میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
سندھ اورکراچی میں پینے کے پانی میں انسانی فضلہ شامل!

سندھ اورکراچی میں پینے کے پانی میں انسانی فضلہ شامل!

ویب ڈیسک
پیر, ۱۷ جولائی ۲۰۱۷

شیئر کریں

ٹنڈو محمد خان میں 30، حیدر آباد میں 42، لاڑکانہ میں 60 فیصد پانی کے نمونوں میں انسانی فضلہ پایا گیا
شہر قائد میں پانی کے 33 فیصد نمونوں میں سیوریج کا پانی شامل ہے اور 90 فیصد پانی پینے کے لیے نقصان دہ ہے
پاکستان کا شمار ان دس ممالک میں ہوتا ہے جو عالمی ماحولیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہیں
کراچی میں کسی بھی جگہ صاف پانی نہیں مل رہا ، پوری پوری رات کلورین ملائے بغیر پانی فراہم کیا جاتا ہے
میرپورخاص میں 28 فیصد، ٹنڈو الہ یار میں 23، بدین میں 33، جامشورو میں 36 فیصد نمونوں میں انسانی فضلہ شامل
ایچ اے نقوی
پاکستان عالمی درجہ حرارت میں کمی کے لیے کئے گئے عالمی پیرس ماحولیاتی معاہدے میں شامل ہے اور پاکستان نے اس معاہدے پر دستخط کیے ہیں جس کے تحت پاکستان 2030 تک ایسے دوررس اقدامات کرنے کاقانونی اور اخلاقی طورپر پابند ہے جس کے تحت ماحولیاتی آلودگی میں کمی آسکے۔ یہ معاہدہ 2015 میں طے پایا تھا اور اس سے انحراف پر ان دنوں امریکا شدید تنقید کا شکار ہے ۔عالمی برادری کے ساتھ ماحولیاتی آلودگی میں کمی کے اقدامات کاوعدہ کرنے والے اس ملک پاکستان کاعالم یہ ہے کہ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق آج پاکستان کا شمار ان دس ممالک میں ہوتا ہے جو عالمی ماحولیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہیں۔
اس سنگین صورت حال کے باوجود حکومت پاکستان کے پاس بظاہر کوئی ایسی مربوط ماحولیاتی پالیسی نہیں ہے جس سے یہ اندازہ لگایا جاسکے کہ حکومت پاکستان واقعی ماحولیاتی آلودگی سے نمٹنے میں سنجیدہ ہے ۔اس حوالے سے حکومت پاکستان کی سنجیدگی کا اندازا اس طرح لگایا جاسکتا ہے کہ سال2016 کے بجٹ میں ماحولیاتی مسائل سے نمٹنے کی مد میں لگ بھگ 6 کروڑ روپے مختص کیے گئے ۔پاکستان کے پاس ماحولیاتی تبدیلیوں پر نگاہ رکھنے کے لیے کوئی جدید آلات اور مربوط نظام بھی نہیں ہے۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ جو بھی نگراں نظام ہے وہ قدیم و جدید امداد میں ملے آلات کا بھنڈار ہے۔کہنے کو ایک انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی ( ای پی اے ) بھی ہے لیکن یہ اتنی ہی با اختیار ہے جتنے صدرِ پاکستان۔
ماحولیاتی آلودگی صرف ہوا میں دھوئیں کی آمیزش کو نہیں کہتے بلکہ اس میں صاف پانی کی فراہمی ، گندے پانی کی نکاسی اور دھول وغیرہ کے پھیلائواو رشورشرابے کو روکنا بھی ضروری ہے ،کیونکہ یہ تمام عوامل آلودگی کے زمرے میں ہی شمار ہوتے ہیں۔ اس وقت صورت حال کی سنگینی کااندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ گزشتہ روز سندھ ہائی کورٹ میں واٹرکمیشن کی سماعت کے دوران انکشاف ہواہے کہ کراچی سمیت سندھ کے مختلف شہروں کو فراہم کیے جانے والے پینے کے پانی میں انسانی فضلہ شامل پایاگیاہے۔ شہر قائد میں پانی کے 33 فیصد نمونوں میں سیوریج کا پانی شامل ہے اور 90 فیصد پانی پینے کیلئے نقصان دہ ہے۔سپریم کورٹ کے حکم پر قائم عدالتی واٹر کمیشن کی سماعت میں ٹاسک فورس کی رپورٹ پیش کی گئی جس میں یہ ہولناک انکشاف کیاگیا کراچی میں کسی بھی جگہ صاف پانی نہیں مل رہا اور پوری پوری رات کلورین ملائے بغیر پانی فراہم کیا جاتا ہے ۔
ماہر ماحولیات ڈاکٹر مرتضیٰ نے بتایا کہ فلٹریشن پانی کے ساتھ گندا پانی بھی مکس ہورہا ہے۔ ڈپٹی ایم ڈی واٹر بورڈ نے اعتراف کیا کہ کراچی میں 19 مقامات پر پینے کے پانی میں سیوریج کی لائنیں مل گئی ہیں جب کہ عمارتوں اور گھروں کے زمینی پانی کے ٹینک کئی کئی سال تک صاف نہیں ہوتے۔ جسٹس اقبال کلہوڑو نے استفسار کیا کہ لوگ لائن کے پانی سے وضو کرتے ہیں تو کیا یہ گندا پانی بھی وضو کے لیے استعمال کیا جائے۔
واٹر کمیشن نے شہریوں کو گندا پانی فراہم کرنے پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایسے فلٹریشن پلانٹس کا کیا فائدہ جب لوگوں کو صاف پانی نہ ملے۔ ٹاسک فورس کی رپورٹ میں کہا گیا کہ سندھ کے 14 اضلاع کے 71 اسپتالوں میں بھی پانی کے نمونے ٹیسٹ کیے گئے اور 88 فیصد نمونے مضر صحت ثابت ہوئے۔ میرپورخاص میں 28 فیصد، ٹنڈو الہ یار میں 23، بدین میں 33، جامشورو میں 36، ٹنڈو محمد خان میں 30، حیدر آباد میں 42، لاڑکانہ میں 60 فیصد پانی کے نمونوں میں انسانی فضلہ پایا گیا۔ سب سے کم انسانی فضلے کے اجزا تھرپارکر میں پائے گئے۔
اس موقع پر واٹر ٹینکر ایسوسی ایشن کے اس انکشاف پرکہ کراچی میں ڈیڑھ سو سے زائد غیر قانونی ہائیڈرنٹس موجود ہیں۔ عدالتی کمیشن کے سامنے ایم ڈی واٹر بورڈ نے اعتراف کیا کہ غیر قانونی ہائیڈرنٹس کو غیر قانونی کنکشن دینے میںواٹر بورڈ کاعملہ بھی ملوث ہے۔ کراچی کی آبادی لگ بھگ ڈھائی کروڑ ہے۔سب سے مہنگی زمین یہاں کی ہے۔قومی پیداوار کا42 فیصد کراچی سے حاصل ہوتا ہے اور سب سے زیادہ ٹیکس بھی یہیں سے وصول کیاجاتا ہے۔ یہ شہر سمندر کے کنارے ہے۔مگر ڈی سیلینیشن ٹیکنالوجی کے بجائے یہ شہر آج بھی دریائی پانی پر انحصار کرتا ہے۔دریائوںکی صفائی کے ناقص انتظامات کی وجہ سے دریائوں میں پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش دن بہ دن کم ہوتی جارہی ہے اور اس کے ساتھ ارد گرد کی آبادیوں اور صنعتی علاقوں سے انسانی فضلہ اور زہریلہ مواد بھی دریابرد کیاجارہاہے جس کی وجہ سے نہ صرف دریائوںکا پانی بھی ناقابل استعمال ہوتاجارہاہے بلکہ اب کراچی اور ارد گرد کے دیگر شہروں میں پانی نایاب ہونا شروع ہوگیا ہے۔ کراچی کے شہریوں کو یومیہ 4ارب لیٹر پانی کی ضرورت ہوتی ہے لیکن اس کے برعکس واٹر بورڈ شہریوں کو صرف 2ارب لیٹر پانی فراہم کرتا ہے اور اس میں بھی مختلف حیلوں بہانوں سے کمی کرتارہتاہے۔
پانی کی قلت کی یہ صورت حال صرف کراچی تک محدود نہیں ہے بلکہ مکران جو پاکستان کے غریب ترین ساحلی علاقوں میں شمار ہوتا ہے وہاں اس وقت پینے کے پانی کی قلت کایہ عالم ہے کہ اس غریب ترین علاقے کے لوگوں کو جن کے لیے دو وقت کی روٹی کاانتظام کرنا مشکل بلکہ ناممکن ہوتاہے 60 روپے میں8 لیٹر کے حساب سے پانی خریدنا پڑتا ہے۔جب کہ سرکاری پانی پاک بحریہ کا جہاز کراچی سے بھر کے اہلِ مکران کے لیے لے کر جاتا ہے۔مگر یہ سروس بھی ریگولر نہیں ۔
کراچی میں سمندر کی صورت حال یہ ہے کہ کراچی کے قریب سمندر کاپانی غالباً اس خطے کاغلیظ ترین پانی بن چکاہے جس کی وجہ سے بحری حیات خطرے میں پڑ گئی ہے،کراچی میں نہ صرف بیشتر صنعتی فضلہ سمندر میں انڈیلا جا رہا ہے اور ماحولیاتی تحفظ کاادارہ اس شہر کی صنعتوں کو زہریلا مادہ سمندر میں بہانے سے روکنے میں مکمل طورپر ناکام ہوچکا،یہیں پر بس نہیں ہے بلکہ ساحلی ترقی اور ری کلیمیشن کے نام پر سمندری زمین بھی چھینی جا رہی ہے۔یعنی سمندر کو اور پیچھے دھکیلا جا رہا ہے۔کاش ان غاصبوں کو معلوم ہو کہ سمندر فطرتاً قبائلی ہے۔وہ کبھی اپنی توہین اور زمین کا بدلہ لینا نہیں بھولتا اور پلٹ کے ضرور آتا ہے۔
کراچی اور سندھ کے دیگر علاقوں میں عوام کو پینے کے لیے فراہم کیے جانے والے پانی میں انسانی فضلے اور دیگر زہریلے مواد کی آمیزش ہمارے حکمرانوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ ہمارے حکمرانوں کو چاہئے کہ وہ اس حوالے سے واٹر بورڈ اوردیگر اداروں کے ذمہ داروں کاتعین کریں اورسرکاری خزانے سے بھاری تنخواہیں اور مراعات لینے والے واٹر بورڈ کے ارباب اختیار کا سختی سے محاسبہ کریں اور ان سے یہ دریافت کریں کہ اگر انھیں معلوم ہے کہ ان کاعملہ غیر قانونی ہائیڈرنٹس کو کنکشن دینے میں ملوث ہے اور لوگوں کو پینے کے لیے فراہم کیے جانے والے پانی میں سیوریج کے پانی کی آمیزش ہورہی ہے تو انھوں نے اس کی روک تھام اور متعلقہ کرپٹ عملے کے خلاف کارروائی کیوںنہیں کی، عملے کی کرپشن سے چشم پوشی بذات خود کرپشن ہے،جس کاسدباب کیے بغیر اس نظام میں بہتری لانا ممکن نہیں ہوسکتی، امید کی جاتی ہے کہ اربا ب اختیار اس حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے اور کراچی اور سندھ کے دیگر علاقوں کے عوام کو زہر پینے سے محفوظ رکھنے کے لیے مناسب اقدام کریں گے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں