میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
عدالت عظمیٰ کا تقدس برقرار رکھاجائے

عدالت عظمیٰ کا تقدس برقرار رکھاجائے

ویب ڈیسک
جمعرات, ۲۷ جولائی ۲۰۱۷

شیئر کریں

وزیراعظم نواز شریف کے خلاف جے آئی ٹی رپورٹ پر سپریم کورٹ کے معزز جج صاحبان کا فیصلہ ہنوز محفوظ ہے اور یہ فیصلہ سنانے میں جیسے جیسے تاخیر ہوتی جارہی ہے اس کے بارے میں قیاس آرائیوں اور خاص طورپر بدگمانیوں سے بھرپور قیاس آرائیوںکاسلسلہ بھی دراز ہوتا جارہاہے ۔اس کے ساتھ ہی مسلم لیگ کے بعض بے نیام تیغ تصور کئے جانے والے رہنما ایک دفعہ پھر متحرک ہوگئے اور عدالت کو ایک نئی طرز سے دھمکیاں دینا شروع کردی ہیں ،اب پنجاب حکومت کے تیغ بے نیام رانا ثنا اللہ نے گزشتہ روز یہ دھمکی دی کہ اگر نواز شریف کو نااہل کیاگیا توملک میں بقول ان کے افراتفری پیدا ہوجائے گی ، جبکہ آج اتنا کچھ ہونے کے باوجود اکثر لوگ بدگمانی میں مبتلا ہیں اوران کا خیال ہے کہ کچھ بھی ہونے والا نہیں ہے۔کچھ نہ ہونے کاخیال رکھنے والوں کا یہ خیال بے بنیاد نہیں ہے بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ماضی میں طاقتور ہمیشہ احتساب کے شکنجے سے بچ نکلے ہیں اور میاں نواز شریف فیملی کے حوالے سے توعام رائے یہ ہے کہ انہیں کبھی عدالتوں نے سز انہیں سنائی ہے۔ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے وزیر اعظم اور ان کے صاحبزادوں کے بعد میاں شہباز شریف اور اسحاق ڈار کو بھی طلب کیاتھا۔ لیکن اس کے باوجود ایک حلقہ جو مسلسل یہ کہتا چلا جا رہا ہے کہ بالآخر کچھ نہیں ہوگا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اب تک کی کارکردگی نے جے آئی ٹی ممبران کی ساکھ کو بلندرکھاہے۔ مگر بدگمانی کا دفتر بند نہیں ہو رہا۔ یہ بدگمانی قبل ازیں عدالتِ عظمی کے معزز جج صاحبان کے بارے میںبھی تھی۔ پانامہ کیس کا فیصلہ آیا تو کہا گیا کہ دیکھ لیجئے کہ ہم نہ کہتے تھے کہ کچھ ہونے والا نہیں ہے۔ نواز شریف کو سزا ہو جاتی تو شاید نظام انصاف پرعوام کا اعتماد قائم ہوجاتا لیکن تین دو کے اکثریتی فیصلے کے نتیجے میں نواز شریف اور ان کے صاحبزادے فوری سزا سے بچ نکلے۔ اول روزسے لوگوں کی بدگمانی تھی کہ جے آئی ٹی وہ کام کیسے کر سکے گی جو عدالت عظمیٰ کے معزز جج صاحبان نہیں کر سکے۔ اب اس حوالے سے جو کچھ ہو رہا ہے وہ بھی بعض لوگوں کو ایک ڈرامہ لگتا ہے۔ طاہر القادری تو اس کا اظہار کھلے بندوں کر چکے ہیں جب کہ آصف علی زرداری کی قیادت میں پوری پیپلز پارٹی یہ راگ الاپ رہی ہے کہ نواز شریف کے خلاف کچھ بھی نہیں ہوگا۔ تحریک انصاف البتہ خوش گمان ہے اور پہلے دن سے اس خوش گمانی کا اظہار کر رہی ہے کہ عدالت عظمیٰ میں نواز شریف اپنی بے گناہی ثابت نہیں کر سکیں گے۔ جب عدالت عظمی نے اس مقدمے کا نوٹس لیتے ہوئے اس کی تفتیش کرانے کااعلان کیا تو پیپلز پارٹی کے بعض لوگ کہہ رہے تھے کہ عمران خان نے نواز شریف کی کرپشن کو عدالتی سند مہیا کرنے کا بہانہ دے دیا ہے۔ خورشید شاہ تو جذباتی ہو کریہاں تک کہہ رہے تھے کہ عمران خان کی بے وقوفی سے نواز شریف دن بدن مضبوط ہوتے جا رہے ہیں۔اس مقدمے کااونٹ کس کروٹ بیٹھتاہے اس پر کوئی تبصرہ کرنا مناسب نہیں ہے کیونکہ اس سے عدالت کی توہین کا پہلو بھی نکل سکتاہے اور کوئی بھی باشعور شخص عدالت عظمیٰ کی توہین کا تصور بھی نہیں کرسکتا، لیکن یہ کریڈٹ یقیناعمران خان کو جاتا ہے کہ انھوں نے نواز شریف اور ان کے پورے خاندن کو عدالتوں کے سامنے ملزم کی حیثیت سے کھڑا ہونے پر مجبور کردیا ۔ اب اس بات کا انحصارعدالت پر ہے کہ وہ کیا کردار ادا کرتی ہے اوراس بارے میں کیافیصلہ کرتی ہے۔یہ بات واضح ہے کہ عدالتوں کو اپنی ساکھ کی بھی فکر ہوتی ہے اور کسی بھی عدالت کاکوئی بھی جج جو اللہ اور جزا اور سزا کے اسلامی تصور پر یقین رکھتاہے یقینا دنیاوی فائدے کیلئے انصاف سے روگردانی نہیں کرے گا،اس لئے عدالت کے معزز جج صاحبان کی نیت پر شکوک وشبہات کااظہار کسی صورت بھی مناسب نہیں ہے ،اور اس فیصلے کے حوالے سے یہ نہیں کہاجاسکتا کہ ہمارا نظام انصاف بانجھ ہو چکا ہے۔ درحقیقت ایسا نہیں ہے۔ عدالت عظمیٰ کے جن معزز جج صاحبان نے نوا ز شریف کو فوری نااہل قرار دینے سے گریز کیا انہوں نے بھی نواز شریف کو کلین چٹ نہیں دی۔ آج جے آئی ٹی میں جو کڑا احتساب ہوتا دکھائی دے رہا ہے یہ انہی جج صاحبان کے طفیل ہے جنہیں پانامہ کیس کے فیصلے کے بعد ہدف تنقید بنایا گیا۔ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ کے بعد یہ کہنے کی گنجائش باقی نہیں رہے گی کہ انصاف کے تقاضوں کو پورا نہیں کیاگیا۔ عدالتِ عظمی نے جے آئی ٹی کے کام کرنے کا جو میکنزم مرتب کیا تھا اس کے پیشِ نظر کہا جا سکتا ہے کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ بڑی حد تک آزادانہ شفاف اور ایمانداری سے ترتیب دی گئی ہے اس لئے یہ تصور بھی نہیں کیاجاسکتا کہ نواز شریف اور ان کی فیملی کو کلین چٹ دیدی جائے گی، اس خیال کی بنیاد عدالتِ عظمی کے وہ 13سوالات ہیں جو جے آئی ٹی کا مینڈیٹ تھے اور جس کے گرد تمام تفتیش گھوم رہی تھی۔ نواز شریف فیملی کے پاس ان 13سوالوں کے تسلی بخش جوابات نہ پہلے تھے اور نہ اب کوئی دستاویزی ثبوت مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کو فراہم کرسکے ہیں۔ اب چند روزکے اندر عدالت عظمیٰ کا فیصلہ ان تمام بدگمانیوں کا خاتمہ کر دے گا جو سپریم کورٹ کے ججوں اور بعد ازاں جے آئی ٹی رپورٹ کے بارے میں پھیلائی گئیں یا برملا ان کا اظہار کیا گیا۔ اس لئے اب تمام سیاسی جماعتوں اور خاص طور حکمراں جماعت مسلم لیگ ن کو اس حوالے سے قیاس آرائیوں سے گریز کرنا چاہئے اور اپنے تمام رہنمائوں کوعدالتوں کے تقدس کو ملحوظ خاطر رکھنے کی ہدایت کرنی چاہئے اور عدالت عظمیٰ کے حوالے سے ملک میں پھیلنے والی قیاس آرائیوں کے سلسلے کو روکنے اور اس حوالے سے پھیلائے جانے والے شکوک وشبہات کاسلسلہ بند کیاجانا چاہئے تاکہ ملک کاکوئی تو ایسا ادارہ باقی رہے جو عوام کی امیدوں کا مرکز بن سکے،او ر جس سے عوام کو انصاف کے حصول کا یقین ہو۔امید کی جاتی ہے کہ ملک کے تمام سیاستداں بالخصوص ارباب اختیار اس معاملے کی نزاکت کو محسوس کرتے ہوئے عدالت کے تقدس کو برقرار رکھنے کیلئے اپنا کردار ادا کریںگے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں