میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
دبئی میٹنگ پر پی ڈی ایم کو اعتماد میں کیوں نہیں لیا گیا، مولانا فضل الرحمان

دبئی میٹنگ پر پی ڈی ایم کو اعتماد میں کیوں نہیں لیا گیا، مولانا فضل الرحمان

جرات ڈیسک
اتوار, ۹ جولائی ۲۰۲۳

شیئر کریں

پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کے سربراہ اور امیر جمعیت علمائے اسلام (ف) مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ دبئی میں ہونے والی میٹنگ میں پی ڈی ایم کو اعتماد میں کیوں نہیں لیا گیا، پی ڈی ایم ایک تحریک تھی اب اس کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ سینئر صحافیوں کے ساتھ غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ سوال پی ڈی ایم میں موجود ہے کہ مسلم لیگ (ن )نے اب تک اتحاد میں شامل جماعتوں کو دبئی میں ہونے والی میٹنگ کے حوالے سے اعتماد میں کیوں نہیں لیا۔ انہوں نے کہا کہ دبئی مذاکرات اچانک نہیں بلکہ منصوبہ بندی سے ہوئے اس لیے سب کواعتماد میں لیا جانا چاہیے تھا۔ پی پی ہمارے اتحاد کا حصہ نہیں اس لیے دبئی مذاکرات کے بارے میں نہیں پوچھ سکتے۔پی ڈی ایم ایک تحریک تھی اب اس کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ ایک سوال کے جواب میں مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ عام انتخابات وقت پر ہوں گے، جلد مرکز، سندھ اوربلوچستان میں نگران حکومتیں قائم آ جائیں گی، ملک میں معیشت بہتر ہونا شروع ہو گئی ہے۔ ایک اور سوال کے جواب میں پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین پر تنقید کرتے ہوئے پی ڈی ایم کے سربراہ نے کہا کہ عمران خان امریکا کوگالی بھی دیتا ہے اور اس سے یاری بھی گانٹھی جارہی ہے، عجیب بات ہے کہ وہ عالمی برادری جو قران پاک کی توہین کرتی ہے وہی چیئرمین پی ٹی آئی کی حمایت بھی کرتی ہے۔ چیئرمین پی ٹی آئی سی پیک اورسرمایہ کاری روکتا ہے اسکے قول وفعل میں تضاد ہے، جب محسوس ہوا کہ دفاعی نظام میں عدم استحکام آ رہا ہے تو چیئرمین پی ٹی آئی سے ہاتھ اٹھا لیا گیا، چیئرمین پی ٹی آئی کو را اور موساد کی سپورٹ حاصل تھی اور آج بھی حاصل ہے۔ امید ہے کہ قوم عام انتخابات میں اس فتنے سے ملک کومحفوظ رکھے گی۔ امیر جے یو آئی (ف) نے کہا کہ ہم 2018 اتخابات کے بعد اسمبلیوں کی رکنیت کا حلف نہیں اٹھانا چاہتے تھے تاہم اپوزیشن جماعتوں کی وجہ سے ایساکرنا پڑا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے لیے بے شمار مشکلات پیدا کی گئیں مگر ہم نے تحمل سے کام لیا، ہم چیئرمین پی ٹی آئی کی حکومت کونہیں ہٹانا چاہتے تھے تاہم اپوزیشن کا ساتھ دینے کے لیے ان کے ساتھ کھڑے ہوئے۔ فوج ایک ادارہ ہے جس سے اختلاف ممکن نہیں البتہ شخصیات سے اختلاف ہوسکتا ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں