میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
معیشت کو درپیش آٹھ بڑے خطرات، بحرانوں میں مزید اضافے کے خدشات

معیشت کو درپیش آٹھ بڑے خطرات، بحرانوں میں مزید اضافے کے خدشات

جرات ڈیسک
هفته, ۲۴ فروری ۲۰۲۴

شیئر کریں

وزارت خزانہ نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں پاکستان کی معیشت کو درپیش 8 بڑے خطرات کی نشاندہی کی ہے،جس میں میکرو اکنامک عدم توازن،بڑھتے ہوئے قرضے،سرکاری اداروں کے خسارے، ماحولیاتی تنزلی،پبلک پرائیوٹ شراکت داری کو لاحق خطرات، صوبائی مالیاتی نظم وضبط اور گورننس کے مسائل شامل ہیں۔وزارت خزانہ کی جانب سے جاری کردہ رواں سال کے حوالے سے مالیاتی رسک کی رپورٹ میں کہاگیاہے کہ حالیہ برسوں کے دوران افراط ِزر میں اتار چڑھاؤاور روپے کی قدر میں نمایاں کمی ہوئی ہے۔جبکہ مہنگائی میں اضافے کی بڑی وجہ توانائی کی قیمتوں میں اضافہ ہے۔قرضوں پر سود کی ادائیگی مالی خسارے میں کمی کی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
وزارت خزانہ کی اس رپورٹ سے ملک کو درپیش مالیاتی مشکلات کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتاہے،اس میں کوئی شک نہیں کہ حالیہ برسوں  کے دوران، پاکستان کو شدید چیلنجز کا سامنا رہا ہے، جس نے قوم کی برداشت کا امتحان لیا ہے۔ سیاسی منظر نامہ انتشار کا شکار رہا ہے، جس سے مختلف شعبوں میں عدم استحکام کی لہریں پیدا ہوئی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی، اقتصادی میدان بدحالی کا شکار ہے، جو پہلے سے ہی پیچیدہ صورتحال کو بڑھا رہا ہے۔ آسمان کو چھوتی مہنگائی کے ساتھ، پاکستان کو درپیش معاشی مشکلات کثیر جہتی ہیں۔ نتیجتاً معاشی مشکلات کا، اثر شدید طور پر محسوس کیا گیا ہے، جس سے آبادی کی قوت خرید کم ہو رہی ہے اور گھریلو بجٹ دباؤ کا شکارہے۔ ملکی کرنسی کی قدر میں کمی سے معاشی تناؤ مزید بڑھ گیا ہے، جس نے پہلے سے ہی کمزور معیشت کی مشکلات میں اضافہ کر دیا ہے۔آمدنی کی کم پیداوار اور بڑھتے ہوئے اخراجات کے درمیان عدم توازن شہریوں اور کاروباری اداروں میں ٹیکس جمع کرنے میں یکساں طور پر ہچکچاہٹ کا باعث بنا ہے۔ یہ ہچکچاہٹ موجودہ ٹیکس کے فرق کو مزید وسیع کرتی ہے، جس سے حکومت کی محصولات وصولی کی کوششوں میں نمایاں کمی واقع ہوتی ہے۔ آمدنی اور اخراجات کے درمیان یہ فرق ایک پیچیدہ چیلنج ہے، یہی وہ صورت حال ہے جس کو دیکھتے ہوئے بین الاقوامی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی فچ نے پاکستان کے غیر یقینی سیاسی حالات کو ملک کے آئی ایم ایف پروگرام کے لیے خطرہ قرار دے دیا ہے۔ فچ نے پاکستانی معیشت سے متعلق رپورٹ جاری کی ہے اور لکھا ہے کہ غیر یقینی سیاسی صورت حال قرض پروگرام میں پیچیدگی کا باعث بن سکتی ہے۔ موجودہ پروگرام مارچ میں ختم ہورہا ہے۔ رپورٹ کے جو مندرجات سامنے آئے ہیں ان میں معیشت کا تو کوئی خاص جائزہ نہیں تھا البتہ یہ ضرور ہے کہ پاکستان کی نئی حکومت آئی کو ایم ایف سے فوری رابطہ کرناہوگا اور یہ کہ نئی حکومت کو امدادی اداروں سے فوری طور پر امداد کی ضرورت ہوگی۔ آئی ایم ایف کا نیا پروگرام پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ بہتر کرسکتا ہے۔  لیکن آئی ایم ایف سے ایک نیا پروگرام حاصل کرنا پاکستان کی حکومت کے لیے بڑا چیلنج ہوگا۔ البتہ جو بات صراحت سے کہی گئی ہے اس کے بارے میں سوال کیا جاسکتا ہے کہ کیا فچ جیسے ادارے کو ایسی باتوں پر تبصرہ کرنے کا حق ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انتخابات میں تحریک انصاف کے امیدواروں نے مضبوط کارکردگی پیش کی۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی مخلوط حکومت بنانے میں مصروف ہیں اور غیر یقینی صورت حال قرض پروگرام میں طوالت کا سبب بن سکتی ہے۔ اور غیر ملکی اداروں سے اور ملکوں سے فنڈنگ میں تاخیر سے اصلاحات کا عمل متاثر ہوگا۔ البتہ ایک جملہ ہے کہ پاکستان کی بیرونی مالی حالت میں بہتری آئی ہے۔ تاہم رپورٹ میں اس کی وضاحت نظر نہیں آئی کہ کیا بہتری آئی ہے۔ فچ کی رپورٹ میں یہ بات بھی شامل ہے کہ پاکستان میں معاشی اصلاحات پر مضبوط اتفاق رائے نئے معاہدے کے نفاذ کو کامیاب بنا سکتا ہے۔ فچ کی رپورٹ کے علاوہ عالمی بینک نے بھی پاکستان میں مہنگائی کے حوالے سے اہم رپورٹ دی ہے۔ عالمی بینک کے مطابق بینک نے پاکستان کے پالیسی سازوں کو متوجہ کیا ہے کہ وہ اجناس اور دیگر اشیا کی قیمتوں کے بارے میں تضادات کو دور کریں۔ دنیا بھر میں اجناس سستی اور پاکستان میں کیوں مہنگی ہیں۔ بینک نے یہ نکتہ بھی اُٹھایا ہے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ عالمی مارکیٹ میں اشیا سستی ہونے کا فائدہ صارفین کو نہیں پہنچایا جاتا جبکہ مہنگی ہونے پر فوراً صارفین پر بوجھ منتقل کردیا جاتا ہے۔ بینک کا خیال ہے کہ حکومت قیمتوں میں کمی کا فائدہ صارفین کو منتقل کرانا چاہتی ہے لیکن مفاد پرست حلقے ایسا نہیں کرنے دے رہے ہیں اور حکومت ایسے بطبقے کے سامنے خود کو بے بس محسوس کرتی ہے ایسی حکومت پاکستانی عوام نے دیکھی نہیں جوانھیں حقیقی معنوں میں سہولتیں فراہم کرسکے،یہ صورت حال کسی  ایک حکومت سے نہیں ہے بلکہ پاکستان میں برسہا برس سے ایک خاص طبقہ ایسے تمام مقامات پر قابض ہے جہاں سے اجناس کی قیمتوں حتیٰ کہ ان کی دستیابی کو بھی کنٹرول کیا جاتا ہے۔ چنانچہ پاکستان میں پیٹرول مافیا، شوگر مافیا اور گندم مافیا الگ الگ اور ایک دوسرے کے ساتھ اتحاد اور باہمی تعاون کے ساتھ کام کرتی ہیں۔ کسی ایک کے خلاف بھی کبھی کوئی موثر کارروائی نہیں ہوتی۔ آج کل پاکستان ایک عارضی صورت حال سے گزر رہا ہے۔ نگراں حکومت آخری دن گن رہی ہے۔ اور نئی حکومت بننے کے مراحل سے گزر رہی ہے۔ اسے فچ نے غیر یقینی سیاسی صورت حال کہا ہے جبکہ عالمی بینک نے بھی عالمی منڈی میں اجناس کی قیمتوں اور پاکستان میں مہنگائی کا موازنہ کرنے کے لیے بھی یہی وقت منتخب کیا ہے یہ بات قابل غور ہے حالانکہ جب دنیا بھر میں تیل کی قیمت فی بیرل ۳۸ ڈالر پہنچ گئی تھی اور پاکستان میں تیل پھر بھی مہنگا فروخت ہورہا تھا تو عالمی بینک نے اس جانب اس طرح توجہ نہیں دلائی تھی۔ تاہم اب چونکہ حکومت سازی کا عمل ہے اور ایک خلا کی کیفیت ہے تو اس قسم کی رپورٹس کا مقصد ملک کی آنے والی حکومت کو پہلے سے دباؤ میں لانا بھی ہوسکتا ہے تا کہ نئی حکومت عالمی اداروں سے قرض کے حصول کے لیے جلد بازی کا مظاہرہ کرے اور سخت شرائط منظور کر لے۔ پاکستان کی 96 فیصد آبادی کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ سستی اور معیاری خوراک کے حصول کی متحمل نہیں ہے۔ یہ بات بالکل درست ہے بلکہ اس سے زیادہ صورت حال خراب ہے کیونکہ مہنگائی، بیروزگاری اور اشیا کی عدم دستیابی کا معاملہ اس سے بھی زیادہ بے قابو ہے۔  تاہم عالمی بینک اور فچ یہ رپورٹس اگر نئی حکومت بننے کے بعد اس کے حوالے کرتے اور ان کے سامنے مسائل کے حل کی تجاویز رکھتے تو زیادہ بہتر ہوتا۔ اس وقت فچ نے جس غیر یقینی سیاسی صورت حال کا ذکر کیا ہے پاکستان اس سے زیادہ غیر یقینی صورت حال کا شکار رہاہے۔ حکومت سازی نہ بھی ہورہی ہو اور ایک مضبوط حکومت موجود نہ ہو تو بھی پاکستان میں غیر یقینی سیاسی صورت حال رہتی ہے۔ سیاسی صورت حال پر تبصرے میں پی ٹی آئی کی غیر معمولی کارکردگی کا ذکر بھی سوالات پیدا کررہا ہے۔ حکومت سازی کے لیے جتنے دن درکار ہوتے ہیں ابھی تو اتنے دن بھی مکمل نہیں ہوئے البتہ دھاندلی کے الزامات کے حوالے سے بات واضح نہیں ہے کہ حکمران طبقہ کیا رویہ اختیار کرے گا۔ آیا وہ بڑے پیمانے پر دھاندلیوں کو تسلیم کرکے حق بہ حقدار رسید کرے گا یا چند حلقوں میں دوبارہ پولنگ کرائی جائے گی۔ لیکن ان سب باتوں کے باوجود دونوں اداروں کو یا تو ذرا پہلے یہ باتیں کرنی چاہئیں تھیں یا چند روز رُک کر نئی حکومت کے سامنے صورت حال رکھنی چاہیے تھی۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ملک میں جاری بے یقینی کی موجودہ صورت حال سے ملک کی مالیاتی صحت متاثر ہو رہی ہے اور یہ صورت حال پائیدار ترقی کے اقدامات میں رکاوٹ ہے۔ان کثیر جہتی چیلنجوں کے پیش نظر، پاکستان ایک نازک موڑ پر کھڑا ہے، جس کا مقابلہ کرنے کے لیے معاشی استحکام کی بحالی، محصولات کے سلسلے کو تقویت دینے اور مضبوط مالیاتی پالیسیوں کے قیام کے لیے مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے۔ یہ اقدامات ملک کی اقتصادی بنیادوں کو مضبوط کرنے اور اس کے شہریوں کے لیے پائیدار ترقی اور خوشحالی کی راہیں متعین کرنے میں اہم ہیں۔ان پیچیدہ چیلنجوں کا مقابلہ ایک ایسی مضبوط اور مستحکم حکومت ہی کرسکتی ہے جسے عوام کے ہر طبقہ خیال کے لوگوں کی حمایت اور پشت پناہی حاصل ہو،اب دیکھنا یہ ہے کہ منقسم مینڈیٹ کے سبب بننے والی مخلوط حکومت کوئی مضبوط اور قابل عمل معاشی اور اقتصادی پالیسی لانے میں کامیاب ہوسکے گی۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں