میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
حکومت شدید دباؤ میں، نیا آرمی چیف کون؟ ،شریف برادران میں حتمی نام پر اختلاف

حکومت شدید دباؤ میں، نیا آرمی چیف کون؟ ،شریف برادران میں حتمی نام پر اختلاف

ویب ڈیسک
پیر, ۱۴ نومبر ۲۰۲۲

شیئر کریں

(خصوصی رپورٹ:باسط علی) پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت میں نئے آرمی چیف کی تعیناتی پر غور جاری ہے۔ مگر یہ معاملہ جس قدر حساس ہے، اس سے کہیں زیادہ اِسے خود شریف برادران کے صلاح مشوروں کے عمل نے سنگین بنا دیا ہے۔ مسلم لیگ نون کے ایک اہم ذریعے نے اس نمائندے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ قائد نون لیگ نوازشریف کے لیے یہ تعیناتی ہمیشہ ایک مسئلہ رہی ہے اور اُنہیں سیاست کے موجودہ گرداب تک پہنچانے میں یہی تعیناتی اور اس سے متعلق امور نہایت پریشان کن عوامل رہے ہیں۔ اس دفعہ فوجی سربراہی کی جادوئی چھڑی کسی کے ہاتھ لگے، شریف برادران کے لیے یہ مسئلہ رہے گا کہ اُنہوں نے ایک مرتبہ پھر آرمی چیف کے انتخاب کے حساس ترین معاملے کو کس انداز سے حل کیا؟ شریف برادران یہ امر فراموش کردیا کہ آرمی چیف کا منصب پاکستان میں کس درجہ حساسیت کا حامل ہے۔ ایک طرف پاکستا ن کے سب سے مقبول رہنما عمران خان لانگ مارچ کے لیے سڑکوں پر عوام کو لاچکے ہیں۔ اُنہوں نے حکومت کے خلاف گفتگو میں آرمی چیف کی تعیناتی کو بھی ایک موضوع بنایا ہے۔ درست یا غلط طریقے سے عمران خان نے مگر یہ ایک سوال بنا دیا ہے کہ اگر آرمی چیف کی تعیناتی وزیراعظم کا ہی حق ہے تو وزیراعظم یہ تعیناتی کرتے ہوئے لندن اپنے بھائی کے پاس کیا کررہے ہیں؟ قائد نون لیگ کے طور پر نوازشریف کے پاس ایسا کوئی اختیار نہیں کہ وہ اس اہم ترین تعیناتی پر کسی بھی طرح اثرانداز ہوں، مگر پاکستان میں سیاست خالص آئینی تقاضوں کے تحت کب ہوئی ہے۔ یہاں شخصیات ہی جماعتوں اور حکومتی مناصب پر حاوی ہوتی ہے۔ لہذادرست یا غلط نئے آرمی چیف کے انتخاب کا معاملہ نوازشریف کی صوابدید پر انحصار کرتا ہے۔ جبکہ دوسری طرف خود فوجی قیادت بھی نئے آرمی چیف کے انتخاب میں ہمیشہ اپنی ترجیح کا ایک دباؤ رکھتی ہے۔پاکستان کے گزشتہ تین برسوں کے عمومی اور ایک برس کے خصوصی حالات میںرخصتی دروازے کی طرف گامزن آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجود ایک انتہائی اثر ڈالنے والی قیادت کے طور پر نئے آرمی چیف کے حوالے سے کیا سوچتے ہیں، یہ بھی سب سے بڑا سوال ہے؟ نواز لیگ کے اندرونی ذرائع کے مطابق ترجیحات کا یہی ٹکراؤ لندن میں وزیراعظم شہباز شریف اور نون لیگ کے قائد نواز شریف کے درمیان صلاح مشوروں کے عمل کو طویل کرنے کا باعث بنا ہے۔ انتہائی ذمہ دار ذرائع کے مطابق وزیر اعظم شہبازشریف کے پاس جو نام موجود ہے، وہ نوازشریف کی خواہش کا آئینہ دار نہیں۔ جس کے باعث شہباز شریف کو لندن میں اپنے قیام کو طویل کرنا پڑا۔ شہباز شریف کو اپنے پروگرام کے مطابق جمعہ کی شب پاکستان پہنچنا تھا۔ مگر وہ اب پیر کو کسی وقت پاکستان پہنچیں گے۔ اُن کے اگلے دو تین روز کے قیام کے پیچھے اگر چہ اُن کی طبیعت کی خرابی کو ایک جواز کے طور پر پیش کیا گیا، دوسری طرف ڈیلی میل کے ساتھ جاری مسئلے میں لندن کی عدالت کے ایک فیصلے نے بھی کچھ قیاس آرائیوں کو جنم دیا، مگر شہباز شریف دراصل نئے آرمی چیف کی تعیناتی کے معاملے میں کسی متفقہ حل کی طرف نہ پہنچنے کے باعث شدید دباؤ میں دکھائی دیتے ہیں۔ دوسری طرف نون لیگ کے لیے اب یہ بھی ایک مسئلہ ہے کہ وہ اس اعلیٰ ترین منصب کی تعیناتی کے معاملے میں اپنے اتحادیوں میں سب سے اہم دوجماعتوں کے قائدین آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمان کے ساتھ کیا ہم آہنگی پیدا کرپائیں گے؟ان دونوں رہنماؤں کا جھکاؤ بھی بوجوہ کافی پیچیدگیاںپیدا کرسکتا ہے۔واضح رہے کہ نواز لیگ کے حکومت میں شامل نہایت اہم وزراء بھی اس سوال کا کوئی جواب نہیں رکھتے کہ اگلا آرمی چیف کون ہوگا؟ وہ شریف برادران کی ملاقاتوں کی صورتِ حال سے خود بھی اتنے ہی بے خبر دکھائی دیتے ہیں جتنے عام لوگ۔ کیونکہ اُن اہم ترین رہنماؤں سے بھی اعلیٰ قیادت میں سے کسی نے کوئی بات چیت نہیں کی۔اس حکمت عملی پیچھے دراصل یہ خطرہ موجود ہے کہ کوئی ایسا نام جو عسکری حلقوں میں اس وقت کی غالب قوت کی مرضی کے برخلاف ہوا تو بساط اُلٹ بھی سکتی ہے۔ اور ردِ تدبیر زیادہ خطرناک نتائج پیدا کرسکتی ہے۔ لہذا شریف برادران اس معاملے میں کافی اندیشوں کے شکار ہیں۔ اگرچہ اس حوالے سے ایک سادہ فقرہ یہ زیر گردش رہا ہے کہ شریف براداران کے صلاح مشوروںمیں فوج کے سب سے سینئر امیدوار کو سربراہ ہونا چاہئے، مگر یہ سادہ فقرہ حقیقی صورت حال کی عکاسی نہیں کر رہا۔ کیونکہ اس معاملے میں بھی یہ بات زیادہ اہم ہے کہ فوجی سربراہ کی تعیناتی کی سمری کب زیر غور لائی جائے گی۔ اسی ماہ میں مختلف تاریخوں کی اُلٹ پھیر سے سینئر امیدواروں کے نام تبدیل ہوجاتے ہیں۔ لہذا یہ سادہ بیان بھی کافی پیچیدگیاں پیدا کررہا ہے۔ لندن میں موجود نواز لیگ کے ایک اہم ترین رہنما نے جرأت سے بات چیت کرتے ہوئے رازداری کی شرط پر اپنا یہ احساس لفظوں میں بیان کیا کہ حالیہ صورتِ حال میں یہ خطرہ موجود ہے کہ ریٹائر ہونے والے آرمی چیف اور آنے والے آرمی چیف دونوں ہی موجودہ طریقہ کار کے باعث اپنے منہ کا ذائقہ خراب کر بیٹھیں۔ کیونکہ اس عمل میں احتیاط بھی مسائل پیدا کرنے کا موجب بن رہی ہے۔ نون لیگی رہنما کے مطابق نواز شریف کی جانب سے آرمی چیف کے سب سے سینئر رہنما کے طور پر تقرری کی رائے سے وزیراعظم شہباز شریف سمیت پاکستان میں موجود سینئر رہنماؤں کا اختلاف ہے۔ چنانچہ یہ خطرہ موجود ہے کہ آرمی چیف کی طرف سے نام پیش کیے جانے پر نئے ناموں کی طلبی یا کچھ اہم اقدامات کی جو توقعات نون لیگ کی اعلیٰ قیادت شہبازشریف سے رکھتے ہیں، وہ عسکری حلقوں کے دباؤ کے باعث ایسا کر پائیں گے یا نہیں؟نون لیگی رہنما کے مطابق یہی وہ پہلو ہے جو اگلے دنوں میں بھی ہمارے لیے پریشانی کاباعث بنا رہے گا۔ ایسا لگتا ہے کہ عمران خان سے زیادہ خود نون لیگی رہنماؤں کا حالیہ طرزِ عمل اس پورے عمل کو زیادہ سنگین بنارہا ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں