میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
سول ملٹری تعلقات کے حوالے سے آرمی چیف کا کھرا بیان

سول ملٹری تعلقات کے حوالے سے آرمی چیف کا کھرا بیان

منتظم
جمعه, ۲۲ ستمبر ۲۰۱۷

شیئر کریں

جی ایچ کیو میں سینیٹ کی دفاعی کمیٹیوں کے ایک وفد سے بات چیت کرتے ہوئے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ قومی بجٹ میں دفاع کے لیے بہت کم بجٹ یعنی صرف 18 فیصد رکھاگیا ہے جبکہ بھارت کا جنگی بجٹ40 فیصدہے،جب کہ مہنگائی بہت بڑھ گئی ہے اور جدید ہتھیاروں کی قیمتیں بہت زیادہ ہوگئی ہیں۔ انہیں حاصل کرنادشوار ہو رہاہے۔ جنرل باجوہ نے کہا کہ محدود وسائل کے باوجود پاکستان کی افواج پوری قوت اور بہادری کے ساتھ اپنے فرائض انجام دے رہی ہیں۔ پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے سینیٹ کی دفاعی کمیٹی کے وفد سے باتیں کرتے ہوئے یہ وضاحت بھی کہ پاناما کیس سے فوج یا ان کا کوئی تعلق نہیں انھوں نے یہ واضح کیا کہ میں، جمہوریت کا حامی ہوں، پاناما کا معاملہ عدالتیں چلارہی ہیں اس حوالے سے جو لوگ اندازے لگارہے ہیں اور قیاس آرائیاں کررہے ہیں وہ اندازے لگاتے رہیں،آرمی چیف نے یہ بھی واضح کیا کہ سول ملٹری تعلقات میں کوئی تناؤ نہیں لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی واضح کردیا کہ گزشتہ چار سال تک ملک میں کوئی وزیر خارجہ نہ ہونے کی وجہ سے ملک کو نقصان پہنچا۔ انہوں نے عزم ظاہر کیا ہے کہ فرسودہ روایات توڑنا چاہتاہوں۔ انھوں نے وفد کے ارکان سے سوال کیا کہ آرمی چیف پارلیمنٹ کیوں نہیں جاسکتا۔ انہوں نے فوج اور سیاست دانوں میں مکالمے کی تجویز بھی دی ہے۔ آرمی چیف کو یہ وضاحت اس لیے کرنا پڑی کہ میاں نواز شریف کی جانب سے بار بار یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ فوج بھی ان اداروں میں شامل ہے جو ان کے خلاف سازش کررہے ہیں۔ آرمی چیف کی وضاحت سے ظاہر ہوتا ہے کہ میاں صاحب کی مہم کسی حد تک کامیاب رہی ہے۔ کم از کم اتنی کامیابی تو ملی کہ آرمی چیف کو یہ وضاحت کرنا پڑی۔ پاکستان میں معاملات کوئی بھی چلارہا ہو عام طورپر بالواسطہ طورپر حکومتی حلقوں کی جانب سے یہ تاثر عام کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے کہ اس کے پیچھے فوج ہے۔ بہر حال پاک فوج کے سربراہ کی جانب سے اس حوالے سے کھل کر بات کرنا خوش آئند ہے۔ انہوں نے چار سال وزیر خارجہ نہ ہونے پر نقصان کا ذکر کیا ہے جو اپنی جگہ بالکل درست ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ گزشتہ 4سال تک ملک میں کل وقتی وزیرخارجہ نہ ہونے کی وجہ سے پوری دنیا میں پاکستان مخالف لابی کو پاکستان کے خلاف منفی تاثرات پھیلانے کا موقع ملا جس کا نتیجہ برکس سربراہ کانفرنس کے اعلامیے اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ بیانات اور پاکستان کی امداد میں کٹوتی کے ساتھ پاکستان کو دی جانے والی دھمکیوں کی صورت میں ہمارے سامنے ہے، گزشتہ4سال تک ملک میں کوئی وزیر خارجہ نہ ہونے کی وجہ سے پوری دنیا میں پاکستان کی ساکھ کو زبردست دھچکہ لگاہے اور صورت حال یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ پوری دنیا میں کوئی پاکستان کے سچ کو قبول کرنے کوتیار نہیں جبکہ بھارت کاجھوٹ سر چڑھ کر بول رہاہے۔
آرمی چیف کی جانب سے یہ بات سامنے آنے کے بعدفوج کاپانامہ مقدمات سے کوئی تعلق نہیں اور فوج جمہوریت اورسیاستدانوں کی مخالف نہیں ہے نواز شریف کی پوزیشن مزید خراب ہوگئی ہے۔ اس حوالے سے یہ بات بھی نوٹ کرنے کی اور انتہائی اہمیت کی حامل ہے کہ آرمی چیف نے کلثو نوازم کی جیت پر شہباز شریف کو مبارکباد دی ہے جو اس بات کا اشارہ ہے کہ سپریم کورٹ سے نااہل قرار دئے جانے کے بعد اب پاک فوج میاں نواز شریف کے ساتھ کوئی تعلق نہیں رکھنا چاہتی ۔ آرمی چیف نے فوج اور سیاست دانوں میں مکالمے کی تجویز دے کر دراصل کچھ دنوں قبل سینیٹ کے چیئرمین میاں رضا ربانی کی جانب سے قومی اداروں کے درمیان مذاکرات اور ڈائیلاگ کی ضرورت کی تائید کردی ہے۔ آرمی چیف سمیت تمام ہی لوگ یہ کہتے ہیں کہ آئین کی بالادستی ضروری ہے جب آئین کی بالادستی ہوگی تو ہر شعبہ اپنا کام کر رہا ہوگا فوج کا کام اور اختیارات بھی آئین میں واضح ہیں اور پارلیمنٹ کے اختیارات بھی۔ لہٰذا فوج اور سیاست دان کوئی دشمن نہیں کہ ان کے درمیان ڈائیلاگ نہ ہوسکیں اور اگر ان کے درمیان کچھ غلط فہمیاں جنم لے رہی ہیں یاجنم لے چکی ہیں تو ان کاسدباب نہ کیاجاسکے، دونوں اداروں کو آئینکے اندر رہ کر ہی کام کرنا ہے۔ جب آئین بالادست ہوگا اور ہر ادارہ اپنے اپنے دائرے میں کام کررہاہوگا تو کوئی تنازع پیدا نہیں ہوگا۔
جی ایچ کیو میں سینیٹ کی دفاعی کمیٹیوں کے ایک وفد سے بات چیت کرتے ہوئے چیف آف آرمی ا سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ قومی بجٹ میں دفاع کے لیے بہت کم بجٹ رکھے جانے کاشکوہ کیا ہے اوریہ واضح کیاہے کہ بھارت کاجنگی بجٹ40فیصد جبکہ پاکستان کا صرف 18 فیصدجب کہ مہنگائی کی وجہ جدید ہتھیاروں کی قیمتیں بہت زیادہ ہوگئی ہیںاور ان کاحصول دشوار ہو رہاہے۔ جنرل باجوہ کی جانب سے دفاعی بجٹ کے لیے کم رقم رکھے جانے کاشکوہ اپنی جگہ بالکل درست ہے اس سے ظاہر ہوتاہے کہ موجودہ حکومت کو ملک کے دفاع کو مضبوط بنانے سے زیادہ فکر اپنے عیش وآرام کی ہے ۔جس کااندازاہ اس طرح لگایا جاسکتاہے کہ نئے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی وسیع و عریض 59رکنی کابینہ کے تمام ارکان کو مختلف محکمے، دفاتراور دوسری ضروری سہولتیں فراہم کردی گئی ہیں۔ ان میں شاندار نئی قیمتی گاڑیاں، اعلیٰ معیار کے دفاتر، سرکاری بنگلے اور ضروی عملہ شامل ہے۔ کابینہ کے ان ارکان میں29 مکمل وزیر، 18 وزرائے مملکت، 4 مشیر اور 8 معاونین خصوصی شامل ہیں۔ اسمبلی میں تقریباً 30 سے زیادہ کمیٹیوں کے چیئرمین( کشمیر کمیٹی سمیت) الگ ہیں۔ پھر پارلیمانی سیکریٹری بھی اتنے بلکہ اس سے زیادہ ہوتے ہیں۔ ان سب کو بھی اعلیٰ قیمتیں کاریں، لامحدود پٹرول، ہوائی جہاز کے بے شمار ٹکٹ، اندرون و بیرون ملک ایسی ایسی بیماریوں کاکروڑوں کاعلاج میسر ہے جو کبھی پاکستان میں آئی ہی نہیں ۔ ان تمام اخراجات کے باوجود ہمارے منتخب ارکان اسمبلی اور سابقہ اورموجودہ ارباب حکومت کاحال یہ ہے کہ ہم ابھی تک اسکول کے ایک نصاب پر بھی متفق نہیں ہو سکے ہیں،ہم اپنی قومی زبان کو اس کا جائز حق تک نہیں دے سکے۔ جن عدالتوں سے اردو کے نفاذ کے احکامات جاری ہوتے ہیں انہیں کے فیصلے انگریزی میں جاری ہوتے ہیں الغرض ہم یہ بھی نہیں جان سکے کہ طلبہ کو درسی اور نصابی سرگرمیوں کے علاوہ سیاست اور معیشت کی تربیت بھی دینی چاہیے کیوں کہ آخر ملک کی باگ ڈور انہیں کے ہاتھوں میں آنی ہے۔ علم کا مقصد صرف بہتر ذریعہ معاش ہی نہیں ہوتا بلکہ ذہنی فکری تہذیبی تربیت بھی ہوتا ہے اگر پورے ملک میں ایک نصاب کے تحت تعلیم دی جائے تو کون ہے جواس ملک کی شیرازہ بندی کے آگے رکاوٹ بن سکے۔ اسی طرح ہم اب تک یہ فیصلہ بھی نہیں کرسکے کہ ہم کو اندرونی خطرات زیادہ ہیں یا بیرونی خطرات! اگر دونوں باتیں ہی ہم پلہ اور ہم وزن ہیں تو پھر قوم کو صرف اور صرف اندرونی خطرات کے حوالے سے ذہنی طور پر کیوں تیار کیا جا رہا ہے ، اگر ایسا ہے تو ایٹم بم بنانے کی کیا ضرورت تھی؟ اور دیگر سامان حرب کیوں تیار کیے جا رہے ہیں؟ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ بیرونی خطرات کو یکسر مسترد نہیں کیا جا رہا مگر ایک مخصوص سوچ کے تحت قوم کو صرف اندرونی خطرات سے ہوشیار رہنے کی صلاح دی جا رہی ہے۔بیرونی دشمنوں کی طرف سے مطمئن رہنے کا زہر کانوں میں گھولا جا رہا ہے اور باالفاظ دیگر بیرونی خطرات کی طرف سے قوم کو غافل رکھنے کی دانستہ یا نا دانستہ غلطی کی جا رہی ہے، اگر خواب غفلت میں پڑی قوم پر اچانک بیرونی حملہ ہوتا ہے تو وہ یہی سوچتی رہے گی کہ یہ اندرونی حملہ ہے یا بیرونی۔
اس صورت حال کاتقاضہ ہے کہ ارکان اسمبلی ملک کے تمام معاملات کاسنجیدگی سے جائزہ لیں اور صرف اپنی تنخواہیں اور مراعات میں اضافہ کرانے کی کوششوں اور اپنے ہم نوا اور من پسند لوگوں کو پر کشش ملازمتیں اور ٹھیکے دلانے کی کوشش کرنے کے بجائے ملک پر منڈلانے والے خطرات کاادراک کرتے ہوئے ان سے نمٹنے کے لییواضح حکمت عملی اختیار کریں اور اپنے ایٹمی اثاثوں کو پلیٹ میں رکھ کر کسی بڑی طاقت کو پیش کرنے کی نوبت آنے سے قبل ہی ان کو محفوظ تر بنانے کی حکمت عملی طے کرنے پر توجہ دیں ، ملک کے دفاع اور خاص طورپر دفاعی سازو سامان کی خریداری اور فوج کی تربیت کے لیے زیادہ سے زیادہ وسائل فراہم کرنے پر توجہ دیں۔ انھیں یہ بات نظر انداز نہیں کرنی چاہئے کہ یہ ملک ہے تو وہ ہیں ان کی اسمبلی کی رکنیت بھی ہے اور مراعات اور دیگر سہولتیں بھی ہیں اگر ملک ہی خدانخواستہ خطرے میں پڑگیا تو پھر انھیں کون پوچھے گا۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں