میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
پاکستان کے خلاف ایٹمی اسلحہ کے استعمال میں پہل کرنے کی بھارتی دھمکی

پاکستان کے خلاف ایٹمی اسلحہ کے استعمال میں پہل کرنے کی بھارتی دھمکی

ویب ڈیسک
پیر, ۳ اپریل ۲۰۱۷

شیئر کریں

اطلاعات کے مطابق بھارتی رہنماﺅں نے ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال میں پہل نہ کرنے ‘نو فرسٹ یوز‘ (این ایف یو) کی پالیسی پر نظرثانی کرنے کا عندیہ ظاہر کیا ہے ۔بھارتی رہنماﺅں کے ان خیالات سے ان کے جارحانہ خیالات اور ارادوں کا پتہ چلتا ہے ۔
بھارتی رہنماﺅں کی جانب سے’نو فرسٹ یوز‘ (این ایف یو) کی پالیسی پر نظرثانی کے ممکنات پر اظہار خیال کرتے ہوئے عسکری ماہرین نے کہا ہے کہ اس طرح کے فیصلوں سے پاکستان کے بارے میں بھارتی پالیسی کے غیرمتوازن ہونے پر تشویش کو تقویت ملتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان کے نیوکلیئر منصوبے کے قریب رہنے والے جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کے سابق سربراہ جنرل ریٹائرڈ احسان الحق کا کہنا تھا کہ بھارت کی جانب سے این ایف یو کے دعوے کو پہلے بھی ہمیشہ مشکوک نظروں سے دیکھا گیا۔ان کا کہنا تھا کہ ایک اسکالر کے حالیہ انکشافات نے پاکستان کے مو¿قف کی تصدیق کی ہے کہ بھارت کی این ایف یو پر پالیسی شرمناک ہے، تاہم جنرل (ر) احسان الحق نے خوشی کا اظہار بھی کیا کہ اب بھارتی خود اپنے آپ کو بے نقاب کررہے ہیں۔
اسٹریٹجک ڈویژن کے سابق عہدیدار ڈاکٹرنعیم سالک کی کتاب ‘لرننگ ٹو لائیو ود دی بم، پاکستان: 1998-2016 کی تقریب رونمائی کے دوران خطاب میں جنرل ریٹائرڈ احسان الحق نے کئی امور پر کھل کر روشنی ڈالی ۔جنرل احسان الحق نے کہا کہ یہ اس لیے تشویش ناک ہے کیونکہ یہ سب بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ہندو توا کے ایجنڈے کے تحت ہورہا ہے۔خیال رہے کہ حال ہی میں میساچوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے پروفیسر ویپن نارنگ نے انکشاف کیا تھا کہ بھارت این ایف یو کی اپنی پالیسی سے پیچھے ہٹ سکتا ہے اورجب انہیں یقین ہو کہ پاکستان ان کے خلاف جوہری ہتھیار استعمال کرے گا، تو پھر ہوسکتا ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف جوہری حملے میں پہل بھی کرے۔پاکستان کے خلاف بھارت کے جارحانہ اور مذموم عزائم کبھی ڈھکے چھپے نہیں رہے،بھارت کی جانب سے اسلام آباد کے خلاف مشرقی پاکستان کے علاوہ بلوچستان اور گلگت بلتستان میں مداخلت، سارک اجلاس سے دستبرداری، کنٹرول لائن پر جارحیت، سرجیکل اسٹرائیک کے دعوے اور سفارتی سطح پر پاکستان کو تنہا کرنے سمیت جارحانہ اقدامات سامنے آئے، جس نے دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کو شدید کر دیا۔ انہوں نے اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ بھارت پاکستان کی جوہری طاقت کی اہلیت کو منفی انداز میں چیلنج کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے۔کتاب کے مصنف ڈاکٹرنعیم سالک نے اس موقع پر کہا کہ ہمیں اپنی طرف سے گیم کانہ صرف تجزیہ کرنا ہے، بلکہ دوسری جانب کیا ہورہا ہے اس پر بھی نظر رکھنی ہے، اسی طرح وہاں سے معلومات حاصل کر کے اپنی منصوبہ بندی میں اصلاحات بھی کرنا ہوں گی۔
بھارتی رہنماﺅں نے، پاکستان کے خلاف ایٹمی اسلحہ کے استعمال میں پہل نہ کرنے کی پالیسی پر نظر ثانی کرنے کا عندیہ ظاہر کرکے دراصل اپنے اندر موجود خوف کا اظہار کردیاہے، کیونکہ کنٹرول لائن کی خلاف ورزیوں ، اڑی حملے اور اس کے بعد کے واقعات میں بھارت کو یہ اچھی طرح اندازہ ہوگیاہے کہ پاک فوج ان کی ہر جارحیت کا فوری اور منہ توڑ جواب دینے کی صلاحیت رکھتی ہے اور اب پاک فوج کو غفلت میں دبوچ لینے کا اس کاخواب کبھی پورا نہیں ہوسکتا، بھارتی رہنماﺅں نے اسی مایوسی کے عالم میں ایٹمی اسلحہ کے استعمال کی دھمکی دے کر دراصل پاکستان کا ردعمل جاننے کی کوشش کی ہے ،اور وہ یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ بھارتی رہنماﺅں کی جانب سے اس آپشن کے استعمال کی دھمکی کا پاکستان پرکیااثر پڑ سکتاہے۔اس حوالے سے جنرل احسان الحق کا یہ کہنا اپنی جگہ درست ہے کہ بھارت کی جانب سے این ایف یو کے دعوے کو پہلے بھی ہمیشہ مشکوک نظروں سے دیکھا گیاہے اور بھارتی رہنماﺅں نے اس طرح کے بیانات نے ان کو مزید مشکوک بنادیا ہے ،تاہم جیسا کہ عسکری ماہرین نے کہا ہے کہ بھارت کی جانب سے اس طرح کے فیصلوں سے پاکستان کے بارے میں بھارتی پالیسی کے غیرمتوازن ہونے پر تشویش کو تقویت ملتی ہے۔
جہاں تک ‘پاکستان کاتعلق ہے تو پاکستان نے ہمیشہ اپنے قول وعمل سے یہ ثابت کیاہے کہ پاکستان پرامن ہمسائیگی پر یقین رکھتا ہے’، لیکن کنٹرول لائن پر بھارت کی جانب سے جنگ بندی کی خلاف ورزی کا بھرپور جواب دینا پاکستان کا حق بھی ہے اور پاکستان کی سالمیت اورخودمختاری کے دفاع کے لیے ضروری بھی، یہی وجہ ہے کہ پاکستان نے ہمیشہ بھارتی فوج کی اشتعال انگیزی کا اسی کی زبان میں جواب دینے کی کوشش کی ہے تاہم بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں 8 جولائی کو حزب المجاہدین کے کمانڈر برہانی وانی کی فورسز کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد سے جدوجہد آزادی کی جو نئی لہر اٹھی تھی اور جو اب تک جاری ہے، پاکستان اس مسئلے کا ایک اہم فریق ہونے کی حیثیت سے اس سے لاتعلق نہیں رہ سکتا اوریہ صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ مقبوضہ کشمیر میں جنگ آزادی میں تیزی نے پوری دنیا کو ایک مرتبہ پھر اس مسئلے کی طرف متوجہ کردیا ہے، بھارتی حکومت حسب عادت آزادی کی اس لہر کو بھی طاقت کے زور پر جبر کے ذریعے دبانے کی ہر ممکن کوشش کررہی ہے اور مقبوضہ کشمیر کے نہتے شہریوں پر ہر وہ ہتھیار استعمال کرنے کی کوشش کررہی ہے جو دنیا کی پسماندہ اقوام بھی کبھی اپنے عوام کے خلاف استعمال نہیں کرتیں، جس کا اندازہ بھارتی حکومت کے خلاف احتجاج اور آزادی کامطالبہ کرنے والے شہریوں پر پیلٹ گن یعنی چھرے والی گولیوں کااستعمال ہے ،جس کی وجہ سے اب تک مقبوضہ وادی کے سیکڑوں نوجوان بینائی سے محروم ہوچکے ہیں۔ بھارت کایہ شیوہ رہا ہے کہ وہ ملک میں ہونے والے کسی بھی واقعے کی ذمہ داری بلاتحقیق پاکستان کے سر ڈال کر اپنے عوام کو بیوقوف بنانے اور اقوام عالم کو یہ تاثر دینے کی کوشش کرتی ہے کہ پاکستان اس خطے کاامن تہہ وبالا کرنے کے درپے ہے اورسرحد پار سے بھارت کے خلاف کارروائیوں میں ملوث ہے یا بھارتی شہریوںکو حکومت کے خلاف اکسا رہاہے۔دیگر واقعات کی طرح بھارتی رہنما کشمیریوں کی جدوجہدِ آزادی اور اپنے ملک میں ہونے والے دہشت گردی کے اکثر واقعات کا الزام بھی پاکستان پر عاید کرتے ہیں جس کاواضح ثبوت اڑی میں بھارتی فوجی کیمپ پر حملے کا واقعہ ہے۔ بھارتی حکمرانوں نے اس واقعہ کی تفصیلات ملنے سے پہلے ہی اس کی ذمہ داری پاکستان پر ڈالنے کی کوشش کی اور اس حوالے سے کسی تحقیقاتی یاتجزیاتی رپورٹ کے سامنے آنے کا بھی انتظار نہیں کیا۔
بھارت کی جانب سے بار بار کنٹرول لائن کی خلاف ورزیاںاور بھارتی فوج کی اشتعال انگیز کارروائیاں اوراب پاکستان کے خلاف ایٹمی اسلحہ کے استعمال میں پہل کرنے پر غور کا اعلان پوری عالمی برادری خاص طورپر امن پسند عالمی رائے عامہ کے لیے لمحہ¿ فکریہ کی حیثیت رکھتی ہیں عالمی برادری کو بھارت کی ان اشتعال انگیزکارروائیوں کا سنجیدگی سے نوٹس لینا چاہیے اوربھارتی رہنماﺅں کو زیادہ سنجیدہ رویہ اختیار کرنے اورمقبوضہ کشمیر کے عوام کے حقوق انسانی کی خلاف ورزیاں بند کرنے پر مجبور کرنا چاہیے۔جب تک عالمی برادری اس حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے پر توجہ نہیں دے گی اور اپنے فرائض سے پہلو تہی کا موجودہ رویہ برقرار رکھے گی تو یہ خطہ جوالا مکھی بنارہے گا جو کسی بھی وقت پوری دنیا کے امن کو ملیامیٹ کرنے کا سبب بن جائے گا۔امید کی جاتی ہے کہ عالمی برادری خاص طورپر امن وسلامتی اور حقوق انسانی کے احترام کا درس دینے والے ممالک اس حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے پر توجہ دیں گے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں