں سے خود سلسلہ جنبانی کرنا پڑے گا جس سے طالبان کے بارے میں دنیا کو اچھا تاثر نہیں جائے گامگر جن کے مستقبل کے بارے میں فکر مند خطے کے ممالک تو تبادلہ خیال کررہے ہیں لیکن طالبان صفوں میں اِس حوالے سے بے فکر ی ہے ۔
ملک میں اشیاکی قلت پر قابو پانے کے حوالے سے طالبان کا رویہ غیر سنجیدہ ہے اوروہ تجارت پر جکڑ بندیاں لگا رہے ہیں۔ سالانگ ٹنل اور ہائی وے کو دس ستمبر سے غیر معینہ مدت کے لیے بند کرنے کا اعلان اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ ہندوکش پہاڑی سلسلے سے نکالی گئی یہ ٹنل کابل کے شمال میں نوے کلومیٹر دور 2.67 کلومیٹر طویل ہے۔ یہ افغانستان کے مختلف شہروں تک اشیاپہنچانے کا ایک اہم راستہ ہے بظاہربندش کاجواز تعمیرو مرمت پیش کیا گیا ہے مگر اصل وجہ جولائی اور اگست میں پاکستانی برآمدات کا افغان درآمدات سے بڑھنا ہے۔ طالبان کوخدشہ لاحق ہے کہ اِس طرح ڈالر ذخائر میں کمی آسکتی ہے جس کے لیے تجارتی گزرگاہ کو بند کر دیا گیا ہے حالانکہ جائز ذرائع بند ہونے سے اسمگلنگ جیسی غیرقانونی سرگرمیاں فروغ پاتی ہیں۔ مزیدیہ کہ افغان وزارتِ خارجہ نے اپنے شہریوں کو ایڈوائزری جاری کی ہے کہ سیاسی عدمِ استحکام ،احتجاج اور پُرتشدد واقعات کی وجہ سے پاکستان کے سفر میں احتیاط برتیں لیکن کئی عشروں سے یہاں مقیم پینتالیس لاکھ افغانوں کو اپنے ملک لے جانے پرآمادہ نہیں۔ ممکن ہے طالبان کے اعتماد کی وجہ وہ عالمی رپورٹس ہوں جن میں افغان معیشت اچھی ظاہر کی گئی ہے حال ہی میں ورلڈ بنک نے پاکستان کے مقابلے میں افغان کرنسی کو 29.3فیصد مستحکم قرار دیتے ہوئے مہنگائی میں 9.1 فیصد کمی بتائی ہے وجہ 2022کے وسط تک بلندی پر پہنچنے والی مہنگائی کے دوران اشیا کی ترسیل میں اضافے اور منڈی میں بڑے پیمانے پرد ستیابی قراردی جس سے اپریل 2023 میں گرانی میں کمی آنا شروع ہوئی۔ یہ سلسلہ رواں برس جون تک برقرار رہا اب راستوں کی بندش سے پیداہونے والی اشیا کی قلت مہنگائی میں دوبارہ اضافے کا موجب بن سکتی ہے ۔ڈالر بچانے کے لیے عوامی مشکلات نظرانداز کرناغیرمناسب ہے یہ کرنسی مستحکم رکھنے کادیرپا نہیں بلکہ عارضی اور مصنوعی حل ہے ۔ماسکو اجلاس تب ہی سود مندثابت ہوسکتاہے جب معاشی سرگرمیوں کو فروغ دینے کے لیے طالبان کو آزادانہ تجارت پررضامندکیا جائے۔
طالبان کے روس ،بھارت اور چین سے تعلقات بہتر ہوئے ہیں لیکن دونوں ہمسائے اسلامی ممالک پاکستان اور ایران سے بگڑ تے دکھائی دیتے ہیں۔ دونوں ممالک سے طالبان رہنمائوں کا رویہ سخت ہوتاجارہا ہے ۔طالبان وزیرِ دفاع سمیت کئی رہنمائوں کی پاکستان کے بارے میں تضحیک آمیز گفتگوکسی سے پوشیدہ نہیں۔ افغان سرزمین استعمال کرنے والے دہشت گردپاکستانی سیکورٹی دستوں کو نشانہ بناتے رہتے ہیں۔ دوطرفہ بات چیت میں ایک سے زائدبار پاکستان کی طرف سے اِس جانب توجہ مبذول کرانے کی کوشش کی گئی لیکن طالبان کے رویے میں تبدیلی نہیں آئی۔ اب ایران بھی خفارہنے لگاہے ۔وزیرِ خاررجہ امیرخان متقی نے افغان علمائے کرام اور معززین سے خطاب کرتے ہوئے ایرانی حکام کو سخت تنقیدکا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ آپ وہ ہیں جو ہمیں نصیحت کرتے اور ایک جامع حکومت بنانے کا کہتے ہیں کیا آپ کے ملک میں ایک جامع حکومت ہے؟کیا آپ اپنے شہریوں کو حقوق دیتے ہیں۔ امیرخان متقی نے ایرانی پارلیمان کے ملنے آئے وفد ،جس کی قیادت سخت گیر رُکن پارلیمنٹ جواد کریمی کررہے تھے سے بات چیت کے دوران ایرانیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہماری جیلوں میں اتنے قیدی نہیں جتنی تعدادکو آپ جیلوں میں پھانسی دیتے ہیں ۔نیز آپ کے ملک میں ہزاروں مردوزن غائب ہیں ۔اِس کے باوجود کوئی پوچھنے کی جرات نہیں کرتا کہ وہ کہاں ہیں ؟دریائے ہلمند کے پانیوں میں حصہ بڑھانے کے ایرانی مطالبات کے پس منظر میں بھی طالبان اور تہران کے درمیان تعلقات گزشتہ کئی ماہ سے کشیدہ ہیں۔ ایرانی معاون وزیرِ خارجہ رسول موسوی نے بیانات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ اصل مسئلہ کو دوطرفہ اور ذاتی بناکر پیش کرنے سے بین الاقوامی ذمہ داریوں کو ٹالا نہیں جا سکتا اور یہ کہ امن ،استحکام،سلامتی اور ترقی کا انحصار افغانستان میں ایک جامع اور مستحکم حکومت پر ہے ۔ انھوں نے سلامتی کونسل کی طرف سے منظورکی جانے والی قراردادوں 2513 اور2593کا حوالہ بھی دیا جن میں جامع حکومت بنانے کی تجویز دی گئی جنھیں پاکستان ،ایران ،چین اور ازبکستان کے وزرائے خارجہ نے متفقہ طور پر منظور کیا تھا۔ایسی بیان بازی خطے کو تفرقہ بازی کی طرف بھی لے جا سکتی ہے۔ ماسکو اجلاس کو مسائل کے حل کی کلید بنانا ہے تواصل مسائل پر توجہ دینا ہوگی جس کے لیے ا یک جامع افغان حکومت کاقیام ناگزیرہے تاکہ خطے میں دہشت گردی کاناسور ختم اور تجارتی و معاشی سرگرمیوں کی راہ ہموار ہو سکے۔
٭٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں