میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
دسمبر ۔۔ستم گر،جب پاکستان دولخت ہوا

دسمبر ۔۔ستم گر،جب پاکستان دولخت ہوا

منتظم
بدھ, ۳۰ نومبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

پاکستانی صدر نومبر1971ءمیں ہی بنگلا دیش کے قیام پر رضامند تھے،ہنری کسنجر کاانکشاف
٭ جنرل یحییٰ خان نے امریکی صدر رچرڈ نکسن کواپنی رضامندی سے آگاہ کر دیا تھا،مشرقی پاکستان کو علیحدہ کرنے کا مہینہ مارچ 1972 طے پایا تھا،یحیی خان کی یقین دہانی و دیگر مقاصد پورے ہوئے ،اٹلانٹک میگزین٭سارا بندوبست پاک چین تعلقات کے خلاف تھا جسے کسنجر گول کرگئے ،سابق امریکی وزیر خارجہ کے انٹرویو کو شائع ہوئے کم وبیش ایک ماہ گزرنے کے باوجود تا حال پاکستانی اعلیٰ حکام کی خاموشی معنی خیز ہے
یحییٰ خان نے عوامی لیگ کی جانب سے بھارت کی مدد سے بنگلا دیش آزاد کرانے کی مسلح تحریک شروع کئے جانے سے ایک ماہ سے زیادہ عرصہ پہلے نومبر ہی میں بنگلا دیش کے قیام پر رضامندی ظاہر کردی تھی اور امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر کو اس سے آگاہ بھی کردیاتھا۔ امریکی رسالے اٹلانٹک کو دیے گئے اپنے ایک تازہ انٹرویو میں سابق امریکی وزیرِ خارجہ ہنری کسنجر نے 16 دسمبر 1971 کے حوالے سے اس بات کاحیرت انگیز انکشاف کیا ہے۔ ہنری کسنجر کے اس انکشاف نے بلاشبہ ملک وقوم کا درد رکھنے والے پاکستانیوں کو ششدر کر دیا ہے۔لیکن اس انٹرویو کو شائع ہوئے کم وبیش ایک ماہ گزرنے کے باوجود تا حال پاکستانی اعلیٰ حکام اس پر خاموش ہیں جو معنی خیز ہے۔
اٹلانٹک میں شائع ہونے والے اپنے انٹرویو میںہنری کسنجرنے واضح الفاظ میں کہاہے کہ نومبر کے مہینے ہی میں، یعنی پاکستان ٹوٹنے سے ایک ماہ قبل ہی، تیسرے مارشل لا ایڈمنسٹریٹر، فوجی سربراہ اور از خود صدر کہلانے والے جنرل یحییٰ خان نے اس وقت کے امریکی صدر رچرڈ نکسن کو قیامِ بنگلا دیش کی نوید سناتے ہوئے اپنی رضامندی سے آگاہ کر دیا تھا۔البتہ مشرقی پاکستان کو علیحدہ کرنے کا مہینہ مارچ 1972 طے پایا تھا۔ یہ انٹرویو اٹلانٹک کے ایڈیٹر ان چیف جیفری گولڈ برگ کو ایک ایسے وقت میں دیا گیا جب اس واقعے کو گزرے 45 برس ہونے کو ہیں۔ہنری کسنجر 1960 اور 1970 کی دہائیوں میں بنائی جانے والی امریکی پالیسیوں کے گواہ ہیں، مگر وہ یہ کبھی نہیں بتائیں گے کہ اس کھیل میں روسی اور برطانوی ہرکارے کس طرح شامل تھے۔
1966 میں پاکستان نے شاہراہِ ریشم (سلک روڈ) بنانے کے لیے چین سے معاہدہ کیا تھا۔ چین متحدہ پاکستان کی موجودگی میں مشرقی و مغربی پاکستان کی دو اہم سمندری بندرگاہوں کے ذریعے بحیرہ ہند میں اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کے ارادے رکھتا تھا، اور روسی ان کے ارادوں کے امین تھے۔پاک چین دوستی میں ایک اہم کردار میاں افتخار الدین کا بھی ہے جو 1951 میں ایک اعلیٰ سطحی وفد لے کر چین گئے تھے، جبکہ عوامی جمہوریہ چین کو مغربی یورپ اور امریکا تسلیم نہیں کرتے تھے بلکہ ایک جلاوطن حکومت کو ہی اقوام متحدہ میں ویٹو طاقت حاصل تھی جو تائیوان میں مقیم تھی۔شاہراہِ قراقرم کے ذریعے متحدہ پاکستان تک چین کی آمد نے خطرے کی گھنٹیاں بجا دیں۔ اس سے نہ صرف چین کا خلیج بنگال اور خلیج فارس میں اثر و رسوخ بڑھنا تھا، بلکہ بحیرہ احمر ( sea Red ) کی سیاستوں پر بھی گہرے اثرات مرتب ہونے تھے۔یہ وہ وقت تھا جب روس اور چین کے درمیان سخت کشیدگی تھی۔ یوں بڑھتے ہوئے پاک چین تعلقات کے بعد عالمی سطح پر روس، برطانیہ اور امریکا چین کو روکنے والی پالیسی (China containment policy) کی طرف 1960 کی دہائی کے آخری برسوں میں بوجوہ یکجان ہوئے۔ یہی وہ وقت تھا کہ ہماری اشرافیہ میں یہ بحث تیز کر دی گئی کہ اب ہمیں بنگالیوں سے جان چھڑا لینی چاہیے۔اپنے اقتدار کا 10 سالہ جشن مناتے ہوئے جنرل ایوب خان نے اخباروں کے ایڈیٹرز سے ملاقات میں اس باکمال تجویز کا تذکرہ کیا جو ریکارڈ کا حصّہ ہے۔ یہی بات پختونوں کو ایک اور انداز سے بیچی گئی۔ ایک پختون کمیونسٹ کی کتاب ”فریب نا تمام“ میںجمعہ خان صوفی نے ولی خان کے حوالے سے بتایا ہے کہ جب 1968 میں ایوب دورِ حکومت کے دوران گول میز کانفرنس ناکام ہوئی تو ایوب خان نے ولی خان کو بلا کر کہا کہ اگر تم پاکستان میں اثر و رسوخ بڑھانے کے خواہاں ہو تو بنگالیوں سے جان چھڑا لو۔ جمعہ خان صوفی کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان (امام علی نازش گروپ) میں تھے۔ بقول جمال نقوی یہ گروپ 1967 میں ہی بنگالیوں کی علیحدگی کی قرارداد منظور کر چکا تھا۔
ا ب اگر ہنری کسنجر کے انکشاف کو جنرل ایوب کی جانب سے دو بار بنگالیوں سے جان چھڑانے کی خواہش کے اظہار اور جنرل یحییٰ خان کی نومبر 1971 میں قیام بنگلا دیش پر رضامندی سے جوڑ کر دیکھیں تو اس کہانی کے سرے جڑنے لگتے ہیں۔2009 میں نیشنل عوامی پارٹی (بھاشانی) کے ایک پرانے رہنما کمال لوہانی نے جو بنگلا دیش کے قیام کے بعد بنگلا دیش ریڈیو کے ریجنل ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز ہوئے ایک انٹرویومیں بتایاتھا کہ کیسے لیفٹیننٹ جنرل صاحبزادہ یعقوب علی خان نے دسمبر 1970 کے انتخابات سے قبل مجیب الرحمان کو مضبوط اور نیشنل عوامی پارٹی (بھاشانی) کو کمزور کیا تھا۔ مولانا بھاشانی اس کھیل میں درد دل رکھنے والے عوامی رہنما تھے جنہیں مشرقی و مغربی پاکستان میں اتحاد کی علامت سمجھا جاتا تھا۔وہ یہ سب دیکھ کر اس قدر دلبرداشتہ ہوئے کہ مجبوراً انھوں نے انتخابات کا بائیکاٹ کرنے کااعلان کردیا۔ اگرتلہ کا مقدمہ بھی مجیب الرحمان کو لیڈر بنانے کے لیے کارگر رہا۔ چنگاری کو ہوا دے کر زیرک صاحبزادہ یعقوب استعفیٰ دے کر کھسک آئے۔ اشرافیہ کے ایک حلقے نے خود بنگالیوں سے جان چھڑانے کا فیصلہ کیا ہوا تھا مگر اس کا الزام سیاستدانوں کے سر باندھنا "قومی مفاد” کی خاطر ضروری تھا۔جنرل یحییٰ کو یہ بتایا گیا کہ اگر دو جماعتیں مشرقی و مغربی پاکستان میں انتخاب جیتیں گی تو آپ ان کو ایک دوسرے سے لڑوا کر مستقبل کے صدر بن سکیں گے۔ مگر جو سچ کسنجر نہیں بیان کر سکے، وہ تھا بھارت کا پاکستان پر حملہ اور مکتی باہنی کا قیام۔جب پاکستان کا صدر و فوجی سربراہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی پر راضی تھا تو پھر بھارت کو پاکستان کے مشرقی بازو پر حملہ آور کیوں ہونے دیا گیا؟اس بات کو جاننے سے ہی کسنجر کا سچ اور جھوٹ آپ کی سمجھ میں آ جائے گا۔ اس بارے میں مشہور بھارتی بنگالی کیمونسٹ موہیت سین اور پاکستانی طارق علی نے اپنی اپنی کتابوں میں روشنی ڈالی ہے۔ان کے مطابق بھارت کو بجا طور پر یہ ڈر تھا کہ کہیں اس کھیل کے دوران متحدہ بنگال کی تحریک مضبوط نہ ہو جائے۔ اس کی نظر برابر اس پر تھی۔ بھارتی افواج دسمبر 1971 میں بنگلا دیش بنانے نہیں بلکہ متحدہ بنگال کی تحریک کو کچلنے کے لیے مشرقی پاکستان میں داخل ہوئیں تھیں۔پاکستان پر حملے سے چند ماہ پہلے راتوں رات مجیب باہنی کھڑی کی گئی جس کا مقصد صرف اور صرف متحدہ بنگال کے حامیوں کو مارنا تھا، جو سب کے سب چین نواز تھے۔ اگر چین نواز متحدہ بنگال ہی بنانا تھا تو پھر پاکستان توڑنے کی مہم شروع کرنے کاکیافائدہ تھا۔
اپنے انٹرویو میں ہنری کسنجر اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ امریکا کو سوویت دباﺅ، بھارتی مقاصد، پاکستانی سلامتی اور چین کے شکوک و شبہات کے درمیان بہت ساری چیزوں کو مدِ نظر رکھنا تھا، اور اسی حساب سے ایڈجسٹمنٹ کی گئیں۔مشرقی پاکستان میں بھارتی ایڈونچر پر مزید بات کیے بغیر ہنری کسنجر اس بات کا اعادہ کرتے ہیں کہ جس بات کی یحییٰ نے یقین دہانی کروائی تھی، وہ اور دیگر پالیسی مقاصد پورے ہوئے لہٰذا جو کچھ بھی ہوا اس پر معافی نہیں مانگی جا سکتی۔مگر چین کو روکنے کی اس پالیسی کے نتیجے میں ہمارا پورا خطہ برباد ہوا۔ ایران، پاکستان، بھارت، افغانستان اور برما، ہر جگہ بربادیوں کے میلے سجائے گئے اور انتہا پسندیاں قومیتی و مذہبی لبادوں میں مضبوط ہوئیں جس کانظارہ آج پورے خطے میںکیا جاسکتا ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں