میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
یوم میلادالنبیؐ کو خود احتسابی کا دن بنالیجئے

یوم میلادالنبیؐ کو خود احتسابی کا دن بنالیجئے

ویب ڈیسک
جمعه, ۱ دسمبر ۲۰۱۷

شیئر کریں

پوری دنیا کے مسلمان آج نبی آخرالزماں محسنِ انسانیت ،سرورِکائنات ،فخرِموجودات ، امام الانبیا حضرت محمدمصطفیٰ ؐ کایوم ولادت پورے مذہبی جوش وخروش سے منارہے ہیں، اس موقع پر پاکستان اور آزاد کشمیر ہی نہیں بلکہ دنیا کے کونے کونے میں جہاں بھی مسلمان بستے ہیں خصوصی اجتماعات کاانتظام کیاگیاہے، جہاں مقررین سرور کائنات،محسن انسانیت،خاتم النبیین حضرت محمدؐکی تعلیمات اوراس پر عمل کی ضرورت اور اہمیت پرروشنی ڈال رہے ہیںاورنبی آخرالزماں کی تعلیمات پر عمل کے فیوض وبرکات سے آگاہ کررہے ہیں۔
اس امر میں کوئی شبہ نہیں اور پوری دنیا اس حقیقت کو تسلیم کرتی ہے کہ نبی آخرالزماں محسنِ انسانیت ،سرورِکائنات ،فخرِموجودات،امام الانبیا حضرت محمدمصطفی ولادت باسعادت اور آپؐ کی بعثت تاریخِ عالم کا عظیم واقعہ اور ایک بے مثال انقلاب کا پیش خیمہ ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ آپ ؐ کی بعثت اور نبوت و رسالت امت پر اللہ تعالیٰ کا عظیم احسان ہے۔ارشاد ربانی ہے:’’اور ہم نے آپ ؐ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بناکر بھیجا‘‘رسول اللہ نے فرمایا،میں نبی تھا اور آدمؐ ابھی جسد اور روح میں تھے۔یعنی ان کی روح ان کے جسم میں داخل نہیں ہوئی تھی، اْس وقت بھی میں نبی تھا۔ حضورمخزن کائنات ہیں ۔ منشائے کائنات اور مقصود کائنات ہیں۔ایک حدیث میں آیا ہے۔اے پیارے حبیبؐ تو نہ ہوتا تومیں دنیا کو نہ بناتا۔ ایک حدیثِ قدسی میںفرمایا گیا:اے میرے نبی ، اگر تجھے پیدا کرنا مقصود نہ ہوتا میں آسمانوں کوبھی پیدانہ کرتا۔ نبی کریم ؐ کے اوّل ہونے کا مضمون قرآن اس طرح بیان کرتا ہے:اے حبیبؐ ہم نے آپؐ کو نہیں بھیجا، مگر سارے عالموں کے لیے رحمت بناکر۔پھر آپ ؐ سے ہی کہلوایا گیا کہ ’’تم فرمائو اللہ ہی کے فضل اور اْسی کی رحمت پر چاہیے کہ خوشی کریں ،وہ ان کے سب دھن دولت سے بہتر ہے‘‘۔
اللہ عزوجل کی عظیم ترین رحمت، فضل اور نعمت نبی کریم ؐ کی ذات مبارکہ ہے، کیوںکہ آپؐ کو مبعوث فرما کر خالق کائنات نے خود مومنین پر اس احسان عظیم کو جتایا ہے۔ سورہ والضحیٰ میں ہے ’’اور اپنے رب کی نعمت کا خوب چرچا کرو‘‘ آنحضرت ؐ کی ولادت باسعادت اللہ تعالیٰ کی عظیم ترین نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے۔ارشاد ربانی ہے:بے شک، رسول کریمؐکی پیروی بہتر ہے،اس کے لیے جو اللہ اورآخرت پریقین رکھتاہواور اللہ کوبہت یاد کرے، اس میں مسلمانوں کوہدایت ہے کہ اگر دین ودنیاکی کامیابی چاہتے ہوتو رسول اللہؐ کی زندگی کواپنی زندگی کے لیے نمونہ بنالواور ان کی پیروی کرو، ہرمسلمان کو حکم دیاگیا ہے ۔ مسلمانوں میں بعض بادشاہ ہوںگے، بعض حاکم، بعض مال دار، بعض غریب، بعض گھر والے، بعض تارک الدنیا اب ہر شخص چاہتا ہے کہ میری زندگی حضور علیہ السلام کی زندگی کے تابع ہو۔
ربیع الاول مقدس ماہ مبارک ہے، جس میںسیّد المرسلین احمد مجتبیٰ حضرت محمد مصطفیٰ ؐ اس دنیا میں جلوہ افروز ہوئے۔’’ ربیع الاول‘‘اسلامی تقویم اور ہجری سال کا تیسرا مہینہ ہے۔ دیگر اسلامی مہینوںکی طرح یہ مہینہ بھی نمایاں خصوصیات کا حامل ہے،اس ماہ میں دو ایسے واقعات اسلامی تاریخ کا حصہ بنے جو ہمیشہ کے لیے تاریخ عالم میں ثبت ہوگئے۔ان میںایک محسنِ انسانیت، خاتم الانبیاوالمرسلین حضرت محمد ؐ کی ولادت باسعادت کا واقعہ اور دوسرا آپؐ کا وصال ہے۔ آپؐ کی اس دنیا میں تشریف آوری تاریخ انسانیت کا سب سے عظیم اور سب سے مقدس واقعہ ہے۔نبی کریمؐ کا روئے زمین پر تشریف لانا ہی تخلیق کائنات کے مقصد کی تکمیل ہے۔یہ زمین و آسمان اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب ؐ کی خاطر ہی پیدا فرمائے۔
بعثت محمدیؐ کائنات کی سب سے عظیم نعمت ہے جو خالق کائنات نے اپنی مخلوقات پر فرمائی یعنی ہر نبی سے یہ عہد لیا گیا کہ اس کی زندگی میں باوجود ان کی نبوت کی موجودگی کے اگرآنے والے نبیؐ تشریف لے آئیں تو پھر کسی نبی کی نبوت نہیں چل سکتی،بلکہ اس نبی کو بھی سرور عالمؐ کی نبوت و رسالت پر ایمان لاتے ہوئے ان کی تائید و نصرت کرنا ہو گی۔جب انبیائے کرامؐ کے ساتھ یہ معاملہ ہے تو پھر ان کی امتوں کا کیا وصف ہونا چاہیے؟ظاہر ہے کہ ان کے لیے تو بدرجہ اولیٰ لازم ہے کہ وہ سرور کائنات علیہ الصلوٰۃ والتسلیم پر ایمان لائیں اور انبیاکے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کیے گئے عہد کی پاسداری کرتے ہوئے منشائے ربانی کے مطابق آقا ؐکی اطاعت و فرماںبرداری اختیار کریں،چوںکہ ہادی عالم ؐکی بعثت مبارکہ کے بعد تمام شریعتیں منسوخ ہوگئیں۔ قیامت تک کے لیے دستورِحیات،صرف اور صرف شریعت مصطفویؐ قرار پائی ہے۔جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’(اے محمدؐ) کہہ دیجیے کہ لوگو، میں تم سب (یعنی پوری انسانیت) کی طرف اللہ کا بھیجا ہوا ہوں (یعنی اس کا رسول ہوں) (وہ) جو آسمانوں اور زمین کا بادشاہ ہے،اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہی زندگانی بخشتا ہے اور وہی موت سے ہمکنار کرتا ہے،تو اللہ پر اور اس کے رسول نبی امیؐپر جو اللہ اور اس کے تمام کلام (یعنی تمام سابقہ کتب و صحائف) پر ایمان رکھتے ہیں، ایمان لائو اور ان کی پیروی کرو،تاکہ تم ہدایت پا جائو۔(سورۃ الا عراف)
یہ اللہ تعالیٰ کا انسانیت پر احسان عظیم ہے کہ رسول اکرم ؐ کو کسی خاص خطے، قوم یا زبان والوں کا نبی بنا کر نہیں،بلکہ آپؐ پوری انسانیت کے لیے پیغمبر رشد و ہدایت کے مقام عظمت و رفعت پر فائز کر کے مبعوث فرمائے گئے۔آپؐ کے اخلاق کریمہ کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:’’بے شک، آپ ؐ اخلاق کے بلند مقام پر فائز ہیں۔‘‘ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ حضورِ اقدس ؐ کی مبارک زندگی قرآن مجید کا عکس ہے۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ سے کسی نے نبی کریمؐ کے اخلاق کے بارے میں دریافت کیا تو آپ نے فرمایا:’’کیا تم نے قرآن مجید نہیں پڑھا؟ آپؐ کا اخلاق قرآن ہی تو ہے۔‘‘نبی اکرمؐ نے فرمایا: ’’میں حسن اخلاق کی تکمیل کے لیے مبعوث کیا گیا ہوں۔‘‘آپؐنے فرمایا:’’تم میں بہترین شخص وہ ہے جس کے اخلاق اچھے ہیں۔‘‘(بخاری و مسلم)
نبیؐ کی شفقت، محبت، ہمدردی، صبر و تحمل، برداشت، بردباری، حلیمی بھری خیرخواہانہ جدوجہد جو صعوبتوں اور مشکلات کے درمیان رہی، ان کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ انسان جن کی تاریخ مورخین نے انتہائی بھیانک لکھی تھی، اْن کی تاریخ نبیؐ کی 23 سالہ مسلسل جدوجہد کے نتیجے میںانتہائی تابناک بن گئی۔نبیؐ کی اس 23 سالہ مسلسل جدوجہد کے نتیجے میں دنیا کے اندر ایک عظیم انقلاب آیا جو لوگ دوسروں کے لہو کے پیاسے تھے، وہ آج دوسروں کے لیے اپنا خون بہانے پر تیار ہوگئے، جو اپنا وزن طاقتور کے پلڑے میں ڈال دیا کرتے تھے، آج اْن کا وزن پِسے ہوئے لوگوں کے حق میں استعمال ہونے لگا، جو دوسروں کے دانے چھین لیا کرتے تھے، آج خود ضرورت ہونے کے باوجود دوسروں کو ترجیح دینے لگے، اس انقلاب عظیم کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو نبیؐ کے پاس اس جدوجہد کے لیے نہ مالی وسائل تھے، نہ خاندانی پشت پناہی تھی،نہ افراد کی عددی کثرت تھی، تن تنہا آپؐ کی ذات تھی اورآپ نے اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی میں ان چیزوں کے حوالے سے کسی قسم کا شکوہ بھی نہیں فرمایا اوراپنے خیرخواہانہ جذبے اور اخلاق کریمہ کو مایوس ہوئے بغیر بروئے کار لاتے ہوئے ایک عظیم انقلاب برپا کردیا جس میں اشرافیہ کو بھی اور پسے ہوئے معاشرے کو بھی یکساں مواقع ملے، جس کے بعد اس شکوے اور اس عذر کی کوئی گنجائش ہی باقی نہیں رہی کہ اصلاح معاشرہ کا کام کرنے والے یوں کہیں کہ ہمارے پاس مالی وسائل نہیں ہیں یا کوئی یہ عذر پیش کرے کہ کثرت مال کی وجہ سے میں کامیابی حاصل نہیں کرسکا یا پسا ہوا معاشرہ یوں شکوہ کرے کہ مال کی قلت ہماری کامیابی میں رکاوٹ بنی۔یہ تو خالصتًا دل پر محنت تھی جسے اللہ تعالیٰ نے محنت کرنے والے کو بھی اور اشرافیہ کو بھی اور پسے ہوئے معاشرے کے ہر فرد کو بھی عطا فرما رکھا ہے اور اس دل کی محنت کے نتیجے میں جب دلوں کا فساد ختم ہوا تو جسم سے نکلنے والے اعمال بھی صالح بن گئے اور اس کے اثرات معاشرے میں بھی مثبت انداز سے ظاہر ہوئے۔ یوں پوری دنیا کی کایا ہی پلٹ گئی۔ یہ آپؐ کی فتح و کامیابی کا عظیم اور تاریخ ساز کارنامہ ہے۔
آج نبی آخرالزماں محسنِ انسانیت ،سرورِکائنات ،فخرِموجودات،امام الانبیا حضرت محمدمصطفیٰ ؐ کایوم ولادت مناتے ہوئے ہمارا فرض ہے کہ اپنے اقوال واعمال کاجائزہ لیں اور خود اپنا احتساب کرتے ہوئے اس بات کاجائزہ لیں کہ ہم اپنے پیارے نبی ؐ کے فرمودات اورہدایات پر کس حد تک عمل کررہے ہیں، یہی نہیں بلکہ ہمیں اس بات کابھی جائزہ لینا چاہئے کہ ہم خود کو نبی آخرالزماںؐ کاشیدائی کہنے میں کس حد تک درست ہیں اور ہم ان کے معیار پر کس حد تک پورے اترتے ہیں، خاص طورپر ہمارے ارباب اختیار کو سوچنا چاہئے کہ نبی آخرالزماں محسنِ انسانیت ؐنے حکمرانی کو جو معیار مقرر کیاہے اور حکمرانوں کو عوام پر حکمرانی کے لیے جن باتوں کی ہدایت فرمائی تھی وہ اس پر کس حد تک کاربند ہیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ اگر ہمارے حکمراں اور اعلیٰ افسران ایک لمحہ کے لیے بھی اس طرف توجہ دے دیں اور سنجیدگی سے اس بات پر غور کرلیں کہ کیا ان کے اقوال واعمال واقعی اس قابل ہیں کہ نبی آخرالزماںؐ کا شیدائی توکجا کیا مسلمان بھی کہاجاسکے تو اس ملک کانظام بڑی حد تک درست ہوجائے قومی خزانے کی لوٹ مار کے ذریعے آف شور کمپنیوں کے قیام کاسلسلہ رک جائے اور عوام کو درپیش بیشتر مسائل خود بخود حل ہوجائیں۔اے بسا آرزو کہ خاک شد۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں