اسلام میں مشاورت کے بنیادی تقاضے
شیئر کریں
بعض امور میں خواتین سے بھی مشورہ کیا جا سکتا ہے، نبی نے بھی بعض مواقع پر اپنی ازدواج سے کئی امور پر مشورہ اور تبادلہ خیال کیا ہے
جس معاملے کا فیصلہ اﷲ اور اس کے رسول نے کر دیا ہو، اس میں مشاورت کے ذریعے ترمیم یا اس کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا
حافظ نعیم راشد
اَم±رُھُم± شُو±رٰی بَی±نَھُم± کاقاعدہ خود اپنی نوعیت اور فطرت کے لحاظ سے پانچ باتوں کا خیال رکھتا ہے۔
(1) اول یہ کہ اجتماعی معاملات جن لوگوں کے حقوق اور مفاد سے تعلق رکھتے ہیں انہیں اظہار ِ رائے کی پوری آزادی حاصل ہو اور انہیں اس بات سے پوری طرح با خبر رکھا جائے کہ اُن کے معاملات فی الواقع کس طرح چلائے جا رہے ہیں، اور انہیں اس امر کا بھی پورا حق حاصل ہو کہ اگر وہ اپنے معاملات کو چلانے والے مختار افراد یا ان کے سربراہ میں کوئی غلطی یا خامی یا کوتاہی دیکھیں تو اس پر روک ٹوک یا احتجاج کر سکیں اور اصلاح ہو تی نہ دیکھیں تو ان افراد کو بدل سکیں۔ لوگوں کی زبان پر پابندی لگا کر ان کو بے خبر رکھ کر انکے اجتماعی معاملات چلانا صریح بد دیانتی ہے جسے کوئی شخص بھی اَم±رُھُم± شُور±یٰ بَی±نَھُم± کے اصول کی پیروی نہیں مان سکتا۔
(2) دوم یہ کہ اجتماعی معاملات کو چلانے کی ذمہ داری جس شخص پر بھی ڈالنی ہو اسے لوگوں کی رضا مندی سے مقرر کیا جائے ‘ اور ان کی یہ رضا مندی آزادانہ ہو۔ جبر اور تخویف سے حاصل کی ہوئی یا تحریص اور لالچ سے خریدی ہوئی‘ یا دھوکے اور فریب اور مکاریوں سے حاصل کی ہوئی رضا مندی درحقیقت رضا مندی نہیں ہے۔ ایک قوم کا صحیح سربراہ وہ نہیں ہو تا جو ہر ممکن طریقہ سے زور زبردستی سے اسکا سربراہ بنے‘ بلکہ وہ ہو تا ہے جس کو لوگ اپنی خوشی اور پسند سے اپنا سربراہ بنائیں۔
(3) سربراہ کار کو مشورہ دینے کے لیے بھی وہ لوگ مقرر کیے جائیں جنھیں قوم کا اعتماد حاصل ہو، جبکہ ایسے لوگ کبھی صحیح معنوں میں حقیقی اعتماد کے حامل قرار نہیں دیے جا سکتے جو دباﺅ ڈال کر یا لالچ دیکر یا جھوٹ اور مکر سے کام لے کر یا غلط بیانی کرکے نمائندگی کا مقام حاصل کریں۔
(4) مشورہ دینے والے اپنے علم اور ایمان و ضمیر کے مطابق رائے دیں اور اس طرح کے اظہار رائے کی انہیں پوری آزادی حاصل ہو۔ یہ بات جہاں نہ ہو، جہاں مشورہ دینے والے کسی لالچ یا خوف کی بنا پر یا کسی جتھہ بندی میں کسے ہوئے ہونے کی وجہ سے خود اپنے علم اور ضمیر کے خلاف رائے دیں وہاں در حقیقت معاملات میں خیانت اور عوام سے غداری ہو گی نہ کہ اَم±رُھُم± شُور±یٰ بَی±نَھُم± کی پیروی۔
(5) پنجم یہ کہ جو مشورہ اہل شوریٰ کے اجماع ( اتفاق رائے) سے دیا جائے ‘ یا جسے اُن کے جمہور ( اکثریت) کی تائید حاصل ہو ‘ اسے تسلیم کیا جائے کیونکہ اگر ایک شخص یا ایک ٹولہ سب کی سننے کے بعد اپنی من مانی کرنے کا مختار ہو تو مشاورت بالکل بے معنی ہوجاتی ہے ۔ اﷲ یہ نہیں فرما رہا ہے کہ ” انکے معاملات میں اُن سے مشورہ لیا جا تا ہے “ بلکہ یہ فرما رہا ہے کہ ”انکے معاملات آپس کے مشورے سے چلتے ہیں“ اس ارشاد کی تعمیل محض مشورہ لے لینے سے نہیں ہوجاتی بلکہ اسکے لیے ضروری ہے کہ مشاورت میں اجماع یا اکثریت کے ساتھ جو بات طے ہو اسی کے مطابق معاملات چلیں اسے با مقصد مشاورت کہا جا تا ہے۔
اسلام کے اصولِ شوریٰ کی اس توضیح کے ساتھ یہ بنیادی بات بھی نگاہ میں رہنی چاہیے کہ یہ شوریٰ مسلمانوں کے معاملات کو چلانے میں مطلق العنان اور مختار کل نہیں ہے بلکہ لازماً اس دین کے حدود سے محدود ہے جو اﷲ نے خود اپنی تشریع سے مقرر فرمایا ہے اور اس اصل الا صول کی پابندی کی ہے کہ ” تمہارے درمیان جس معاملہ میں بھی اختلاف ہو اسکا فیصلہ کرنا اﷲ کا کام ہے“ اور ” تمہارے درمیان جو نزاع بھی ہو اس میں اﷲ اور رسول کی طرف رجوع کرو۔“ اس قاعدہ کلیہ کے لحاظ سے مسلمان شرعی معاملات میں اس امر پر تو مشورہ کر سکتے ہیں کہ کسی نص کا صحیح مفہوم کیا ہے اور اُس پر عملدر آمد کس طریقے سے کیا جائے تاکہ اُس کا منشا ٹھیک طور سے پورا ہو یا دنیاوی تکنیکی امور ہوں۔اسی معاملے میں فرمایا گیا کہ ”انتم اعلم بدنیاکم“( تم لوگ اپنے دنیاوی امور بہتر جانتے ہو) لیکن اس غرض سے کوئی مشورہ نہیں کر سکتے کہ جس معاملہ کا فیصلہ اﷲ اور اس کے رسول نے کر دیا ہو اس میں مشاورت کے ذریعے ترمیم یا اس کو تبدیل کر کے کوئی اور فیصلہ یا حکم نافذ کردیں یہ نہیں ہوسکتا۔
رسول ﷺ اور مشورہ کی اہمیت:
قرآن مجید کی عملی تفسیر آپ ﷺ کی حیات طیبہ ہے۔ اور آپ ﷺ کی عملی زندگی کی تصویر ہمیں احادیث میں نظر آتی ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ آپ ﷺ نے وشا ورھم فی الامر۔پر کس طرح عمل کیا اور ہمارے سامنے مشاورت کی کیا صورت یا نمونہ پیش کیا ہے اور مشورے کی اہمیت کس طرح اجاگر کی ہے ،چند احادیث ملاحظہ فرمائیں۔
(1) ” اَل±مُشَاوَرَةُ حِص±نُ‘ مِّنَ النَّد±مِ وَاَماَنُ‘ مِّنَ ال±مَلاَمَةِ“
”مشورہ کرنا ندامت سے محفوظ رہنے کا ایک قلعہ ہے اور دوسروں کی ملامت سے بچنے کی ایک امان گاہ ہے۔“
(2) مَاخَابَ مَنِ اس±تَخَارَ وَلَا نَدِمَ مَنِ اس±تَشَارَ
” وہ آدمی ناکام نہیں ہوا جس نے استخارہ کیا اور اس شخص کو شرمندگی نہیں اٹھانی پڑی جس نے مشورہ سے کام لیا۔“
(3) اِس±تَعِی±نُو± عَلٰی اُمُو±رِکُم± بال±مُشَاوَرَةِ
” اپنے کاموں میں باہمی مشورہ سے مدد حاصل کرو۔“
(4) جب تم میں سے کوئی اپنے بھائی سے مشورہ لے تو اسے چاہیے کہ بھلی بات کا مشورہ دے۔ (ابن ماجہ)
آنحضور ﷺ کی عملی زندگی میں مشورے کی بہت سی مثالیں ملتی ہیں۔ آپ ﷺ نے بیشتر کاموں میں مشورہ کیا ہے خواہ وہ گھریلو حالات ہوں یا جنگی معاملات آپ زندگی کے داخلی و خارجی امور میں ضرور مشورہ کرتے رہے۔
٭ حضور ﷺ کی عادت مبارکہ تھی کہ لوگوں کو معاملات میں شریک کرنے کے لیے اجتماعی کاموں میں ان سے مشورہ کیا کر تے تھے جیسے کہ بدر والے دن قافلے کی طرف بڑھنے کے لیے ان سے مشورہ لیا اور صحابہ ؓ نے کہا اگر آپ ہمیں سمندر کے کنارے پر کھڑا کر کے فرمائیں گے کہ اس میں کود پڑو اور اس پار نکلو تو بھی ہم سر تابی نہیں کریں گے اور اگر آپ ہمیں برک الغماد تک لے جانا چاہیں تو بھی ہم آپ کے ساتھ ہیں ،ہم وہ نہیں کہ موسیٰ ؑ کے صحابیوں کی طرح کہہ دیں کہ تو اور تیرا رب لڑلے ،ہم تو یہاں بیٹھے ہیں بلکہ ہم تو آپ کے دائیں بائیں صفیں باندھ کر جم کر دشمنوں کا مقابلہ کریں گے۔
٭ اسی طرح آپ نے اس بات کا بھی مشورہ لیا ہے کہ پڑاﺅ کہاں ہو اور مندبن عمرو ؓ نے مشورہ دیا کہ ان لوگوں سے آگے بڑھ کر انکے سامنے ہو (بخاری شریف)
٭ احد کے موقع پر بھی آپ نے مشورہ کیا کہ آیا مدینہ میں رہ کر لڑیں یا باہر نکلیں ؟ اور جمہور کی رائے یہی ہوئی کہ باہر میدان میں جاکر لڑنا چاہیے۔ چنانچہ آپ ﷺ نے یہی کیا۔
٭ جنگ احزاب کے موقع پر بھی اپنے اصحاب سے مشورہ کیا کہ مدینہ کے پھلوں کی پیداوار کا تہائی حصہ دینے کا وعدہ کر کے مخالفین سے مصالحت کر لی جائے تو حضرت سعد بن عبادةاور حضرت سعد بن معاذ رضی اﷲ عنہما نے اس کا انکار کیا تو آپ ﷺ نے انکے مشورہ کو قبول کر لیا اور مصالحت ترک کر دی۔
٭ آ پ ﷺ نے حدیبیہ والے دن بھی اس امر کا مشورہ کیا کہ آیا مشرکین کے گھروں پر دھاوا بول دیں تو حضرت ابو بکر ؓ نے عرض کیا کہ اﷲ کے رسول ﷺ ہم لڑنے کی نیت سے نہیں آئے ،ہمارا ارادہ صرف عمر ے کا ہے چنانچہ اسے آپ نے منظور فرما لیا۔
٭ مسند احمد میں ہے رسول نے بزرگوں سے فرمایا کہ اگر آپ دونوں کی کسی امر میں ایک رائے ہوجائے تو میں اسکی مخالفت نہیں کروں گا۔
حضور سے سوال ہو تا ہے کہ عزم کے کیا معنی ہیں؟ تو آپ نے فرمایا جب عقل مند لوگوں سے مشورہ ہوجائے تو پھر انکی مان لینا۔ ابن ماجہ میں آپ ﷺ کا یہ فرمان بھی ہے کہ جس سے مشورہ کیا جائے وہ امین ہے۔ (ابو داﺅد ، ترمذی نسائی) (یعنی مشورہ ایک امانت ہے دیانت داری سے دینا چاہیے )
عورت سے مشورہ:
سورة البقرہ سے واضح اشارہ ملتا ہے کہ بعض امور میں خواتین سے بھی مشورہ کیا جا سکتا ہے۔ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے بھی بعض مواقع پر اپنی ازدواج سے کئی امور پر مشورہ اور تبادلہ خیال کیا ہے۔
اس سلسلہ میں یہاں آپ ﷺ کی اہلیہ ام سلمہ کا ایک واقعہ نقل کیا جا تا ہے جو اس معاملے کی وضاحت کے لیے ایک اچھی مثال ہے۔
نبی ﷺ نے مدنی دور میں جب قریش مکہ سے وہ معاہدہ کیا جو معاہدہ حدیبیہ کے نام مشہور ہے تو صحابہ میں سخت بے چینی پھیل گئی۔ کیونکہ یہ معاہدہ بظاہر کفار کی شرائط پر کیا گیا تھا اور اس میں کئی باتیں صریح طور پر مخالفین کے حق میں نظر آتی تھیں۔ چنانچہ صحابہ میں کچھ اضطراب پایا جا تا تھا۔ معاہدہ کی تکمیل کے بعد آپ نے لوگوں کو بتایا کہ اب ہمیں مکہ نہیں جانا ہے بلکہ حدیبیہ سے ہی مدینہ واپس جانا ہے اس لیے قربانی کے جانور جو تم اپنے ساتھ لائے ہو انکو یہیں ذبح کردو اور سر منڈالو۔ مگر کوئی بھی شخص اسکے لیے نہ اٹھا۔ آپ نے تین بار اپنے حکم کو دہرایا پھر بھی تمام لوگ خاموش رہے اور کوئی اپنی جگہ سے نہ اٹھا (صحابہ کا خیال تھا کہ چونکہ آپ ﷺ نے خود یہ عمل نہیں کیا ہے شاید بہتر ہے کہ نہ کیا جائے۔ آپ ﷺ ہماری آسانی کے لیے فرما رہے ہیں اس لیے کسی نے عمل نہ کیا)
پیغمبر اسلام وہاں سے لوٹ کر اپنے خیمہ میں گئے جہاں آپ کی اہلیہ ام سلمہ ؓ موجود تھیں۔ انہوں نے آپ کو متفکر دیکھ کر اس کا سبب پوچھا۔ آپ نے فرمایا کہ آج وہ ہوا جو اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ میں نے مسلمانوں کو حکم دیا مگر ان میں سے کوئی بھی میرے حکم کی تعمیل کے لیے نہیں اُٹھا۔ ام سلمہ نے کہا: اے اﷲ کے رسول، اگر آپ کی رائے یہی ہے تو آپ میدان میں جائیں اور کسی سے کچھ کہے بغیر اپنی قربانی کا جانور ذبح کردیں اور اپنا سر منڈوا لیں۔ اس طرح لوگ جان لیں گے کہ رسول ﷺ جو فرما رہے ہیں اس پر خود بھی عمل کر رہے ہیں لہٰذا بہتر اور ثواب کا عمل یہی ہے۔
آپ خیمہ سے باہر نکلے اور کسی سے کچھ کہے بغیر اپناجانور قربان کیا اور نائی کو بلا کر بال مبارک کٹوائے۔ اس کے بعد ہر ایک نے اٹھ کر اپنی اپنی قربانی کے جانور ذبح کیے اور اپنا سرمنڈایا۔ اگر چہ ان کے رنج و غم کا حال یہ تھا کہ راوی کہتے ہیں کہ جب وہ ایک دوسرے کے سر مونڈنے لگے تو ایسا معلوم ہو تا تھا کہ وہ ایک دوسرے کا سر کاٹ ڈالیں گے۔ صحیح البخاری، کتاب الشروط ( رقم الحدیث ۱۳۷۲، ۲۳۷۲) مذکورہ واقعہ کوئی سادہ واقعہ نہیں ہے۔ وہ دراصل اسی چیز کی ایک کامیاب مثال ہے جس کو ہم نے مرد اور عورت کے درمیان انٹیلکچول ایکسچینج (Intellectual Exchange) کا نام دیا ہے۔ یقینا رسولﷺ اور زوجہ رسول کے درمیان اس موقع پر ایک مکمل گفتگو ہوئی ہو گی۔ اس کے بعد وہ صورت پیش آئی جس کا حدیث و سیرت کی کتابوں میں ذکر ہوا ہے۔ اس قسم کا حل ہمیشہ اس وقت سامنے آتا ہے جب کہ دو آدمی باہم گفتگو اور تبادلہ خیال کریں۔ اس طرح کا حل کبھی خلا میں پیدا نہیں ہو تا۔ وہ ہمیشہ دو طرفہ گفتگو کا نتیجہ ہو تا ہے۔
پیغمبر اسلام کی اہلیہ ام سلمہ نے جو بات کہی وہ بے حد اہم تھی اس میں یہ حکمت تھی کہ پیغمبر خود جب اپنا اونٹ نحر(قربان) کر دیں گے اور اپنا سرحلق کروالیں گے تو اسکے دیکھنے کے بعد وہاں کے موجود مسلمان یہ سمجھ لیں گے کہ آپ ﷺ نے صرف ہماری آسانی کے لیے نہیں بلکہ شرعی حکم کے طور پر جانور ذبح کرنے کا کہا تھا اور اب ہم لوگوں کو عمرہ کے لیے مکہ کا سفر نہیں کرنا ہے بلکہ حدیبیہ ہی سے واپس مدینہ جانا ہے جب یہ بات عملاً لوگوں پر کھل جائے گی تو اس کے بعد لوگوں کے لیے اسکے سوا کوئی چارہ نہ رہے گا کہ وہ حدیبیہ میں اپنی قربانی کا جانور ذبح کریں اور بال کٹوا لیں۔ چنانچہ یہی ہوا کہ جب پیغمبر اسلام نے اپنا قربانی کا جانور ذبح کردیا تو دوسروں نے بھی اپنے جانور ذبح کر کے حلق کروالیا۔
محترمہ ام سلمہ ؓ میں یہ حکیمانہ فکر کیسے پیدا ہوئی؟ یقینا وہ پیغمبر کے ساتھ گفتگو اور تبادلہ خیال کے ذریعہ حاصل ہوئی۔ اس اعتبار سے گویا ام سلمہ صرف زوجہ رسول نہ تھیں بلکہ وہ مدرسہ نبوت کی ایک طالبہ تھیں اور رسولﷺ نے ہی عورتوں کو اس قابل کیا کہ وہ اہم معاملات میں سربراہ مملکت کو مشورہ دے سکیں ورنہ اسلام سے قبل کے مذاہب میں تو عورتوں کو انسان تک تسلیم نہیں کیا جا تا تھا۔