میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
پرویز مشرف کی سزائے موت پر عمل درآمد کا حکم، غداری کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری

پرویز مشرف کی سزائے موت پر عمل درآمد کا حکم، غداری کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری

ویب ڈیسک
جمعرات, ۱۹ دسمبر ۲۰۱۹

شیئر کریں

خصوصی عدالت نے سنگین غداری کیس میں سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے خلاف تفصیلی فیصلہ جاری کرتے ہوئے کہاہے کہ پرویز مشرف پر پانچ چارج فریم کیے گئے تھے، مجرم کو ہر جرم کے حوالے سے ایک بار سزائے موت دی جائے،سنگین غداری کا ٹرائل ان لوگوں کیلئے آئین کی ضرورت ہے جو کسی بھی وجہ سے آئین کو کمزور کریں یا اسے کمزور کرنے کی کوشش کرے، لہٰذا یہ عدالت استغاثہ کی جانب سے ملزم کے خلاف پیش کیے گئے ناقبل تردید، ناقابل تلافی اور ناقابل اعتراض ثبوتوں کو دیکھنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچی کہ واقعی ملزم نے جرم کیا ہے اور وہ مثالی سزا کا مستحق ہے،مشرف نے سنگین غداری کیس سے بچنے کی مستقل کوشش اور ضد کی۔تفصیلات کے مطابق سترہ دسمبر کو وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں موجود خصوصی عدالت کے 3 رکنی بینچ نے پرویز مشرف سنگین غداری کیس کے مختصر فیصلے میں انہیں آرٹیکل 6 کے تحت سزائے موت سنائی تھی۔پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار سیٹھ، لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شاہد فضل کریم اور سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس نذر اکبر پر مشتمل بینچ نے اس کیس کا فیصلہ دو ایک کی اکثریت سے سنایا تھا۔ جمعرات کو اسلام آباد کی خصوصی عدالت نے سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا، 169صفحات پر مشتمل فیصلہ دو ایک کی اکثریت سے سنایا گیا ، دو ججز کا فیصلہ 25 صفحات پر مشتمل ہے جبکہ جسٹس نذر اکبر کا اختلافی نوٹ 44 صفحات پر مشتمل ہے ۔ فیصلے میں دو ججز جسٹس سیٹھ وقار اور جسٹس شاہد کریم نے پرویز مشرف کو پھانسی دینے کاحکم دیا اور ایک جج جسٹس نذر اکبر نے انہیں بری کر دیا ۔ خصوصی عدالت کے بینچ کے سربراہ جسٹس سیٹھ وقار اور جسٹس شاہد فضل نے فیصلے میں لکھا ہے کہ جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف نے سنگین غداری کے جرم کا ارتکاب کیا۔دونوں ججز نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ آئین توڑنے، وکلاء کو نظربند کرنے اور ایمرجنسی کے نفاذ کا جرم ثابت ہونے پر پرویز مشرف کو سزائے موت دی جائے اور انہیں اس وقت تک لٹکایا جائے جب تک ان کی جان نا نکل جائے۔خصوصی عدالت نے تفصیلی فیصلے میں جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو 5 بار سزائے موت کا حکم دیا ہے۔فیصلے میں لکھا گیا کہ پرویز مشرف پر 5 چارج فریم کیے گئے تھے، مجرم کو ہر جرم کے حوالے سے ایک بار سزائے موت دی جائے۔دو ججز نے فیصلے میں لکھا کہ جمع کرائے گئے دستاویزات سے واضح ہے کہ ملزم نے جرم کیا، ملزم پر تمام الزامات کسی شک و شبہ کے بغیر ثابت ہوتے ہیں۔جسٹس سیٹھ وقار نے فیصلے میں لکھا کہ پھانسی سے قبل پرویز مشرف فوت ہو جاتے ہیں تو لاش ڈی چوک لائی جائے جبکہ جسٹس شاہد کریم نے جسٹس وقار کے اس نقطے سے اختلاف کیا۔پرویز مشرف کو سزا کی حمایت کرنے والے ججز نے لکھا کہ سزائے موت کا فیصلہ ملزم کو مفرور قرار دینے کے بعد ان کی غیر حاضری میں سنایا گیا۔فیصلہ میں کہاگیاکہ اعلیٰ عدلیہ نے نظریہ ضرورت متعارف نہ کرایاہوتا توقوم کویہ دن نہ دیکھنا پڑتا، نظریہ ضرورت کے باعث یونیفارم افسر نے سنگین غداری جرم کاارتکاب کیا، اس نتیجے پرپہنچے ہیں جس جرم کاارتکاب ہوا وہ آرٹیکل 6 کے تحت سنگین غداری کے جرم میں آتاہے۔فیصلہ میں کہاگیاکہ آرٹیکل 6 آئین کاوہ محافظ ہے جو ریاست،شہریوں میں عمرانی معاہدہ چیلنج کرنیوالے کا مقابلہ کرتا ہے، ہماری رائے ہے سنگین غداری کیس میں ملزم کو فیئر ٹرائل کا موقع اس کے حق سے زیادہ دیا۔فیصلہ میں کہاگیاکہ قانون نافذ کرنے والے ادارے پرویز مشرف کو گرفتار کرکے لائیں تاکہ سزا پر عملدر آمد کرایا جا سکے، پیراگراف نمبر 68 میں لکھا گیا ہے کہ ملزم پرویز مشرف کو ملک سے باہر بھگانے والے افراد کو قانون کے کٹہرے میں لا کر کھڑا کیا جائے۔عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ سنگین غداری کا ٹرائل ان لوگوں کیلئے آئین کی ضرورت ہے جو کسی بھی وجہ سے آئین کو کمزور کریں یا اسے کمزور کرنے کی کوشش کرے، لہٰذا یہ عدالت استغاثہ کی جانب سے ملزم کے خلاف پیش کیے گئے ناقبل تردید، ناقابل تلافی اور ناقابل اعتراض ثبوتوں کو دیکھنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچی کہ واقعی ملزم نے جرم کیا ہے اور وہ مثالی سزا کا مستحق ہے۔عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ مقدمے کا سامنا کرنے والے ملزم کے عمل اور برتاؤ سے یہ واضح ہے کہ اس مقدمے کی شروعات سے ہی ملزم نے اس میں تاخیر، پیچھے ہٹنے اور حقیقت میں اس سے بچنے کیلئے مستقل کوشش اور ضد کی۔ فیصلے میں کہا گیا کہ یہ ان کی درخواست رہی کہ وہ صحت کی خرابی یا سیکیورٹی کے خطرات کی وجہ سے مقدمے کا سامنا کرنے کے لیے عدالت تک نہیں پہنچ سکتے۔عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ ہم قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ہدایت کرتے ہیں کہ وہ مفرور،مجرم کو پکڑنے کے لیے اپنی بھرپور کوشش کریں اور اسے یقینی بنائیں کہ انہیں قانون کے مطابق سزا دی جائے۔جسٹس نذر اکبر نے 44 صفحات پر مشتمل اختلافی نوٹ میں لکھا کہ استغاثہ اپنا کیس ثابت کرنے میں ناکام رہا لہذا انہیں رہا کیا جائے۔انہوں نے اپنے نوٹ میں لکھا کہ میں نے ادب سے اپنے بھائی وقار احمد سیٹھ صدر خصوصی کورٹ کا مجوزہ فیصلہ پڑھا ہے، میں ادب کے ساتھ صدر عدالت اور اکثریت کی آبزرویشنز اور نتائج سے اختلاف کرتا ہوں۔ جسٹس نذر اکبر نے لکھا کہ پارلیمنٹ نے پہلے خاموشی اختیار کر کے پھر آرٹیکل 6 میں ترمیم کر کے عدلیہ کو دھوکا دیا، اس عمل کا واحد ہدف 3 نومبر 2007 کا اقدام تھا، قومی یا صوبائی اسمبلی میں ایمرجنسی کے نفاذ پر کوئی احتجاج نہیں کیا گیا، ایک بھی رکن پارلیمنٹ نے پارلیمنٹ میں آواز نہیں اٹھائی۔اختلافی نوٹ میں لکھا گیا کہ قومی اسمبلی نے 7 نومبر2007 کو اپنی قرارداد منظور کر کے ایمرجنسی کے نفاذ کی توثیق کی، بہت سارے پارلیمنٹرینز وکلاء تھے اور وہ وکلاء تحریک کا حصہ تھے، کسی میں ہمت نا ہوئی کہ ایمرجنسی کے نفاذ کے خلاف پارلیمنٹ میں تحریک لا سکے۔ نجی ٹی وی کے مطابق جسٹس نذر اکبر نے لکھاکہ پارلیمنٹ نے اکتوبر 99 کی ایمرجنسی کی توثیق نظریہ ضرورت کے تحت کی، اس وقت پارلیمنٹ نے 17ویں ترمیم کے ذریعے مجرم کو سہولت دی، پھر 18 ویں ترمیم میں آئین کے آرٹیکل 6 میں ترمیم کی گئی، 18 ویں ترمیم کے ذریعہ پارلیمنٹ نے 7 نومبر 2007 کی قومی اسمبلی کی قرارداد کی توثیق کی، 18 ویں ترمیم کے ذریعے پارلیمنٹ نے فیصلہ دیا کہ پرویز مشرف کا 3 نومبر کا اقدام سنگین غداری نہیں تھا۔جسٹس نذر اکبر نے لکھا کہ 18 ویں آئینی ترمیم منظور کرتے وقت زیادہ تر پارلیمنٹیرین وہی تھے جو 17ویں آئینی ترمیم کے وقت تھے، پارلیمنٹ کا آرٹیکل 6 میں ترمیم کا ارادہ تھا تو اس کا اطلاق ماضی سے ہونا چاہیے، پارلیمنٹ نے سنگین غداری جرم میں ترمیم کر کے 3 نومبر 2007 کے اقدام کی دانستہ توثیق کی۔خصوصی عدالت کے جج نے اپنے نوٹ میں یہ بھی لکھا کہ غداری کی تعریف کے حوالے سے بلیکس لا ڈکشنری کا حوالہ بھی دیاگیا۔جسٹس نذر اکبر نے لکھا کہ پاک فوج کا ہر سپاہی آئین پاکستان کی پاسداری کا پابند ہے، آئین توڑنے والے جنرل کا ساتھ دینے والی ہائی کمان آئین کے تحفظ میں ناکام رہی، جنرل مشرف فضاء میں تھے، ان کے ساتھیوں نے غیر آئینی اقدام اٹھا لیا۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں