میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
زندگی اور موت کی یاد کا نبوی طریقہ

زندگی اور موت کی یاد کا نبوی طریقہ

جرات ڈیسک
جمعرات, ۱۴ دسمبر ۲۰۲۳

شیئر کریں

مولانا محمد تبریز عالم قاسمی

 

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم اپنے اصحاب کو تلقین فرماتے تھے کہ جب رات ختم ہو کر تمھاری صبح ہو تو اللہ کے حضور عرض کیا کرو:

اللّٰهمَّ بِکَ أَصْبَحْنَا وَبِکَ أَمْسَیْنَا وَبِکَ نَحْیَا وَبِکَ نَمُوْتُ وإلَیْکَ الْمَصِیْرُ۔

ترجمہ:اے اللہ! تیرے ہی حکم سے ہم نے صبح کی ہے اور تیرے ہی حکم سے ہم نے شام کی ہے، تیرے ہی فیصلہ سے ہم زندہ ہیں اور تیرے ہی حکم سے ہم (وقت آجانے پر) مریں گے اور پھر تیری ہی طرف لوٹ کر جائیں گے۔

اور اِسی طرح جب شام ہو تو عرض کرو:

اللھمَّ بِکَ أمْسَیْنَا وَبِکَ أصْبَحْنَا وَبِکَ نَحْیا وَبِکَ نَمُوْتُ وإلَیْکَ الْنُّشُورُ۔ (ترمذی، رقم:۳۳۹۱)

ترجمہ: اے اللہ! تیرے ہی حکم سے ہم نے شام کی ہے اور تیرے ہی حکم سے ہم نے صبح کی ہے اور تیرے ہی فیصلہ سے ہم زندہ ہیں اور تیرے ہی فیصلہ سے مریں گے اور پھر اٹھ کر تیرے ہی حضور حاضر ہوں گے۔

تشریح: انسانی زندگی میں صبح وشام کے اوقات کو بڑی اہمیت حاصل ہے، ہر شخص کے لیے رات کے بعد صبح اور دن ختم ہونے پر شام آتی ہے اور اِسی آمد ورفت سے زندگی کی ایک ایک منزل طے ہوتی رہتی ہے، صبح وشام کی یہ تبدیلی اپنے اندر راحت کا بڑا سامان رکھتی ہے، اگر رات ہی رات رہے تو انسان عاجز آجائے گا، کاروبار، زندگی رک جائے گا اور اِسی طرح اگر دن ہی دن رہے تو انسانی زندگی تلخ ہوجائے گی، بدن کا نظام درہم برہم ہو جائے گا، معلوم ہوا کہ صبح وشام اللہ کی بہت بڑی نعمت اور نظامِ کائنات کے استحکام کا اٹوٹ حصہ ہیں۔

رسول اللہﷺ نے اپنے ارشادات اور عملی نمونہ سے امت کو ہدایت فرمائی ہے کہ وہ ہر صبح وشام اللہ کی قدرتِ کاملہ او راس کے بے پناہ احسانات کو یاد کرے، اللہ کے ساتھ اپنے تعلق کو تازہ اور مستحکم کرے اور اُن اوقات میں اپنے رب کے سامنے دعائیں کرے، اللہ کے پیارے رسولﷺ  نے مزید احسان فرمایا کہ صبح وشام کی مناسب دعا بھی تلقین فرما دی، ہمیں چاہیے کہ ہم ان دعاؤں کی قدر کریں، انھیں حرزِ جان بنائیں، جس کا مناسب اور موثر طریقہ یہ ہے کہ ہم وہ دعائیں یاد کریں، ان کے مضامین میں غور کریں اور ان کو روزانہ کے معمولات میں داخل کرلیں۔

مذکورہ دعا کے علاوہ صبح وشام کی اور دعائیں بھی منقول ہیں، دعاؤں کو کتابوں سے یاد کرسکتے ہیں، صبح کے وقت پڑھنے کی ایک جامع دعا اوپر لکھی گئی ہے، مذکورہ دعا چوں کہ آسان ہے اور صبح وشام کے الفاظ میں معمولی سا فرق ہے؛ اِس لیے اِسی کا انتخاب کیا گیا ہے، اللہ ہمیں اہتمام کی توفیق عطا فرمائے۔

حکمت اور پیغامِ نبوی

۱- رسول اللہ ﷺ  نے اِس حدیث میں ہدایت فرمائی ہے کہ جب صبح یا شام ہو تو اللہ تعالیٰ کی (صبح و شام والی) نعمت کا احساس واعتراف کیا جائے، اسی کے ساتھ اِس کو بھی یاد کیا جائے کہ جس طرح اللہ کے حکم سے دن کی عمر ختم ہو کر رات آتی ہے اور رات کی عمر ختم ہو کر دن نکلتا ہے، اسی طرح اس کے حکم سے ہماری زندگی چل رہی ہے اور اُسی کے حکم سے مقررہ وقت پر موت آجائے گی اور پھر اللہ کے حضور پیشی ہوگی، غرض یہ کہ روزانہ صبح وشام اللہ کی نعمت کا اعتراف اور موت اور آخرت کو یاد کیا جائے، نہ صبح کو اِس سے غفلت ہو نہ شام کو۔ (معارف الحدیث:۵؍۱۲۰)

۲- مذکورہ دعا میں یہ پیغام ہے کہ شب وروز کا یہ سلسلہ ایک طرف آدمی کو وقت کے گزرنے کا احساس دلائے کہ اس کی مختصر زندگی میں سے ایک دن اور کم ہوگیا ہے اور وہ اپنے انجام سے روز بہ روز قریب سے قریب تر ہوتا چلا جارہا ہے تو دوسری طرف یہ سلسلہ اسے زندگی اور موت کا بہ اندازِ تمثیل مشاہدہ کرائے، وہ دن کی چہل پہل اور سرگرمیاں دیکھنے کے بعد یہ دیکھے کہ رات نے کس طرح ہر چیز پر موت طاری کر دی ہے، چرند پرند، انسان و حیوان، سب نیند کی آغوش میں جا سوتے ہیں اور پھر وہ خود نیند کی پر سکون وادی میں اتر کر موت کے تجربے سے گزرے۔

۳- فطرت کے سب مظاہر انسان کی یاد دہانی کے لیے ہیں، مگر انسان اپنے کاموں میں گم ہو کر ان مَظاہرِ فطرت سے عبرت حاصل نہیں کرتا، بلکہ ان بڑے بڑے تغیرات کو بھی وہ معمول کے چھوٹے چھوٹے واقعات کی طرح توجہ دیے بغیر آگے بڑھ جاتا ہے، ان اوقات میں یہ دعا اِسی لیے سکھائی گئی ہے کہ یہ دعا بندۂ مومن کی توجہ ان مظاہر کی طرف مبذول کرے، تاکہ وہ ان آیات ِ الہٰی میں غور و فکر کرکے ان حقائق کو اپنے ذہن میں تازہ کرے، جنھیں وہ اپنے کاموں میں مصروف ہوکر بھلا چکا تھا۔

دینِ اِسلام نے یاد دہانی کا ا یسا نظام اِس لیے قائم کیا ہے تاکہ آدمی زندگی کی چہل پہل میں اپنے رب کو بھول کر کہیں شر کی بھول بُھلیاں پر نہ جانکلے، چناں چہ دین اسے ہر موڑ پر یہ احساس دلاتا ہے کہ وہ خدا کے حضور پیش ہونے کے لیے خواہی نہ خواہی آگے بڑھ رہا ہے۔

۴- مذکورہ دعا میں صبح و شام میں حاصل ہونے والی نعمتوں پر شکر ِالہٰی کی ادائیگی کا پیغام ہے اور اللہ تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ کا اعتراف و استحضار کر کے اپنی عبدیت، بندگی اور عاجزی کا اِظہارِ کامل ہے۔

اللہ تعالیٰ ہم تمام مسلمانوں کو مسنون دعاؤں کے اہتمام کی توفیق عطا فرمائے! آمین۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں