میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
دُنیا کی بے ثباتی اور آخرت کا غم

دُنیا کی بے ثباتی اور آخرت کا غم

ویب ڈیسک
جمعه, ۱۹ مئی ۲۰۱۷

شیئر کریں

مفتی محمد وقاص رفیع
دُنیا کی زندگی چاہے کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہوجائے بہرحال ایک نہ ایک دن ختم ہوجانے والی ہے ، اور اس کا مال و متاع چاہے کتنا ہی زیادہ سے زیادہ کیوں نہ ہوجائے بہرحال ایک نہ ایک دن چھوٹنے والا ہے ، موت سے چھوٹ جائے چاہے یا ضائع ہونے سے چھوٹ جائے ، لیکن اسے چھوٹنا لازمی ہے ۔ اور آخرت کی زندگی دُنیا کی زندگی سے کہیں زیادہ بہتر اورہمیشہ رہنے والی اورکبھی نہ ختم ہونے والی ہے ۔ چنانچہ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ”ترجمہ: اور آخرت کی زندگی بہترین اور (ہمیشہ)باقی رہنے والی ہے۔ (سورة الاعلیٰ) بلا شبہ آخرت کی زندگی کی نعمتیں ، اُس کی جوانی ، اُس کے مزے ، اُس کی خوب صورتی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اُس کی زندگی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہے ۔
اِس کے برعکس دُنیا کی زندگی، اُس کی نعمتیں ، اُس کی جوانی، اُس کی خوب صورتی اور اُس کے مزے صرف ایک محدود اور معین مدت تک کے لیے ہیں اور پھر انہیں یکسر ختم ہوجانا ہے ۔ پس خوش نصیب اور عقل مند ہے وہ شخص جو اپنی زندگی کے ہر موڑ پر آخرت کی لازوال اور بے مثال زندگی کودنیاکی زندگی پر ہمیشہ ترجیح دیتا رہے اور اِس دارِ فانی کی تعمیر و تزئین کے بجائے دارِ بقاءکی تعمیر و تزئین کی فکر میں ہردم لگا رہے۔
چنانچہ حدیث شریف میں آتا ہے ،رسول اللہ کا پاک ارشاد ہے کہ: ” جو شخص دُنیا سے محبت رکھتا ہے وہ اپنی آخرت کو نقصان پہنچاتا ہے اور جو شخص اپنی آخرت سے محبت رکھتا ہے وہ ( بظاہر صورت نہ کہ حقیقتاً) اپنی دُنیا کو نقصان پہنچاتا ہے ( پس جب یہ ضابطہ ہے تو ) جو چیز ہمیشہ رہنے والی (یعنی آخرت) ہے اُس کو ترجیح دو اُس چیز (دُنیا) پر جو بہرحال فنا ہونے والی ہے۔“( رواہ احمد و البیہقی فی شعب الایمان کذا فی المشکوٰة)
حضرت زید بن ثابتؓ فرماتے ہیں کہ : ”ہم لوگ ایک مرتبہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی خدمت میں حاضر تھے ، آپ ؓنے کچھ پینے کو مانگا تو شہد کا شربت خدمت میں پیش کیا گیا ، اِس کو منہ کے قریب فرماکر حضرت ابوبکر صدیق ؓ رونے لگے اور اتنا روئے کہ پاس بیٹھنے والے بھی اِس سے متاثر ہوکر رونے لگے اور خوب روئے ، اس کے بعد پھر دوبارہ اُس کومنہ کے قریب کیا اور پھر رونے لگے ، اس کے بعد اپنی آنکھوں کے آنسو پونچھے اور ارشاد فرمایا کہ : ”میں ایک مرتبہ حضور کی خدمت میں حاضر تھا ، میں نے دیکھا کہ حضور اپنے دونوں ہاتھوں سے کسی چیز کو دفع فرمارہے ہیں اور کوئی چیز حضور کے سامنے مجھے نظر نہ آئی ، تو میں نے حضور سے دریافت کیا کہ :” حضور! کس چیز کو آپ اپنے سے ہٹا رہے ہیں؟۔“ حضور نے فرمایا کہ : ”دُنیا میرے سامنے حاضر ہوئی تھی ،میں نے اُس کو اپنے سے ہٹایا ، اِس کے بعد پھر وہ دوبارہ میرے پاس آئی اور آکر مجھ سے کہنے لگی کہ اگر آپ مجھ سے بچ گئے تو (کچھ قلق اور افسوس کی بات نہیں ، اس لیے کہ ) آپ کے بعد آپ کی آنے والی امت مجھ سے ہرگز نہیں بچ سکتی ۔“ (فضائل صدقات)
ایک حدیث میں حضور اقدس کا ارشاد وارد ہوا ہے کہ : ”دُنیا اُس شخص کا گھر ہے جس کا ( آخرت میں کوئی ) گھر نہیں، اور دُنیا اُس شخص کا مال ہے جس کا (آخرت میں کوئی) مال نہیں، اور دُنیا کے لیے وہ شخص مال جمع کرتا ہے جس کو بالکل عقل نہیں ہوتی۔“ (دُرّ منثور)
مالک بن دینارؒ فرماتے ہیں کہ : ”تو جس قدر دُنیا کا غم کرے گا اتناہی آخرت کا غم تیرے دل سے نکل جائے گا ،اور جتنا تو آخرت کا غم کرے گا اتنا ہی دُنیا کا غم تیرے دل سے نکل جائے گا ۔“
حضرت فضیل بن عیاضؒ فرماتے ہیں کہ : ”اگر دُنیا مجھے ساری کی ساری مل جائے اور مجھ سے اِس کا حساب بھی نہ لیا جائے تب بھی میں اس سے ایسی گھن اور کراہت کروں جیسی کہ تم لوگ مردار جانور سے کرتے ہو کہ کہیں کپڑے کو نہ لگ جائے۔“
حضرت عبد اللہ بن مبارکؒ فرماتے ہیں کہ : ”دُنیا کی محبت نے اور گناہوں نے دلوں کو وحشی بنا رکھا ہے، اس لیے خیر کی بات دلوں تک پہنچتی نہیں اور نہ ہی اپنا اثر دکھاتی ہے۔“
ایک حدیث میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد حضرت موسیٰ ؑ سے ہے کہ: ” جب تم وسعت کو آتے دیکھو تو سمجھو کہ کسی گناہ کی سزا میں یہ آرہی ہے ، اور جب فقر و فاقہ کو آتے دیکھو تو کہو کہ صالحین کا شعار آرہا ہے ۔
اور اگر کوئی حضرت عیسیٰ ؑ کا اتباع کرنا چاہتا ہے تو اُن کا ارشاد یہ ہے کہ : ”میرا سالن بھوک ہے ۔ اور میرا شعار اللہ تعالیٰ کا خوف ہے ۔ اور میرا لباس ”صوف“ (بھیڑ بکری کے بال اور اُون) ہے ۔ اور میرا سردی میں سینکنا دھوپ ہے ۔ اور میرا چراغ چاند کی روشنی ہے ۔ اور میری سواری میرے پاو¿ں ہیں۔ اور میرا کھانا اور میوے زمین کا گھاس ہے ۔ میں صبح اس حال میں کرتا ہوں کہ میرے پاس کچھ نہیں ہوتا ، اور شام اس حال میں کرتا ہوں کہ میرے پاس کچھ نہیں ہوتا ۔ اور ساری دُنیا میں مجھ سے زیادہ غنی اور بے پرواہ کوئی شخص بھی نہیں جو کسی دوسرے کا محتاج ہو۔ (فضائل صدقات)
ایک حدیث میں حضور اقدس کا ارشاد مروی ہے کہ : ”ہر اُمت کے لیے کوئی بچھڑا ( گاو¿ ماتا وغیرہ) ہوتا ہے جس کی وہ پرستش کرتے ہیں ، میری اُمت کا بچھڑا روپیہ اور اشرفی ( بلکہ آج کل کی زبان میں اشرفی کی جگہ اگر ڈالر ، یورو اور ریال وغیرہ کرنسیوں کا نام لیا جائے تو یقیناً بے جا نہ ہوگا (رفیع) ہے۔( کہ اس کے ساتھ بھی ایسا ہی برتاو¿ کرتے ہیں جیسا کہ پرستش کا ہوتا ہے) اور حضرت موسیٰ ؑ کی قوم کا بچھڑا بھی تو سونے چاندی کا زیور ہی تھا ۔“ ( احیاءعلوم الدین)
ضحاک بن قیسؒ فرماتے ہیں کہ : ”جو شخص بازار جائے اور کسی چیز کو دیکھ کر اُس کے خریدنے کی رغبت ہو اور ناداری کی وجہ سے ( اُس کو خرید نہ سکے ، بلکہ ) اس پر صبر کرے تو اُس کا یہ عمل ایک ہزار اشرفیاں اللہ کے راستے میں خرچ کرنے سے افضل ہے۔“
حضرت عمر فاروقؓ کی لخت جگر حضرت اُم ولیدؓ فرماتی ہیں کہ : ” ایک مرتبہ حضور اقدس شام کے وقت اندر سے باہر تشریف لائے اور ارشاد فرمایا کہ : ”تم لوگوں کو شرم نہیں آتی ؟۔“ صحابہؓ نے عرض کیا : ”یارسول اللہ! کیا بات ہوئی؟۔“ حضور نے ارشاد فرمایا کہ : ”اتنی مقدار جمع کرتے ہو جتنا کھاتے نہیں ہو ، اور اتنے مکانات بنالیتے ہو جن میں رہتے بھی نہیں ہو اور ایسی ایسی اُمیدیں باندھ لیتے ہو جن کو پورا بھی نہیں کرسکتے ، کیا ان باتوں سے تم لوگوں کو شرم نہیں آتی؟۔“(الترغیب و التذہیب)
مطلب یہ ہے کہ رہن سہن کے لیے گھر اور مکان اتنا ہی بنانا چاہیے جتنے کی ضرورت ہو اور اُس میں زندگی اچھی طرح سے گزر سکے۔ اسی طرح مال و دولت اور خزانہ اتنا ہی جمع کرنا چاہیے جس سے اپنی معاشی تنگی دُور ہوکرگزرانِ اوقات آسانی سے ہوسکے۔ اس کے علاوہ جو زائد مال ہے وہ جمع کرنے اور پیسے پر پیسہ اکٹھا کرنے کے لیے نہیں بلکہ وہ تو اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنے کے لیے ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں