میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
سندھ کے ”مہاجروں“ کا مستق

سندھ کے ”مہاجروں“ کا مستق

منتظم
اتوار, ۲۳ اکتوبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

do-tok-new

مختار عاقل
فلک کج رفتار نے کب یہ منظر دیکھا تھا کہ کراچی پر 32 سال تک راج کرنے والی سیاسی جماعت متحدہ قومی موومنٹ یوں بکھر جائے گی۔ آہنی نظم و ضبط کی نسبت سے مشہور پارٹی کے سرکردہ رہنما آپس میں ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالیں گے‘ ٹانگیں کھینچیں گے‘ ایک دوسرے کے ”کارنامے“ بیان کریں گے۔ ایم کیو ایم کے بطن سے جنم لینے والی نوزائیدہ جماعت پاک سر زمین پارٹی کے سربراہ مصطفےٰ کمال نے اپنے دیرینہ ساتھی اور 14 سال سے مسلسل گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد کو ”رشوت العباد“ کہا‘ زمینوں پر قبضوں اور چائنا کٹنگ میں ملوث قرار دیا اور گورنر ہاﺅس کو کرپشن کا گڑھ کہہ کر ان کے ایم کیو ایم بانی الطاف حسین سے بدستور رابطوں کی تصدیق کی تو گورنر عشرت نے جواباً مصطفےٰ کمال کو مغلظات سے نوازتے ہوئے کہا کہ کمال انتہائی گھٹیا‘ کم ظرف اور نفسیاتی ہے۔ اس کا کردار اس کے محلے والوں سے پوچھیں۔ گورنر نے ساتھ ہی ایم کیو ایم کے ایک سابق چیئرمین مقتول عظیم احمد طارق اور معروف طبیب مقتول حکیم محمد سعید کے قتل کیس دوبارہ کھولنے اور سانحہ 12 مئی اور بلدیہ ٹاﺅن کے ذمہ داروں کو چوراہوں پر لٹکانے کا اعلان کردیا۔ انہوں نے یہ انکشاف بھی کیا کہ ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو کے قریب مدفون خطرناک ہتھیار فوج اور رینجرز سے لڑائی کے لیے خریدے گئے تھے۔ اتفاقاً اسی روز اورنگی ٹاﺅن سے بھی زیر زمین دفن مہلک ہتھیار برآمد کیے گئے ہیں۔ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ گورنر عشرت اور مصطفےٰ کمال ایک ہی صفحہ پر ہیں اور ان کی لڑائی ”نورا کشتی“ ہے۔ اس طرح ایم کیو ایم کے حوالے سے بہت سی باتیں منظر عام پر آرہی ہیں جو عام طور پر ایک سربستہ راز تھیں اور سامنے نہیں آرہی تھیں‘ اب اس پارٹی کے دو مرکزی رہنما خوب ”انکشافات“ کررہے ہیں۔ مثال کے طور پر عظےم احمد طارق قتل کیس اچانک یاد کیا گیا ہے۔ اسی طرح حکیم محمد سعید قتل کیس کو بھی برسوں گزرچکے ہیں‘ پھر گورنر سندھ کو اچانک یہ مقدمات کیوں یاد آگئے ہیں۔ ان دونوں مقدمات میں ایم کیو ایم کا نام آتا ہے۔ اس کے کئی کارکنوں کے نام ان میں شامل رہے ہیں۔ کئی دھائی بعد ان کا اچانک تذکرہ بے سبب نہیں ہوسکتا۔ شنید ہے کہ کراچی کا مینڈیٹ ایم کیو ایم سے لے کر دوبارہ وفاقی پارٹیوں کو عطا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ایم کیو ایم کا قیام 1986 ءمیں عمل میں آیا تو جنرل ضیاءالحق کی حکومت کا سورج سوانیزے پر چمک رہا تھا۔ یہ بھی کہا گیا کہ ایم کیو ایم کی تشکیل اسٹیبلشمنٹ کی حکمت عملی کا نتیجہ تھی۔ کراچی لسانی اور نسلی بنیادوں پر تقسیم ہوگیا، حکومت کے خلاف کوئی تحریک چلانے کے قابل نہیں رہا اور جنرل ضیاءالحق کی حکمرانی کے 11 سال کسی بڑی مزاحمت کے بغیر آرام سے کٹ گئے۔ 17 اگست 1988 ءکو بستی لال کمال پر جنرل ضیاءالحق کا طیارہ حادثے میں تباہ نہ ہوتا تو ضیائی اقتدار مزید کرشمے دکھاتا۔ اس کے بعد جنرل مرزا اسلم بیگ آرمی چیف بنے۔ ان کا تعلق ”مہاجر برادری“ سے تھا۔ پھر اکتوبر 1999 ءمیں جنرل پرویز مشرف برسراقتدار آئے، ان کا تعلق بھی ”مہاجر برادری“ سے ہے۔ اس طرح ایم کیو ایم کو وقفے وقفے سے اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل رہی۔ سابق صدر پاکستان جنرل پرویز مشرف نے بڑی چھان پھٹک کے بعد 27 دسمبر 2007 ءکو ڈاکٹر عشرت العباد کو سندھ کے گورنر کی سیٹ پر بٹھایا اور کلہ اتنی مضبوطی سے گاڑا کہ ڈاکٹر عشرت آج بھی سندھ کے گورنر ہیں وہ ہمیشہ پرویز مشرف کی ”گڈبک“ میں رہے۔ کراچی کے ترقیاتی کاموں کے لیے ٹرائیکا میں شامل تینوں شخصیات پرویز مشرف‘ عشرت العباد اور مصطفےٰ کمال نے اہم کردار ادا کیا۔ پاکستان کی صدارت سے ہٹائے جانے کے بعد پرویز مشرف نے آل پاکستان مسلم لیگ کے نام سے اپنی جماعت بنالی جسے زیادہ پذیرائی نہیں مل سکی ہے۔ بعض مہاجر اکابرین کا خیال ہے کہ پرویز مشرف ایم کیو ایم کے گروپوں کویکجا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان کا قد کاٹھ ایک قومی لیڈر کا ہے۔ پاک فوج کے سربراہ بھی رہے ہیں۔ انہیں اسٹیبلشمنٹ کی حمایت بھی حاصل ہے۔ اس مشکل وقت میں وہ تسبیح کے دانوں کو ایک لڑی میں پرو سکتے ہیں لیکن انہوں نے اکابرین کی بات کو یہ کہہ کر مسترد کردیا ہے کہ ایم کیو ایم بہت بدنام ہوچکی ہے، وہ اس کی قیادت نہیں کریں گے۔ ایم کیو ایم سے باہر ڈاکٹر سلیم حیدر کی جماعت مہاجر اتحاد تحریک اور مہاجر قوم پرست دانشور سہیل ہاشمی کے تشکیل کردہ مہاجر قومی جرگے کے علاوہ آفاق احمد کی پارٹی مہاجر قومی موومنٹ المعروف” حقیقی“ بھی میدان میں ہیں اور ”مہاجروں“ کو بند گلی سے نکالنے کی کوشش کررہی ہیں لیکن عام ”مہاجر“ گومگو کی کیفیت میں ہے۔ پنجابی زبان کا یہ مصرعہ صادق آتا ہے ۔
میں کہڑے پاسے جاواں۔ تے منجی کتھے ڈاہواں
ایک دن خبر نشر ہوئی کہ گورنر عشرت العباد کو پیپلز پارٹی میں شمولیت کی دعوت دی گئی ہے لیکن دوسرے ہی دن وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ نے اس کی تردید کردی۔ اس صورتحال میں ”مہاجر“ سیاسی تنہائی کا شکار ہوتے جارہے ہیں۔ فیصلہ کن گھڑی آپڑی ہے۔ کراچی سے اکابرین کا ایک وفد دبئی جاکر پرویز مشرف سے ملاقات کامنصوبہ بنا رہا ہے تاکہ پرویز مشرف کو ”مہاجروں“ کی قیادت پر آمادہ کیا جاسکے۔ ”مہاجر قومی کونسل“ کے نام سے نیا پلیٹ فارم بنانے کا ارادہ سامنے آیا ہے جس میں سارے گروپوں کی نمائندگی ہو۔ ایم کیو ایم لندن سے بھی رابطہ کیا جائے اور سارے گروپ پرویز مشرف کی سربراہی میں یکجا ہوجائیں۔ گو کہ اس کے آثار بہت کم نظر آتے ہیں، ہر گروپ اپنے اندر ایک انجن ہے۔ سب کی بین اور اپنی بانسری ہے، اپنا پروگرام اور اپنا منشور ہے۔ پرویز مشرف تو بہت دور ہیں‘ یہ آپس میں ہی دست و گریباں ہیں۔ مصطفےٰ کمال نے گورنر عشرت العباد کی گرفتاری کا مطالبہ کیا ہے جنہوں نے الطاف حسین کو اپنا محسن قرار دیا ہے۔ حروں کے روحانی پیشوا اور پیر پگارا ثانی مرحوم نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ ”مہاجروں“ نے کبھی عقلمندی کی بات نہیں کی۔ 1947 ءمیں پاکستان قائم ہوا تو آگ اور خون کے دریا عبور کرکے ”مہاجر“ پاکستان آگئے۔ زیادہ تر اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے لہٰذا سول سروس میں شامل ہوگئے‘ قائم خانی اور دیگر مارشل نسل کے لوگ فوج کا حصہ بن گئے۔ پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما اور سابق گورنر سندھ بیرسٹر کمال اظفر کے سسر ایس ایس جعفری پہلے ڈپٹی کمشنر لاہور اور پھر ایوبی دور میں وفاقی سیکریٹری رہے۔ کہا جاتا ہے کہ بیورو کریسی کا 85 فیصد حصہ بھارت سے ہجرت کرنے والے مہاجر افسروں پر مشتمل تھا۔ بعد کے حکمرانوں نے انہیں ملازمت سے فارغ کرنا شروع کیا۔ 1959 ءمیں وفاقی دارالحکومت کراچی سے اسلام آباد منتقل ہوا تو متعدد مہاجر افسروں نے کراچی چھوڑنا قبول نہیں کیا اور کراچی کے کوارٹرز میں رہائش کو ترجیح دی۔ 1968 ءمیں صدر یحییٰ خان نے ون یونٹ توڑ کر کراچی کی وفاقی حیثیت بحال کرنے کی تجویز دی تو مہاجر اکابرین نے انکار کردیا اور سندھ صوبہ میں شامل رہنے کو ترجیح دی۔ اس وقت سائیں جی ایم سید اور میر منور تالپور جیسے سیاستدان کراچی کو وفاقی علاقہ قرار دینے کے لیے رضا مند تھے جس کا اعلان جولائی 1948 ءمیں خود بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے کیا تھا۔ آج کے مہاجر اکابرین اور لیڈر شپ اسے اپنے بزرگوں کی غلطی قرار دیتے ہیں۔ سیاست میں سمجھداری کا عنصر شامل ہو تو ہندوﺅں کی مخالفت کے باوجود پاکستان وجود میں آجاتا ہے۔ اگر حماقت حاوی ہو تو اسی پاکستان کا 1971 ءمیں جغرافیہ تبدیل ہوجاتا ہے۔ سندھ میں کروڑوں کی آبادی ہونے کے باوجود آج کراچی کا ”مہاجر میئر“ جیل میں بند ہے اور سندھ اسمبلی میں 50 سیٹیں ہونے کے باوجود بھی سندھ حکومت میں نمائندگی نہیں ہے۔ سندھ کے ”مہاجر“ اس وقت فیصلہ کن موڑ پر کھڑے ہیں اورآئندہ کسی بے وقوفی کی گنجائش نہیں ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں