میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
کربلا ،کشمیر اور عالم اسلام

کربلا ،کشمیر اور عالم اسلام

منتظم
پیر, ۲۴ اکتوبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

الطاف حسین ندوی

امام الانبیاءجناب محمد عربی ﷺ کی اپنی اولاد میں صرف بیٹیاں ہی زندہ رہیں بیٹے حضرت ابراہیم ؓکا بچپن میں ہی انتقال ہوگیا۔ بیٹیوں میں سب سے پیاری سیدةالنساءحضرت فاطمةالزھرارضی اللہ عنہا تھیں ۔ان کا نکاح آپﷺ نے حضرت علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ سے کیا۔ان کی اولاد میں حضرت حسن وحضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہما سب سے مشہورہوئے ۔پیغمبر اسلام سے ذاتی و خصوصی تعلق اور اسلام کے لیے بے انتہا قر بانیوں کی وجہ سے اہل اسلام میں انھیں جو قدر ومنزلت حاصل ہے وہ محتاجِ بیان نہیںہے ۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات حضرات حسنین رضی اللہ عنہما اور ان کے والدین کے ساتھ اس تعلقِ ِخصوصی اور نسبت کو خود ہی بیان فرماتے ہیں ۔ آ پ ﷺ کا ارشاد مبارک ہے جس نے علی ؓکو برا کہا اس نے در حقیقت مجھے برا کہا۔ (مسنداحمدؒ)
حضرت اُم سلمہ ؓکہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا علیؓ سے منافق محبت نہیں رکھتا اورمومن علیؓسے بغض اور دشمنی نہیں رکھتا ہے ۔(ترمذیؒ ومسند احمدؒ)
اسی طرح آپ نے حضرت فاطمہ ؓکے بارے میں ارشاد فرمایا جس کا مفہوم ہے کہ فاطمہؓ میرے جگر کا ٹکڑا ہے جس نے فاطمہؓ کو خفا کیا اس نے مجھے ناراض کیا ۔(بخاری ؒومسلمؒ)
ایک اور روایت میں ہے جو چیز فاطمہ ؓکو بُری معلوم ہوتی ہے وہ چیز مجھے بھی بُری معلوم ہوتی ہے اور جو چیز فاطمہؓ کو دکھ دیتی ہے وہ مجھے بھی دُکھ دیتی ہے۔(بخاری،مسلم)
حضرت ابن عمیر ؒ(تابعی)کہتے ہیں کہ ایک روز میں اپنی پھوپھی کے ساتھ حضرت عائشہ ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے پوچھا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے زیادہ محبت کس سے تھی ؟حضرت عائشہ ؓ نے جواب دیا فاطمہؓ سے ،پھر میں نے پوچھا اور مردوں میں سب سے زیادہ محبت کس سے تھی؟ تو آپ ؓ نے فرمایا ان کے شوہر کے ساتھ ”یعنی حضرت علی ؓکے ساتھ۔“(ترمذیؒ)
اسی طرح آپ کے کئی ارشادات حضرات حسنین ؓ کے مرتبے اور مقام اور آپ سے گہرے تعلق کو ظاہر کرتے ہیں آپ کا ارشاد ہے حضرت برائؓ کہتے ہیں کہ میں نے (ایک دن )نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس حال میں دیکھا کہ حسنؓ ابن علیؓآپ کے کاندھے پر سوار تھے اور آپ فرما رہے تھے اے اللہ میں اس سے محبت رکھتا ہوں تو بھی اس سے محبت رکھ۔ (بخاریؒو مسلمؒ)
حضرت عبداللہ ابن عمر ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا یہ دونوں (حسن ؓو حسین ؓ ) میری دنیا کے دو پھول ہیں ۔(بخاری)
حضرت زید بن ارقم ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرات علیؓ ؓ،فاطمہؓ،حسنؓاور حسینؓکے حق میں فرمایا ”جو کوئی ان سے لڑے گا میں اس سے لڑوں گا اور جو کوئی ان سے مصالحت رکھے میں اس سے صلح رکھوں گا (ترمذیؒ)۔
حضرت امام حسن ؓ اور حضرت حسین ؓ کے بچپن میں ان کی تربیت خود رسول اللہ ﷺ نے فرمائی، اس سے بڑھ کر خوش قسمتی اور خوش نصیبی اور کیا ہو سکتی ہے۔ ایام طفولیت میں ان کی پرورش رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دختر اختر حضرت فاطمہ ؓ نے کی اور جب یہ لڑکپن کی عمر کو پہنچے تو دین کی تعلیم اپنی والدہ محترمہ اور بحرالعلوم حضرت علی ؓ سے حاصل کی۔ اسلام کا سورج اسی گھر سے طلوع ہوا تھا ۔آخری نبی نے اپنی نبوت کا اعلان مکہ میں کیا مگر مدینہ طیبہ میں اس کی تکمیل کا اعلان فرمایا۔ ان مقدس نبوی تعلیمات کے شاہد اول جناب علی المرتضی رضی اللہ عنہ ہر مرحلے اور ہر مقام پر آپ کے ساتھ تھے ۔سخاوت وشجاعت میں حسنؓ و حسین ؓ اسد اللہ الجبار سے کچھ بھی مختلف نہیں تھے۔اخلاق و کردار میں آپؓ دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پرتو معلوم ہوتے تھے ۔آپ کے انتقال کے وقت آپ ؓبچے ہی تھے۔ اس کے بعد دور صدیقؓشروع ہوا، اسی میں ان کا لڑکپن ختم ہوا، دور عمرؓ میں آپ دونوں جوان ہوئے اور دور عثمانؓ میں ان کا زیادہ تر وقت تعلیم وتعلم اور جہاد فی سبیل اللہ میں گزراحتیٰ کہ خلافت کی باگ دوڑحضرت علی المرتضیٰ ؓ نے سنبھالی ۔اپنے والد محترم کی خلافت کی عظیم ذمہ داریاں سنبھالنے سے قبل آپ دونوں کے علمی اور جہادی معمولات میں کوئی کمی نہیں آئی بلکہ ان میں اضافہ ہوتاگیا۔
حضرت علی المرتضیٰ ؓ کے بعد خلافت کی ذمہ داری ان کے بڑے بیٹے حضرت حسن ؓکے سپرد کردی گئی مگر حالات کی خرابی اور آپسی انتشار سے بچنے کی خاطر وہ اپنے منصب سے سبکدوش ہوگئے۔ امیر معاویہؓاب کئی سال تک حکمران رہے ،جب یزیدابن معاویہ کی خلافت کے لیے میدان ہموار کیا جانے لگا اور بعض صحابہؓ نے اس سے نا پسند کیا۔کیوں کہ جس وقت یزید کی حکمرانی کی تیاریاں اپنے عروج پر تھیں اس وقت اہل بیت اور دوسرے کئی نامی گرامی صحابہؓکی اولاد جو علم و عمل اور دیانت و تقویٰ میںیزید سے بہت آگے اور فائق تھے، کو نظر انداز کر کے ایک ایسے شخص کو خلافت کی نازک ذمہ داریاںسپرد کرنا جو اپنے معاصرین کے مقابلے میں کمتر تھا ہر طرح سے نقصان دہ ثابت ہوا ۔اُمت کی اکثریت اس سے خوش نہیں تھی اور اندر ہی اندر یزید کی حکمرانی کے خلاف ایک لاوا پک رہا تھا اور نفرت بڑھتی جارہی تھی۔اہل عراق نے اسی دور میں امام حسینؓ ؓسے درخواست کی کہ ہم سب آپ کے ساتھ ہیں اور آپ کی تشریف آوری کے لیے بہت بے تاب ہیں۔اس وقت جو صحابہؓ زندہ تھے اُنھوں نے امام عالی مقام کو عراقیوں کی غداریوں کی پوری تاریخ یاددلائی اور عراق جانے سے سختی کے ساتھ منع کر دیا ۔مگر اللہ تعالیٰ کا ارادہ ہی کچھ اور تھا ۔ائمہ اسلام ،مفسرین، محدثین اور فقہا نے اس پر اسلامی اصولوں کی روشنی میں بلا جھجک اور بے لاگ انداز میں بات کی کہ آیا امام عالی مقام کا اقدام درست تھا کہ یزید کی حکومت جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کے مطابق خلافت کے برعکس ملوکیت کی جیتی جاگتی تصویر تھی؟ حضرت حسن ؒکے زمانہ خلافت کے ساتھ ہی اسلامی خلافت کا خاتمہ ہو چکا تھا ۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کوئی نظام یک دم سے ختم نہیں ہوتا ہے اور نہ ہی کسی نظام میں بہ یک جنبش خرابیاں پیدا ہوتی ہیں ۔صحابہ کبار ؓکی لاکھ کوششوں کے باوجود بھی ملوکیت نے اپنا سر اُبھارا اور قائم ہو گئی۔ یہ در حقیقت مسلمانوں کے لیے ایک آزمائش تھی اور ایک امتحان تھا ،مسلمان آج تک اس امتحان میں مبتلا ہیں ۔آج بھی مسلمانوں کی درجنوں حکومتیں تو ہیں مگر اسلامی حکومت ایک بھی جگہ قائم نہیں ہے۔اللہ تعالی نے امت مسلمہ کو زمین کی خلافت کا تاج عطا کیا تھا اب یہ اس کی ذمہ داری تھی کہ وہ اس خلافت کے نظریے کو کتابوں کے بجائے زمین پر نافذ کر کے دنیا کے سامنے اس کی حقیقی تصویر پیش کر تے مگر ایسا نہ ہو سکا ۔انھوں نے اس کے اسباب پر غور و فکر کے بعد خرابیوں کی اصلاح کے بجائے ”تقدیر الٰہی“ کو اس کی وجہ قرار دیکر اپنے کرنے کے کام سے اپنے دامن کو ہی چھڑا لیا ۔صحابہ کرام ؓنے اپنے جان و مال کی بے مثال قربانی سے اسلام کے مقدس نظام کو قائم کردیا ،اب یہ بعد والوں کی ذمہ داری تھی کہ وہ اس نظام کی حفاطت کرتے ہم نے حفاظت تو در کنار اسلام کی ایسی صورت پیش کی ہے جو بہت کچھ تو ہو سکتا ہے مگر اسلام نہیں!!!
معرکہ کر بلا میں دونوں طرف لڑنے والے مسلمان تھے، یزیدی فوج کو اپنی مسلمانی پر تو ناز تھا ہی البتہ یہ انتہائی حیرت انگیز بات تھی کہ جس گھرانے نے سارے عالم کو اسلام کے نور سے منور کردیا تھا انھیں نعوذباللہ باغی اور طاغی قرار دیا گیا۔کربلا کے ریگستانوں میں امام حسین ؓکے ساتھ جو لوگ ہم رکاب تھے انھیں دنیا کی کسی بھی زبان میں فوج نہیں کہا جا سکتا ۔وہ بے سروسامان لوگ حضرت امام کا اہل وعیال تھا۔ بے سروسامان نبی کا یہ خانوادہ قوم مسلم کی تباہی اور گمراہی کو کس طرح برداشت کر سکتا تھا؟ یہ خاندان سر کی آنکھوں سے اُمت کی خلافت پر نا اہل لوگوں کے تسلط سے پھیلتی گمراہی پر بے تاب ہو رہا تھا اور ان کے لیے اب سر کی بازی لگائے بغیر کوئی چارہ ہی نہ تھا۔مسلمانوں ہی کے کہنے پر وہ لوگ انھیں ایک ظالم اور عیاش حکمران سے نجات دلانے کی نیت سے عراق کی جانب روانہ ہوئے تھے کہ ابن زیاد نے انھیں کربلا کے ریگ زاروں میں ہزاروں کی فوج لیکر روک دیا اور ان کے سامنے واحد شرط یہ رکھی کہ آپ لوگ ابن زیاد کے ہاتھ پر بیعت کرلیں حالانکہ اس سے قبل امام مسلمؒ کو بھی انہی لوگوں نے بڑی بے رحمی کے ساتھ قتل کردیا تھا ۔حضرت امام ؓ نے تین شرطیں رکھیں ایک یہ کہ مجھے کسی کافر قوم کی سرحد کی جانب نکل جانے دیا جائے جہاں میں جہاد کرتے ہوئے فتح حاصل کرسکوں یا شہید ہو جاو¿ں،نمبر دو مجھے مدینہ واپس جانے دیا جائے ،نمبر تین یا مجھے یزید کے پاس لیے چلو ۔ابن زیاد نے ان میں سے کوئی بھی بات نہیں مانی اور امام ؓکے سامنے ایک ہی شرط رکھی کہ ہر صورت میں ابن زیاد کے ہا تھ پر بیعت کیجیے یا جنگ کے لیے تیار ہو جائےں ۔امام عالی مقام ؓ نے جنگ قبول کرتے ہوئے ناقابل فراموش تاریخ رقم فرمائی ۔
آج کل بعض لوگوں نے حادثہ کربلا کے حوالے سے ایک نئی بحث یہ چھیڑ رکھی ہے کہ آیا امام حسین ؓ کا اقدام شرعی نقطہ نگا ہ سے درست تھا کہ غلط ؟یزید پر لعنت بھیجنا جائز ہے کہ ناجائز؟یزید ”نیک شخص تھا کیونکہ اس نے جنگ قسطنطنیہ میں شرکت کی تھی “، اسکے نام کے ساتھ رحمة اللہ علیہ لکھنا جائز ہے کہ نہیں؟ حالانکہ احادیث میں ”غزوہ قسطنطنیہ“ کے برعکس ”جنگِ قیصرِ روم “کے الفاظ استعمال ہو ئے ہیں ،گزشتہ کئی سال سے اس پر بڑی زور دار لمبی بحثیں چل رہی ہیں اور حیرت انگیز طور پر بعض لوگ جنہیں تاریخ اسلام کی ہوا بھی نہیں لگی ہے آج کل سوشل نیٹ ورک پر اس پر مغز ماری کرتے ہو ئے نظر آتے ہیں ۔مجھے ذاتی طور پر ان بحثوں سے زیادہ دلچسپی نہیں ہے ،مجھے اس بات سے دلچسپی ہے کہ نبی علیہ السلام کے خانوادے کے چشم وچراغ اور نبی کی سب سے پیاری فاطمہ ؓبنت محمد کے لعل اور علی المرتضیٰؓکے لخت جگر جنا ب امام عالی مقام ؓکیا اسلام کی ان باریکیوں سے بے خبر ہو سکتے تھے جن میں پڑ کر ہمارے بعض علما ءاور دانشور حضرات یہ نازک فیصلہ کرنے بیٹھ جاتے ہیں کہ امامؓکا اقدام شرعی تھا کہ غیر شرعی ؟پوچھا جا سکتا ہے کہ خیرالقرون کے ان عظیم بزرگوں کے اقدامات پر ہم جو بحث چھیڑنے جاتے ہیں کیا اس سے ا سلام کو کوئی فائدہ پہنچ رہا ہے کہ نہیں ؟یا یہ کہ اس سے ہمارے ان بزرگوں کی ساکھ متاثر ہو جاتی ہے اور دین سے ناواقف مسلمانوں میں بد ظنی پیدا ہو جاتی ہے ۔ ہماری یہ عادت بنی ہے کہ ہم بسا اوقات ایک غیر ضروری بحث شروع کر کے اس سے اس انداز سے شروع کرتے ہیں کہ پھر ہماری واپسی ناممکن ہو جاتی ہے ۔ اس میں دو رائے نہیں کہ اس مسئلے پر مو¿رخین اور فقہا کے بیچ سخت اختلاف رہا ہے مگر جناب امام عالی مقام ؓکے زمانے میں جو صحابہ ؓزندہ تھے ان میں سے کسی بھی صحابی نے امام کے اس اقدام کو غیر شرعی قرار نہیں دیا تھا اور نہ ہی تابعین عظام میں کسی ایک کا قول ان کے اس اقدام کے خلاف ہی ملتا ہے ۔پھر کیا وجہ ہے کہ اسلام کی تاریخ اور اسلامی عقائدسے ناواقف حضرات جان بوجھ کر ایک نئی بحث شرو ع کرتے ہیں !کیا یہ دیدہ ودانستہ امت کے شیرازے کو بکھیرنے کی کوشش نہیں ہے؟ اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ اُمت کو اسی پرانے ڈگر پر چلانے کی احمقانہ کوششیں ہیں جن پر چل کر آج تک نہ سُنی شیعہ بنے اور نہ ہی شیعہ سُنی ہوئے ؟؟؟البتہ یہ تو ہوا کہ ہماری بیوقوفیوں کے نتیجے میں غیر ہم پر مسلط ہوگئے جن کے نزدیک شیعہ سُنی کوئی فرق نہیں ہے ،انھیں خون مسلم کی پیاس ہے اور ہم سب ان کے نزدیک فلسطین سے لیکر کشمیر تک مسلمان ہیں اور ان کی مغربی لغت میں ہر کلمہ گو مسلمان واجب القتل ہے چاہے وہ شیعہ ہو کہ سُنی!!!!!امام عالی مقام رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک ظالم قوت کے سامنے سرنڈر کے بجائے ڈٹ گئے یہاں تک کہ یہ بات واضح ہو گئی کہ اصل میں ظالم کے سامنے سرنڈر نہیں بلکہ ڈٹ جانے کا نام حیات ابدی ہے ،بقول ڈاکٹر علامہ اقبال
حقیقتِ ابدی ہے مقام شبیری
بدلتے رہتے ہیں انداز کوفی و شامی
آج کے عالم اسلام پر نظر ڈالی جائے تو ہمارا کردار خانوادہ نبوی ﷺ کے ساتھ مماثلت تو ناممکن و در کنار البتہ کوفی اور شامیوںسے مماثل نظر آتا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ارض الانبیاءفلسطین اور بیت المقدس، عراق، افغانستان ،چیچنیا ، فلپائن اور کشمیر کی سرزمینوں پر قبضہ کرنے والوں نے ان علاقوں میں قبضہ کرتے وقت جس جبروتشدد اور حیوانیت کا مظاہراہ کیا اُس میں انھوں نے شیعہ سُنی کی تفریق روا رکھی ؟کیا کبھی اُنھوں نے کسی کو اس لیے قتل کردیا کہ وہ سُنی تھا ؟اور کسی کو اسلیے چھوڑدیا کہ وہ شیعہ ہے؟کشمیر میں ہمارا تجربہ ہے کہ یہاں ہر ایک کو”یہ دیکھے بغیر کہ اس کا مسلک کیا ہے اور اس کی تنظیم کیا ہے “ایک ہی چھڑی سے ہانکا جا تا ہے؟اور گولی کو یہ تمیز نہیں ہوتی ہے کہ کون کیا ہے؟ ہاں گولی چلانے والے کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہوتی ہے کہ اپنا کون ہے اور غیر کون۔ کشمیریوں کے قتل عام میں توحیرت انگیز طور پرغیر مسلموں تک کو قتل کردیا گیا جن کا جرم صرف یہ تھا کہ وہ کشمیری تھے اور کشمیر میں ہی ٹکے ہوئے تھے۔ جن ظالموں نے فلسطین سے لیکر کشمیر تک ظلم و جبر کی تمام حدیں توڑ دیں ہیں ان کے نزدیک ہم سب مسلمان ہیں اور ہمارا یہ جرم ان کے نزدیک ناقابل برداشت اور ناقابل معافی ہے ۔لہٰذاہمیں ایک نئی بحث شروع کرنے سے پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ اس سے اہل اسلام کو کیا فائدہ اور شروع نہ کرنے سے ہماراکون سا نقصان ہے ؟یا یہ کہ اس سے فائدہ تو دور کی بات نقصان ہی نقصان ہے ۔جو مسائل نہ کل ہمارے اسلاف سے حل ہو سکے اور نہ ہی ہم سے حل ہونے کا کوئی امکان موجود ہے تو ان مسائل کو نئے سرے سے جنم دیکر ہم کیا کرنا چاہتے ہیں سوائے اسکے کہ ہم اپنی قوت غلط راستوں میں کھپا کر اس سے ضائع کردیں ۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں