میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
عوام کو اپنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کرنے دیں!

عوام کو اپنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کرنے دیں!

جرات ڈیسک
جمعرات, ۱۴ ستمبر ۲۰۲۳

شیئر کریں

نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے کہا ہے کہ ان کی حکومت ایک محدود مدت کے لیے ہے، اس لیے ان کی کوشش ہو گی کہ پاپولر فیصلوں کے بجائے درست فیصلے کریں۔نگران وزیراعظم نے یہ بات گزشتہ روز ایک نجی ٹی وی چینل سے انٹرویو میں کہی ان کا کہنا تھا کہ ان کی حکومت کی کوشش ہو گی کہ وہ معاملات کو درست کرنے کے لیے کوئی بنیاد یا فاؤنڈیشن بنائیں۔ اگر مستقبل کی حکومت اس فاؤنڈیشن سے فائدہ اٹھانا چاہتی ہے تو اٹھائے اور اگر نہیں اٹھانا چاہتی تو پھر پاکستان کے عوام کو ان کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کرنے دیں۔
موجودہ نگراں وزیراعظم کو اقتدار سنبھالے ایک ماہ ہونے کو ہے لیکن اس ایک ماہ کے دوران کوئی ایسا فیصلہ نہیں کرسکے ہیں جس کی وجہ سے عوام کو درپیش مسائل میں کسی طرح کی کمی کی امید کی جاسکتی ہو، اس کے برعکس پاک فوج کے سربراہ نے ملک بھر کے دوروں کے دوران تاجروں،صنعت کاروں اور معیشت کے دیگر اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر دگرگوں معیشت کو سہارا دینے کی کوشش کی اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کے ان اقدامات کی وجہ ہی سے ملک میں ڈالر اور سونے کے نرخ تاریخ میں پہلی مرتبہ تیزی سے نیچے آئے ہیں اور حوالہ اور ہنڈی کا کاروبار کرنے والے وقتی طورپر ہی صحیح اپنا بوریا بستر سنبھال کر روپوشی اختیار کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں جس کی وجہ سے اب ملک میں براہ راست سرکاری ذرائع سے ترسیل زر کے امکانات روشن ہوگئے جس سے ترسیل زر کی شرح میں نظر آنے والی کمی ختم ہوجائے گی۔ جہاں تک نگراں وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ کی صلاحیتوں کا سوال ہے تو ان کی صلاحیتوں پر فی الوقت کسی قسم کا شک وشبہ ظاہر کرنا مناسب نہیں وہ بلاشبہ ایک عملی انسان ہیں اور معاملات کو اچھی طرح سمجھ کر کوئی قدم اٹھانے کے قائل ہیں،اب جبکہ ان کو عنان اقتدار سنبھالے ایک ماہ ہونے کو آرہاہے توقع ہے کہ انھوں نے ملک کے حالات کو اچھی طرح سمجھ لیاہوگااور اس وقت عوام کو درپیش مسائل حل کرنے کے طریقے بھی سوچ لیے ہوں گے،لیکن ہمارے خیال میں نگراں وزیر اعظم کو کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے حکومت کی گورننس کو بہتر بنانا ہونا چاہئے۔ گڈ گورننس سے مراد وہ نظام اور حکمت عملی کی پالیسی ہوتی ہے جس کی روشنی میں کسی ریاست یا کارپوریشن کو چلایا جاتا ہے۔ کوئی بھی ریاست مادرر پدر آزاد نہیں ہوتی بلکہ بنیادی اصولوں اور قواعد و ضوابط کی پابند ہوتی ہے۔ جب تک کسی ریاست کی گورننس معیاری نہ ہو وہ ریاست ترقی نہیں کر سکتی اور مختلف نوعیت کے مسائل کا شکار رہتی ہے۔ جب کسی ریاست کے نظم ونسق کی پالیسی جاری کی جاتی ہے تو اس کی مسلسل مانیٹرنگ کرکے پالیسی پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جاتا ہے۔ عوام کی جان و مال کے تحفظ امن و امان کے قیام اور بنیادی حقوق کی فراہمی کے لیے گڈ گورننس بے حد ضروری ہے۔ گڈ گورننس میں چیک اینڈ بیلنس کا نظام ہوتا ہے۔ گورننس بنیادی طور پر شفافیت جواب دہی ذمے داری اور اتفاق رائے کے اصولوں پر مبنی ہوتی ہے۔ گڈ گورننس کے بنیادی اصولوں میں شراکت کا اصول بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ جس ریاست یا کارپوریشن میں فیصلے شراکت سے کیے جاتے ہیں یعنی یہ کہ مختلف لوگوں کو مشاورت میں شامل کیا جاتا ہے اور اجتماعی دانش کے ساتھ حکمت عملی کا فیصلہ کیا جاتا ہے تو اس نوعیت کی گورننس کامیابی سے ہمکنار ہوتی ہے اور عوام کو بہتر بنیادی حقوق فراہم کیے جا سکتے ہیں۔ ایسی گورننس جس میں آمرانہ فیصلے کیے جاتے ہوں وہ ہمیشہ سماج کے لیے نقصان دہ ثابت ہوا کرتے ہیں۔ گڈ گورننس کے لیے لازم ہے کہ مختلف اہل کاروں اور ذمہ داروں کو فیصلہ سازی میں شریک کیا جائے اور ان کے اختلاف رائے کو برداشت کیا جائے تاکہ کسی بہتر نتیجے پر پہنچا جاسکے۔گڈ گورننس کا ایک اور بنیادی اصول اتفاق رائے ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ فیصلے اتفاق رائے سے کیے جائیں۔ افہام و تفہیم بحث و مباحثہ کے بعد کیے گئے فیصلے ہی مثبت اثرات کے حامل اور عوام کے لیے مفید ثابت ہو سکتے ہیں اور ان کے مسائل کو حل کر سکتے ہیں۔ان مثبت اور معیاری فیصلوں کی بناء پرہی پرامن پر سکون زندگی بسر کرنے کے قابل ہو سکتے ہیں۔ احتساب گڈگورنس کا بہترین اصول ہے۔ جس ریاست یا سماج میں احتساب نہ ہو وہ ریاست جمود کا شکار ہوجاتی ہے اور ترقی و خوشحالی کی شاہراہ پر گامزن نہیں ہو سکتی بلکہ اس میں مختلف نوعیت کے سماجی معاشرتی اور سیاسی مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔ گڈ گورننس کا بنیادی اصول یہ ہے کہ ریاست کے اہلکاروں کو کو میرٹ کی بنیاد پر ذمہ داریاں دی جائیں اور ذمہ داری دینے کے بعد ان کو اختیار بھی دیا جائے اور اس اختیار کے بعد ان کا احتساب بھی کیا جائے کہ انہوں نے اپنے اختیارات کو درست طور پر استعمال کیا ہے یا نہیں اور انہوں نے اپنی ذمہ داری ایمانداری کے ساتھ پوری کی ہے یا نہیں۔ جس سماج میں احتساب نہ ہو وہ سماج مختلف نوعیت کی بیماریوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ احتساب کے لیے لازم ہے کہ وہ شفاف بھی ہو اور یکساں بھی ہو اور اس میں انتقام کی بو نہ ہو۔ ایسا احتساب جو اپنے مخالفین کے انتقام کے لیے کیا جائے وہ ریاست کو برباد کر دیا کرتا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں آج تک ایسے منصفانہ اور شفاف اور یکساں احتساب کا نظام وضع نہیں کیا جا سکا جس میں ریاست کے تمام اہلکاروں بشمول جرنیل جج بیوروکریٹ اور سیاست دانوں کا احتساب کیا جا سکے اور اس احتساب کے عمل کے ذریعے ریاست ترقی و خوشحالی کی شاہ راہ پر نہ صرف گامزن ہوسکے بلکہ آگے بھی بڑھ سکے۔قانون کی حکمرانی گڈ گورننس کا بنیادی اصول ہے جس کے بغیر کوئی ریاست یا کارپوریشن کامیابی کے ساتھ نہیں چلائی جا سکتی۔سماجی و سیاسی علوم کے ماہرین گڈ گورننس کو 8 بنیادی اجزا کا مجموعہ قرار دیتے ہیں،جن میں شراکت داری، اتفاق رائے، تحرک، جوابدہی، شفافیت، منصفانہ پن اور قانون کی عملداری جیسے خواص شامل ہیں۔ تجزیہ کاروں کی رائے میں اچھی گورننس بدعنوانی کو کم کرتی ہے اور اس میں معاشرے کے کمزور طبقات کی آواز کو فیصلہ سازی کا حصہ بنایا جاتا ہے، جب کہ ملک کی موجودہ اور آئندہ ضروریات کو مد نظر رکھ کر اقدام کیا جاتا ہے، معاشی اور سماجی ترقی کا گڈ گورننس کے ساتھ گہرا تعلق ہے جب تک اچھی پالیسیز نہیں ہوں گی، ادارہ جاتی ڈھانچہ نہیں ہوگا، رول آف لا نہیں ہو گا۔اسٹیٹ، سوسائٹی اور حکومت کے درمیان باہم مربوط ورکنگ ریلیشن شپ نہیں ہو گا تو ظاہر ہے اس کا فرق معیشت پر پڑے گا اور اگر حکومت اور اس کی انتظامیہ میں تال میل ایک نہیں ہو گا تو سماجی اور معاشی امتزاج بھی بے کار کی رسم ہو گی۔ دنیا کے جن ممالک میں قانون کی حکمرانی کے اصول پر سختی سے عمل نہیں کیا جاتا۔ وہ ممالک مختلف نوعیت کے مسائل میں میں پھنس کر رہ جاتے ہیں اور ان کی ترقی و خوشحالی جمود کا شکار ہوجاتی ہے۔ ایسی ریاستوں میں جرائم میں روز بروز اضافہ ہوتا رہتا ہے اور عوام اپنے بنیادی حقوق کو ترستے رہتے ہیں۔ قانون کی حکمرانی کیلئے لازم ہے کہ ہر شہری کو یہ یقین ہو کہ اگر اس نے کسی قانون کو توڑا تو اسے ہر صورت اس کی سزا برداشت کرنی پڑے گی اور دنیا کی کوئی طاقت اس کو بچا نہیں سکے گی۔ دنیا کے وہ ممالک جن میں قانون کی عمل داری ہے اور قانون کو پوری اہمیت دی جاتی ہے اور اس کو پوری طاقت کے ساتھ نافذ کیا جاتا ہے اور جو بھی قانون کو توڑتا ہے اس کے خلاف سخت کارروائی کی جاتی ہے وہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہیں۔ دنیا میں کسی ایسی کامیاب ریاست کی مثال نہیں دی جاسکتی،جس نے قانون کی حکمرانی کے اصول پر عمل نہ کیا ہو اور اس نے ترقی و خوشحالی کی منزل طے کی ہو۔ شفافیت گڈ گورننس کا ایک اور اہم بنیادی اصول ہے۔ اس اصول کے مطابق شہریوں کو یہ حق دیا جاتا ہے کہ وہ فیصلہ سازی کے تمام ریکارڈ تک رسائی حاصل کرسکیں اور ان کو یہ یقین ہو کہ ریاست کے اہلکار جو بھی فیصلے کر رہے ہیں ان میں شفافیت اور انصاف پر پوری توجہ دی جا رہی ہے اور یہ فیصلے قواعدوضوابط کے عین مطابق کیے جا رہے ہیں اور کسی قسم کے شک و شبے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ شفافیت کے اصول پر عمل کرنے کی وجہ سے ہی عوام کا اعتماد حکمرانوں پر رہتا ہے اور حکومتیں کامیابی کے ساتھ چلتی ہیں۔ استعداد بھی گڈ گورننس کا ایک اہم اصول ہے جس کے مطابق ریاست کو بڑی مستعدی کے ساتھ چلایا جاتا ہے اور اس میں کسی قسم کی غفلت کاہلی اور سستی کا شائبہ تک نہیں ہوتا۔ جن ریاستوں میں تاخیری حربے استعمال کیے جاتے ہیں اور سرخ فیتے کا کلچر موجود ہوتا ہے وہ ہمیشہ جمود کا شکار بھی رہتی ہیں اور ان کے منصوبے وقت پر تیار نہیں ہوتے جن کی وجہ سے ان کے اخراجات بڑھتے رہتے ہیں۔ گورننس فعال اور متحرک ہونی چاہیے اور ریاست کے تمام ادارے اور شعبے لوگوں کو کام کرتے ہوئے نظر آنے چاہیے۔ امید ہے کہ نگراں وزیراعظم سب سے پہلے ملک کی گورننس کو بہتر بنانے اور تمام سرکاری اہلکاروں کو ایمانداری کے ساتھ اپنے حصے کا کام انجام دینے کا پابند بنانے پر توجہ دیں گے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں