میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
عشقِ رسول(صلی اللہ علیہ وسلم) اہمیت، آداب، تقاضے

عشقِ رسول(صلی اللہ علیہ وسلم) اہمیت، آداب، تقاضے

جرات ڈیسک
منگل, ۱۷ اکتوبر ۲۰۲۳

شیئر کریں

مولانا سفیان علی فاروقی

آج کل ہم سب کا دعویٰ ہے کہ ہم میں سے ہر ایک اتنا سچا عاشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ اس سے بڑھ کر اور اس سے زیادہ عاشقِ رسول دنیا میں کوئی بھی نہیں، لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہماری زندگی کا ۰۸ فیصد حصہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اور احکامات کی پیروی سے یکسر خالی ہے (اور یہ عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی انوکھی قسم ہے)۔ ہم عاشقِ رسولؐ ہیں، لیکن ہم نے پنج وقتہ نماز نہیں پڑھنی۔ ہم عاشقِ رسولؐ ہیں،لیکن ہم نے اپنی شادیاں ہندوانہ رسم و رواج اور انگریزوں کی پیروی کرتے ہوئے کرنی ہیں۔ ہم عاشقِ رسولؐ ہیں، لیکن ہمارے غمگین لمحات اپنی نفسانی خواہشات کی پیروی پر گزرتے ہیں۔ہم عاشقِ رسولؐ ہیں، لیکن ہماری معاشرتی زندگی سیرۃ النبیؐ سے کوسوں دور ہے۔ہم عاشقِ رسولؐ ہیں، لیکن ہمارا کاروبار احکاماتِ نبوی سے یکسر مختلف ہے۔ ہم عاشقِ رسولؐ ہیں، لیکن ہمارے بچوں کا آئیڈیل انگریز ہے۔ ہم عاشقِ رسولؐ ہیں، لیکن زندگی یورپ کی جینا چاہتے ہیں۔ ہم عاشقِ رسولؐ ہیں، لیکن والدین، بہن بھائیوں، عزیزو اقارب کے حقوق کے معاملے میں نبوی احکامات کے بالکل خلاف چل رہے ہیں۔ ہم عاشقِ رسولؐ ہیں، لیکن ہماری عملی زندگی میں سیرت کی کوئی جھلک نظر نہیں آتی۔ سو عشق کا دعویٰ کرنا اور سچا عاشق بننا دو بالکل مختلف چیزیں ہیں اور حقیقتاً ہم عشق کے دعویدار تو ہیں، لیکن سچے عاشق نہیں ہیں۔
عشقِ رسول(صلی اللہ علیہ وسلم) کی اہمیت
ایک مسلمان اس وقت تک کامل مسلمان نہیں ہوسکتا جب تک اس کاعشقِ رسولؐ کامل نہ ہو، یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر ہر ادا، ہرہر قول اور ہرہر عمل سے سچا عشق نہ ہو، زندگی کے ہر معاملے میں سب سے پہلے نبوی طرزِ عمل کو ڈھونڈے، جی جان سے اس پر عمل کی کوشش کرے، احکاماتِ نبوی کے مطابق زندگی کے شب و روز گزارنے کی جدوجہد کرے، اپنے معاملات، معاشرت، لین دین، خوشی و غمی ہر چیز احکاماتِ نبوی (l) کے تابع کردے، یہی ہر مسلمان سے تقاضا ہے، یہی اس کی زندگی کا منہج و مقصد ہے، اسی چیز پر زندگی گزارنے کا حکم دیا گیا ہے، چنانچہ قرآن پاک میں ارشاد ربانی ہے کہ:
”وَما کَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّلَا مُؤْمِنَۃٍ إِذَا قَضَی اللہُ وَرَسوْلُہٗ أَمْرًا أَنْ یَّکُوْنَ لَہُمُ الْخِیَرَۃُ مِنْ أَمْرِہِمْ وَمَنْ یَّعْصِ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَل ٰلًا مُّبِیْنًا“ (سورۃ الاحزاب)
”کسی مؤمن مرد اور عورت کو یہ حق نہیں کہ جب اللہ اور اس کے رسول(صلی اللہ علیہ وسلم) کسی معاملے کا فیصلہ کردیں تو ان کے اپنے معاملے میں اختیار باقی رہ جائے اور جو کوئی اللہ ورسولؐ کی نافرمانی کرے، وہ صریح گمراہی میں پڑ گیا۔”
سورۃ الحشر، آیت نمبر:۷ میں ارشادِ الٰہی ہے:
”وَمَآ اٰتٰیکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَمَا نَہٰیکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْا وَاتَّقُوْا اللہَ اِنَّ اللہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ“(الحشر:۷)
”جو کچھ رسول تمہیں دیں، وہ لے لو اور جس چیز سے تمہیں روک دیں، اس سے رک جاؤ اور اللہ سے ڈر جاؤ، وہ شدید عذاب دینے والا ہے“۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:
”لَا یُؤمِنُ أحَدُکُمْ حَتّٰی یَکُوْنَ ھَوَاہُ تَبَعًا لِمَ ا جِءْتُ بِہٖ“۔ (مشکوٰۃ)
”تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اپنی خواہشات کو میری لائی ہوئی شریعت کے تابع نہ کردے“۔
عشقِ رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کے آداب
ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں
وہ عشق ہی کیا جس میں ادب آداب کا لحاظ نہ ہو، چنانچہ تاریخ کی کتابوں میں ایک مشہور واقعہ درج ہے:بادشاہ ناصر الدین محمود کے ایک خاص مصاحب کا نام محمد تھا، بادشاہ اس کو اسی نام سے پکارا کرتا تھا، ایک دن خلافِ معمول اسے ”تاج الدین“کہہ کر آواز دی، وہ تعمیلِ حکم میں حاضر تو ہوگیا، لیکن بعد میں گھر جا کر تین دن تک نہیں آیا، بادشاہ نے بلاوا بھیجا، تین روز تک غائب رہنے کی وجہ دریافت کی تو اس نے کہا: آپ ہمیشہ مجھے“محمد”کے نام سے پکارا کرتے تھے، لیکن اس دن آپ نے“تاج الدین”کہہ کر پکارا، میں سمجھا میرے متعلق آپ کے دل میں کوئی خلش پیدا ہوگئی ہے، اس لیے تین دن تک حاضرِ خدمت نہیں ہوا، ناصر الدین نے کہا:“واللہ! میرے دل میں آپ کے متعلق کسی قسم کی کوئی خلش نہیں، تاج الدین کے نام سے تو میں نے اس لیے پکارا تھا کہ اس دن میرا وضو نہیں تھا اور مجھے“محمد”کا مقدس نام بغیر وضو کے لینا مناسب معلوم نہیں ہوا“۔
اسی طرح ہمارے محدثین کا الحمدللہ معمول رہا ہے کہ جب بھی کوئی حدیث نقل کرنے لگتے ہیں تو باقاعدہ اہتمام کے ساتھ آداب کے ساتھ باوضو ہو کر حدیث کو نقل کرتے ہیں، ہم نے اپنے بڑوں کو دیکھا ہے کہ وہ کسی ایسی بات کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب نہیں کرتے جس کے متعلق انہیں علم نہ ہو کہ واقعی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی فرمائی ہے، کیونکہ کوئی بھی ایسی بات جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ فرمائی ہو اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرنا انتہا درجے کی بے ادبی ہے، یہ بھی انتہادرجے کی بے ادبی ہے کہ کسی ایسے شخص کو گستاخِ رسول قرار دینا جس نے گستاخی نہ کی ہو۔ یہ بھی انتہا درجے کی بے ادبی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کانام نامی آئے اور ہم درود و سلام نہ پڑھیں، یہ بھی بے ادبی ہے کہ ایک معاملے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا طرزِ عمل موجود ہو اور ہم اس کو چھوڑ کر کوئی دوسرا طرزِ عمل اختیار کریں۔ادب یہ ہے کہ اپنی سوچ، فکر، فہم، رسم و رواج سب کچھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے تابع کرلیں، ساری محبتیں اس ایک محبت پر قربان کردیں۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے دنیا کی تمام چیزوں کی محبت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت پر قربان کردیاتھا، آپؐ کی محبت میں ماں باپ، بہن بھا ئی، رشتہ دار قربان کر دیے، غرضیکہ سب کچھ قربان کر دیا، لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن کو نہ چھوڑا۔ سیدنا ابو سفیان رضی اللہ عنہ حالتِ کفر میں اپنی بیٹی کو ملنے کے لیے آتے ہیں اور کملی والے ؐ کے مقدس بستر پر بیٹھنے کی کو شش کرتے ہیں تو بیٹی ام حبیبہ رضی اللہ عنہا یکدم بو لتی ہے:ابا جان! ذرا ٹھہریئے ”باپ رُک گیا۔ بیٹی کیا بات ہے؟ بیٹی نے جلدی سے بستر لپیٹ دیا، سیدنا ابو سفیان ؓ بولے: کیا یہ بستر میری شان کے لا ئق نہیں؟ یا میں اس بستر پر بیٹھنے کے لا ئق نہیں ہوں؟ بیٹی نے کہا: یہ ”محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پاک بستر ہے اور آپ اس وقت ناپاک ہیں۔”ذرا اندا زہ لگا ئیے کہ سیّدہ ام حبیبہ ؓ نے اپنے باپ کی ذرا پرواہ نہیں کی اور مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں اپنے باپ کو بھی رد کر دیا۔
عشقِ رسول(صلی اللہ علیہ وسلم) کے تقاضے
عاشق کے وجود کا ظاہری حلیہ اور اس کے اعمال میں جھلکتا باطنی عشق اس کے عاشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہونے کا منہ بولتا ثبوت ہو، اسے اپنے عشق کے اظہار کے لیے عاشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہونے کے نعرے نہ لگانے پڑیں، بلکہ اس کے اعمال چیخ چیخ کر دنیا کو بتادیں کہ یہ ہے سچا عاشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم۔صحابہ کرامؓ نے یہی کیا تھا، آیئے! ان کے عشق کی چند جھلکیاں دیکھتے ہیں:

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عشق کی چند جھلکیاں
۱۔ موسیٰ بن عقبہؒ بیان کرتے ہیں کہ میں نے سالم بن عبداللہ بن عمرؓ کو دیکھاکہ وہ دورانِ سفر راستے میں بعض مقامات تلاش کرتے تھے اور وہاں نماز پڑھتے تھے، کیونکہ انہوں نے اپنے والد عبداللہؓ کو اور انہوں نے اپنے والد عمرؓ کو وہاں نماز پڑھتے دیکھا تھا اور حضرت عمر وہاں اس لیے نماز پڑھتے تھے کہ انہوں نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو وہاں نماز پڑھتے دیکھا تھا۔ (بخاری:۳۸۴)
۲۔حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سواری پر سوار ہوئے تو دعائے مسنون پڑھنے کے بعد مسکرانے لگے۔ کسی نے پوچھا: امیرالمومنین! مسکرانے کی کیا و جہ ہے؟ آپؓ نے فرمایا کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سواری پرسوار ہوکر اسی طرح دعا پڑھی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے تھے، لہٰذا میں بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں مسکرایا ہوں۔ (ابوداود؛۲۰۶۲)
۳۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کدو پسند ہیں، تو وہ بھی کدو پسند کرنے لگے۔ (مسنداحمد:۷۷۱/۳)
۴- ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سرکہ کے بارے میں فرمایا کہ:سرکہ تو اچھا سالن ہے تو حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ تب سے مجھے سرکے سے محبت ہوگئی ہے۔ (دارمی:۱۸۱۲)
۵۔ ایک بار ایک صحابیؓ کے ہاتھ میں سونے کی انگوٹھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے ہاتھ سے اُتار کر دور پھینک دی، گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اظہارِ ناراضگی کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تشریف لے جانے پر کسی نے کہا کہ اس کو اُٹھا لو اور بیچ کر فائدہ حاصل کرلو (کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف پہننے سے منع فرمایا تھا) مگر اس نے کہا:خدا کی قسم! میں اسے کبھی نہیں اٹھاؤں گا، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پھینک دیا ہے۔ (مسلم:۰۹۰۲)
۶۔کچھ صحابہ ؓ کو بیعت کی شرائط میں یہ نصیحت بھی فرمائی کہ:لوگوں سے کسی چیز کا سوال نہ کرنا“۔ تو انہوں نے اس شدت سے اس کی پابندی کی کہ اگر اونٹنی پر سوار کہیں جارہے ہوتے اور ہاتھ سے لگام گر جاتی تو اونٹنی کو بٹھا کر خود اپنے ہاتھ سے اس کو اٹھاتے تھے اور کسی آنے جانے والے سے نہیں کہتے تھے کہ اٹھا کر دے دو۔ (مسنداحمد: ۷۷۲/۵)
۷۔ سرورِ کا ئنات صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن مرادِ رسول سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے پو چھتے ہیں: اے عمر ؓ! تم میرے ساتھ کتنا عشق و پیار کرتے ہو“؟ فا روقِ اعظم ؓ نے فرمایا:اپنے ماں باپ سے، اپنی اولا دسے، اپنے رشتہ داروں سے، اپنے دوستوں سے،بلکہ کل کا ئنات سے زیادہ آپ سے عشق رکھتا ہوں اور عزیز سمجھتا ہوں بجز اپنی جان کے“۔ کملی والے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عمرؓ! اس ذات کی قسم جس کے قبضہئ قدرت میں مجھ محمد ؐ کی جان ہے اس وقت تک کوئی شخص مو من نہیں ہو سکتا جب تک مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز نہ سمجھے۔ ”فاروقِ اعظم ؓ نے کہا:اب آپ ؐ مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز و محبوب ہیں“۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عمرؓ! اب تو مومن ہے“۔
صحابہ کرامؓ کا معاملہ بھی عجیب تھا، ان کی محبت کا دارومدار بس عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھا، اگر کوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہیں لایا تو پھر خونی رشتے بھی بے معنی تھے اور اگر کوئی ایمان لایا اور خونی رشتہ نہیں بھی تھا تو اپنی جان سے زیادہ عزیز تھا۔ واقعی تاریخ انسانیت میں ایسا انقلاب نہ پہلے آیا اور نہ کبھی آئے گا۔تا ریخ کی کتا بوں میں لکھا ہے کہ عبداللہ بن ابی منا فق نے ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے متعلق کہا:لَءِنْ رَّجَعْنَا اِلَی الْمَدِیْنَۃِ لَیُخْرِجَنَّ الْاَعَزُّ مِنْھَا الْاَذَلَّ ”یہ بات ابن ابی کے فرزند ارجمند حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کے کان میں پہنچ گئی، حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ تلوار لے کر مدینہ شریف کے مین گیٹ پر کھڑے ہو گئے، لوگ گزرتے گئے، جب باپ آیا تو کہنے لگا: پیچھے ہٹ جاؤ، تمہیں مدینہ میں دا خل نہیں ہو نے دیا جا ئے گا، جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تیرے لیے کوئی فیصلہ صادر نہیں فر ما دیں، چنانچہ رحمت کا ئنات تشریف لا ئے تو حضرت عبدا للہ ؓ نے فرمایا: جب تک یہ اپنے لفظ واپس نہیں لے گا، اس کو گزرنے نہیں دو ں گا۔
حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ نے جنگ بدر میں اپنے والد کوکافروں کی حما یت میں مسلمانوں کے مقابلہ میں آنے کی وجہ سے قتل کردیا۔حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ نے اپنے بھائی عبید بن عمیر کو قتل کردیا۔
حضرت عمر ؓ، حضرت حمزہ ؓ، حضرت علی ؓ، حضرت عبید ہ بن حارث ؓ نے اپنے قریبی رشتہ داروں عتبہ، شیبہ، ولید وغیرہ کو قتل کیا۔ غرضیکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں اپنے ماں، باپ، بہن، بھائی، عزیزو اقارب سب کو قربان کردیا، اسی لیے ایک مقام پر اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے:جو لوگ اللہ پر اورقیامت کے دن پر (پورا پورا) ایمان رکھتے ہیں، آپ ان کو نہ دیکھیں گے کہ ایسے شخصوں سے دوستی رکھتے ہوں جو اللہ اور رسول کے برخلاف ہیں، چا ہے وہ ان کے باپ یا بیٹے یا بھا ئی یا کنبہ ہی کیوں نہ ہو، ان لوگوں کے دلوں میں اللہ تعالیٰ نے ایمان ثبت کردیا ہے“۔ (المجادلہ، آیت:۲۲)
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اپنا سب کچھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر لٹا دیا تو پھر اللہ پاک نے بھی اپنی تمام نعمتوں کے دروازے ان پر کھول دیے، ان کے قدموں میں سلطنتیں تسبیح کے دانوں کی طرح گریں، دنیا کے خزانے مدینہ کی گلیوں میں بکھرنے لگے، دنیا کی قیادت و سعادت ان پر فخر کرنے لگی، ان کے احکامات پھر چرند، پرند، ابحار، اشجار سبھی نے مانے اور جب تک مسلمان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات پر عمل پیرا رہے عشقِ رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کو حرزِ جاں بناتے رہے، اس وقت تک ساری دنیا ان کے در کی دریوزہ گر رہی اور جیسے ہی انہوں نے عشقِ رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) سے منہ موڑا، اللہ پاک کی تمام نعمتوں نے مسلمانوں سے منہ موڑ لیا۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں