میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
اسلام کا فلسفہ زکوٰۃ

اسلام کا فلسفہ زکوٰۃ

جرات ڈیسک
منگل, ۱۲ مارچ ۲۰۲۴

شیئر کریں

مولانا محمد الیاس گھمن

اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اکثر مقامات پر صلوٰۃ کے ساتھ زکوٰۃ کی ادائیگی کا حکم فرمایا ہے۔ زکوٰۃ؛ارکانِ اسلام میں سے ایک رکن ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ دولت صرف چند ہاتھوں تک محدود ہو کر نہ رہ جائے بلکہ مستحقین اور ضرورت مند لوگ بھی اس سے فائدہ اٹھائیں۔ اسلام نے جہاں زکوٰۃ کے فضائل، فوائد، شرائط، نصاب، اَقسام، اَحکامات اورمسائل کو ذکر کیا ہے وہاں پر اس فریضے کو چھوڑنے، اس میں غفلت سے کام لینے والے کے بارے میں وعیدیں بھی ذکرفرمائیں ہیں۔ اس بارے میں دلائل شریعت کی روشنی میں چند باتیں پیش خدمت ہیں۔
اللہ کی رحمت کے مستحق
مفہوم آیت:نماز قائم کرو، زکوٰۃ ادا کرو اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل تابعداری کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔(سورۃ النور، رقم الآیۃ:56)
آخرت میں خوف نہیں ہوگا
مفہوم آیت:اس میں کوئی شک نہیں کہ جو لوگ ایمان لائے، نیک اعمال کیے بطور خاص نماز کو قائم کیا اور زکوٰۃ ادا کی ان کے لیے ان کا اجر ہے ان کے رب پاس اور(قیامت کے دن)نہ اپنے بارے میں خوف زدہ ہوں گے اور نہ دوسروں کے بارے غمزدہ ہوں گے۔(سورۃ البقرۃ، رقم الآیۃ:277)
آخرت میں اجر عظیم
مفہوم آیت:اور وہ لوگ جو نماز کو قائم کرنے والے ہیں، زکوٰۃ ادا کرنے والے ہیں اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان(یعنی عقیدہ توحید سے عقیدہ آخرت تک تمام عقائد)رکھنے والے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں کہ ہم عنقریب(قیامت والے دن)انہیں بہت بڑا اجر دیں گے۔(سورۃ النساء، رقم الآیۃ:162)
ترک زکوٰۃ پر سخت وعید
مفہوم آیت:جو لوگ سونا وچاندی جمع کرکے رکھتے ہیں اور ان کو اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے (یعنی زکوٰۃ نہیں نکالتے)تو اے نبی آپ ان کو ایک بڑے دردناک عذاب کی خبر سنادیجئے۔جس دن اس مال کو جہنم کی آگ پر تپایا(گرم کیا)جائے گا پھر اس تپے ہوئے مال سے زکوٰۃ نہ دینے والوں کی پیشانیاں اور پیٹھیں داغی جائیں گی(اور ان سے کہا جائے گا کہ)یہ وہی مال ہے جو تم نے اپنی ذات کے لیے جمع کیا تھاتو اب اس جمع کرنے کا مزہ چکھو۔(سورۃ التوبۃ، رقم الآیات: 34 تا 35)
فائدہ:کرنسی وغیرہ کو ایسی چیز میں تبدیل کر دیا جائے گا کہ جس کو آگ پر تپایا جا سکتا ہے اور پھر اس کو تپا کر داغا جائے گا۔
زکوٰۃ نہ دینے والی کی نماز
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہمیں (اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے)نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ ادا کرنے کا حکم دیا گیا۔ جس نے(باوجود صاحب نصاب ہونے کے)زکوٰۃ ادا نہ کی تو اس کی نماز بھی قبول نہیں۔ (المعجم الکبیر للطبرانی، رقم الحدیث:10095)
مال کے فرض حق کی ادائیگی
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تو اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کر دی تو تیرے اوپر جو تیرے مال کا فرض حق تھا وہ ادا کر دیا۔(سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث:1788)
مال کے نقصان دہ پہلو کا خاتمہ
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ایک شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ اس شخص کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے جس نے اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کر دی ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کے مال کا شر(نقصان دہ پہلو)ختم ہو گیا۔(المعجم الاوسط للطبرانی، رقم الحدیث:1579)
اس کے چند ضروری مسائل پیش خدمت ہیں۔
نصاب
ساڑھے باون تولے یعنی 612.36 گرام چاندی یاساڑھے سات تولے یعنی 87.5 گرام سونے کو نصاب کہا جاتا ہے۔
صاحبِ نصاب
ساڑھے باون تولے یعنی 612.36 گرام چاندی یاساڑھے سات تولے تولے یعنی 87.5 گرام سونا یا ان میں سے کسی ایک کی قیمت کے برابر پیسے یا سامانِ تجارت جس شخص کے پاس موجود ہے اور اُس پر ایک سال گزر گیا ہے تو اُس کو صاحبِ نصاب کہا جاتا ہے۔
زکوۃ کس پر واجب ہے؟
ہر وہ عاقل بالغ مسلمان جس کی ملکیت میں ساڑھے باون تولے چاندی یا ساڑھے سات تولے سونے کی قیمت کے برابر نقدی، چاندی، سونا یا مال تجارت موجود ہو اس پر زکوۃ واجب ہے۔ اگر صرف سونا ہو تو ساڑھے سات تولہ پر زکوۃ واجب ہوتی ہے۔ اگر کچھ نقد رقم، کچھ مال تجارت اور کچھ چاندی ہویا ان میں سے کوئی دو چیزیں ہوں اور ان کی مجموعی قیمت ساڑھے باون تولے چاندی کے برابر ہوجائے تو زکوۃ واجب ہوگی۔ جس دن آپ کی ملکیت میں مذکورہ نصاب کے برابر پیسے آجائیں وہ دن آپ کے لیے زکوۃ کا دن ہے۔ اگر یاد نہ ہو تو پھرہجری سال کی کوئی تاریخ مقرر کرلیں اور ہر سال اسی تاریخ کو حساب کیا کریں۔ درمیان سال میں پیسے آتے جاتے رہیں تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ مقرر کردہ تاریخ کو آپ کی ملکیت میں جتنا مال موجود ہے اس پر زکوۃ واجب ہوگی۔ کل مال کا چالیسوں حصہ یا اڑھائی پرسنٹ(2.5فیصد) زکوۃ کی مد میں دینا فرض ہے۔زکوۃ ایڈوانس میں بھی دے سکتے ہیں اور بعد میں بھی دی جاسکتی ہے۔ بس یہ ذہن میں رکھیں کہ جس تاریخ کو زکوۃ کا حساب کرنا ہے وہ تاریخ تبدیل نہ ہو۔ ہر سال اسی تاریخ کو حساب کر لیا کریں۔ نابالغ پر زکوۃ فرض نہیں ہوتی۔ لڑکی کے بالغ ہونے کی کم از کم عمر 9 سال اور لڑکے کی 12 سال ہے۔ اس عمر میں پہنچنے کے بعد جب بلوغت کی علامات ظاہر ہوں، انہیں بالغ سمجھا جائے گا۔ اگر بلوغت کی علامات ظاہر نہ ہوں تو قمری سال کے اعتبار سے 15 سال کے بعد لڑکے اور لڑکی کو بالغ سمجھا جائے گا اگر اس سے پہلے بلوغت کی علامات ظاہر ہو جائیں تو جب علامات ظاہر ہوں اس وقت بالغ سمجھے جائیں گے۔
زکوۃ کے وجوب کی شرائط
زکوٰۃ کے وجوب کی شرائط درج ذیل ہیں: اسلام، بلوغ، عقل، نصاب۔ ہر آدمی کا زکوۃ کا حساب الگ ہوتا ہے؛ خاوند کا الگ، بیوی کا الگ، ماں کا الگ، بیٹی کا الگ… گھر میں ہر آدمی کا زکوۃ کا حساب الگ الگ ہوتا ہے۔ جو جو صاحب نصاب ہو گا اس پر زکوۃ واجب ہوگی۔
زیورات پر زکوۃ
خیر القرون سے عصر حاضر تک کے جمہورعلماء،وفقہاء اور محدثین‘ قرآن وسنت کی روشنی میں عورتوں کے سونے یا چاندی کے استعمالی زیور پر وجوب زکوٰۃ کے قائل ہیں، اگر وہ زیور نصاب کے مساوی یا زائد ہو اور اس پر ایک سال بھی گزر گیا ہو۔قرآن وسنت کے عمومی احکام میں سونے یا چاندی پر بغیر کسی استعمالی یا غیر استعمالی شرط کے زکوٰۃ واجب ہونے کا ذکر ہے اور ان آیات واحادیث شریفہ میں زکوٰۃ کی ادائیگی میں کوتاہی کرنے پر سخت ترین وعیدیں وارد ہوئی ہیں۔ متعدد آیات واحادیث میں یہ عموم ملتا ہے۔
مفہوم آیت:اور جو لوگ سونا چاندی جمع کرکے رکھتے ہیں اور اسے اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ نہیں کرتے(یعنی زکوۃ ادا نہیں کرتے) انہیں دردناک عذاب کی خبر دیجیے۔(سورۃالتوبۃ، رقم الآیۃ:34)
اس آیت میں عمومی طور پر سونے یا چاندی پر زکوٰۃ کی عدم ادائیگی پر دردناک عذاب کی خبر دی گئی ہے خواہ وہ استعمالی زیور ہوں یا تجارتی سونا و چاندی۔ حضرت اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں:میں اور میری خالہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں، ہم نے سونے کے کنگن پہن رکھے تھے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: کیا تم اس کی زکوٰۃ ادا کرتی ہو؟ ہم نے کہا: نہیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم ڈرتی نہیں کہ کل قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ان کی وجہ سے آگ کے کنگن تمہیں پہنائے؟ لہٰذا ان کی زکوٰۃ ادا کرو۔

پراپرٹی پر زکوۃ
• رہائش کی نیت سے خریدی گئی زمین یا گھر، اس پر زکوۃ لازم نہیں ہوتی۔
•جو دُکان اس غرض سے خریدی ہو کہ اس میں کاروبار کیا جائے گا تو اس دُکان کی ویلیو پر بھی زکوۃ واجب نہیں ہوتی۔
•پراپرٹی خریدتے وقت اگر کوئی نیت نہ کی ہو کہ اس کو بیچنا ہے یا رہائش اختیار کرنی ہے تو اس پر بھی زکوۃ نہیں ہے۔
•جو پراپرٹی تجارت کی نیت سے لی ہو کہ اس کو فروخت کر کے نفع کمایا جائے گا تو ایسی تمام پراپرٹیز اگر نصاب کے بقدر ہوں تو ہر سال ان کی موجودہ ویلیو کا حساب کر کے کل مالیت کا ڈھائی فیصد بطور زکوۃ ادا کرنا شرعا ًلازم ہوگا۔
•اگر پراپرٹی کرایہ پر دی ہو تو اس پراپرٹی کی مالیت پر زکوۃ لازم نہیں ہوگی، البتہ اگر حاصل ہونے والا کرایہ جمع ہو اور پراپرٹی کا مالک پہلے سے صاحبِ نصاب ہو یا جمع شدہ کرایہ ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے برابر یا اس سے زیادہ ہو تو سالانہ اس پر زکوۃ ادا کرنا لازم ہوگا۔ اگر کرایہ خرچ ہوجاتاہو، بچت میں جمع نہ ہوتا ہو تو اس کرائے پر زکوۃ نہیں ہوگی۔
•قسطوں پر خریدا ہوا پلاٹ اگر تجارت کی نیت سے خریدا ہو تو اس پر بھی زکوۃ واجب ہے،خواہ قبضہ ملا ہو یا نہ ملا ہو۔ اس کی موجودہ قیمتِ فروخت کا اڑھائی فی صد بطورِ زکوۃ ادا کرنا لازم ہے۔
•تجارت کی نیت سے خریدی ہوئی پلاٹ کی فائل کی موجودہ قیمت پر بھی زکوٰۃ واجب ہوتی ہے۔
•زرعی زمین اگر تجارت کی نیت سے خریدی جائے تو اس پر بھی زکوۃ واجب ہے۔ اگر زراعت کی نیت سے خریدی جائے تو زکوۃ واجب نہیں۔
زکوۃ کس کو نہیں دے سکتے
•زکوۃ کی رقم حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان کے لیے حلال نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان سے مراد ہیں: آل علی، آل عقیل، آل جعفر، آل عباس اور آل حارث بن عبد المطلب رضی اللہ عنہم۔ جو شخص مذکورہ پانچ بزرگوں کی نسل سے ہو اسے زکوۃ نہیں دے سکتے، ان کی مدد کسی اور ذریعے سے کرنی چاہیے۔
•اصل یہی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان یعنی بنو ہاشم کو زکوٰۃ نہیں دے سکتے۔ عام طور پر جو مشہور ہے کہ صرف سید کو زکوۃ نہیں دے سکتے یہ ادھوری بات ہے۔ سادات کے علاوہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان کے دیگر افراد کو بھی زکوۃ نہیں دی جا سکتی اور نہ ہی صدقات واجبہ دیے جا سکتے ہیں۔
•اگر میاں بیوی میں سے کوئی ایک بنی ہاشم سے ہو اور دوسرا غیر بنی ہاشم سے ہو تو جو غیر بنی ہاشم سے ہو اس کو زکوۃ دی جا سکتی ہے۔ اگر باپ بنی ہاشم سے ہو تو اس کی اولاد بھی بنی ہاشم سے شمار ہوگی۔ اگر باپ غیر بنی ہاشم سے ہو، بیوی بنی ہاشم سے ہو تو اولاد غیر بنی ہاشمی شمار ہوگی کیونکہ نسب میں باپ کا اعتبار ہوتا ہے، ماں کا نہیں۔
•کافر کو زکوۃ دینا جائز نہیں۔
•ایسی این جی اوز اور ادارے جو شرعی حدود کا لحاظ نہیں کرتے، انہیں زکوۃ دینا جائز نہیں۔
•شوہر اور بیوی ایک دوسرے کو زکوۃ نہیں دے سکتے۔
•اپنے آباء و اجداد یعنی ماں باپ، دادا دادی، نانا نانی وغیرہ اور اپنی آل اولاد یعنی بیٹا بیٹی، پوتا پوتی، نواسہ نواسی وغیرہ کو زکوۃ دینا جائز نہیں۔ ان کے علاوہ باقی رشتہ داروں کو زکوۃ دے سکتے ہیں۔
•مسجد میں زکوۃ کی رقم نہیں دے سکتے۔
•مستحق ملازمین کو بطور تنخواہ زکوۃ کی رقم دینا جائز نہیں۔
زکوۃ کس کو دے سکتے ہیں
ہر ایسے مسلمان کو جس کی ملکیت میں ساڑھے باون تولے(612.36 گرام) چاندی یا اس کی مالیت کے بقدر سونا، نقد رقم، مال تجارت یا روزمرہ کی استعمال سے زائد اشیاء نہ ہوں وہ زکوۃ اور صدقات واجبہ کا مستحق ہے۔
جس کو زکوۃ کی رقم دیں اسے بتانا ضروری نہیں۔ اسے صرف یہ کہہ کر دے سکتے ہیں کہ یہ آپ کے لیے کچھ پیسے ہیں اپنی ضروریات میں استعمال کریں۔
زکوۃ کا بہترین مصرف
•مستحق رشتہ دار ہیں اس میں دُہرا ثواب ہے۔ ادائیگی زکوۃ اور صلہ رحمی۔
•دینی مدارس ہیں کہ اس میں بھی دگنا ثواب ہے اشاعت وتحفظ دین اور ادائیگی زکوۃ۔
کاروباری قرضے
وہ تجارتی یا کاروباری قرضے جو کاروباری اغراض مثلاً فیکٹری لگانے یا مشینری خریدنے کی خاطر لیے جاتے ہیں۔ ان کا حکم یہ ہے کہ اگر ان قرضوں سے قابل زکوۃ اشیاء خریدی گئی ہیں مثلاً خام مال وغیرہ تو ان پر زکوۃ نہیں لہٰذا انہیں ما ل زکوۃ کے نصاب کے مجموعے سے منہا کیا جائے گا کیونکہ اس خام مال کی زکوۃ ویسے بھی دیناہی ہوگی اور اگر غیر قابل زکوۃ اشیاء خریدی گئی ہیں مثلاً: مشینری، بلڈنگ وغیرہ تو ایسے قرضے نصاب کے مجموعے سے منہا نہیں ہوں گے؛ ان قرضوں پر زکوۃدینی چاہیے۔
طویل المیعادی قرضے
سرمایہ دار اور بڑے کاروباری لوگ بینکوں سے جو بڑی رقومات طویل مدت کے لیے بطور قرض لیتے ہیں، ان کاروباری قرضوں کا حکم یہ ہے کہ ہر سال جتنی قسط کی رقم واجب الادا ہوتی ہے، صرف اتنی ہی رقم اصل سرمایہ سے منہا کی جائیگی اور بقیہ قرض کو مالِ زکوۃ کے نصاب سے منہا نہیں کیا جائے گا، بلکہ بقیہ کل مالیت کا حساب لگاکر زکوٰۃ ادا کی جائے گی۔ اسی طرح اگر کسی نے انفرادی طور پر بھی طویل المیعادی قرض لیا ہو تو صرف موجودہ ایک سال (زکوۃ کے حساب والے سال) کی واجب الادا رقم اس کی قابلِ زکوۃ رقم سے منہا کی جائے گی۔ آئندہ سالوں میں واجب الادا رقم کل حساب سے منہا نہیں کی جائے گی۔
سال گزرنے سے مراد
”ایک سال مال پر گزر جائے” اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہر ہر روپے یا مال پر مستقل سال گزرے۔ سال گزرنے سے مراد یہ ہے کہ جس تاریخ میں آپ کے پاس پیسہ یا نصاب موجود ہو، وہ تاریخ طے کرلیں۔ یہ تاریخ قمری (چاند کی) تاریخ ہونی چاہیے۔ اگر تاریخ یاد نہ ہو تو کوئی بھی قمری تاریخ طے کرلیں اور آئندہ سال جب وہی تاریخ آئے اس وقت حساب کرلیں، سال کے درمیان میں پیسے آتے جاتے رہیں، اس سے فرق نہیں پڑتا۔ فرض کریں گزشتہ سال 10 رمضان کو اگر آپ 5 لاکھ روپے کے مالک تھے، جس پر ایک سال بھی گزر گیا تھا۔ زکوٰۃ ادا کردی گئی تھی۔ اِس سال رمضان تک جو رقم آتی جاتی رہی اُس کا کوئی اعتبار نہیں، بس اِس رمضان میں دیکھ لیں کہ آپ کے پاس اب کتنی رقم ہے، اور اُس رقم پر زکوٰۃ ادا کردیں۔ مثلاً اِس رمضان میں 6 لاکھ روپے آپ کے پاس قرض نکال کر باقی بچ گئے ہیں تو 6 لاکھ پر 2.5 فیصد زکوٰۃ ادا کردیں۔
غلط فہمی کا ازالہ
بعض لوگ رجب کو زکوۃ کا مہینہ سمجھتے ہیں اور بعض شعبان کو اور کچھ لوگ رمضان کو زکوۃ کا مہینہ سمجھتے ہیں اور اسی مہینے میں زکوۃ ادا کر تے ہیں۔ یہ بات درست نہیں۔ قمری تاریخ کے اعتبار سے جس تاریخ کو نصاب کے پیسے پورے ہو جائیں، وہی زکوۃ کی تاریخ ہے اور وہی زکوۃ کا مہینہ ہے۔ اگر وہ تاریخ یاد نہ ہو تو کوئی ایک تاریخ طے کرلی اور آئندہ ہر سال اسی تاریخ کو حساب کیا کریں۔دوسری بات یہ سمجھ لیں کہ اس تاریخ کو حساب کرنا ضروری ہے، ادا جب چاہیں کر سکتے ہیں، رمضان میں کریں یا غیر رمضان میں۔ یکمشت ادا کریں یا تھوڑے تھوڑے کر کے دونوں طرح ٹھیک ہے۔ اللہ تعالی عمل کی توفیق نصیب فرمائے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں