میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
سلام کے آداب وفضائل

سلام کے آداب وفضائل

منتظم
جمعرات, ۱۲ جنوری ۲۰۱۷

شیئر کریں

مفتی محمدزبیرعبدالمجید زمزمی
مذہب اسلام ہی ایک ایسادین ہے جس کے ہرہرحکم اورادب میں بے شمارفائدے،حکمتیں اورسہولتیں ہیں۔ لہذاہمیں چاہئے کہ ہم اپناہرکام اورہرعمل پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کے مطابق کریں۔معاملات ہوں یا معاشرت،عبادات ہوں یاآپس کے تعلقات وملاقات،ہرموقع ومحل کے لئے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آداب سکھلائے ہیں۔مثلًاجب کسی مسلمان بھائی سے ملاقات ہویاملاقات کرکے رخصت ہونے لگیں۔اسی طرح گھرمیں داخل ہوں یاگھر والوں سے ملاقات کی خوشی ،آپس کے تعلق،الفت اورمحبت کے اظہارکے لئے پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں جوطریقہ سکھایاہے وہ ہے”سلام کرنا“۔
سنن ابی داو¿دمیں حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ ہم اسلام سے پہلے ملاقات کے وقت آپس میں ”انعم اللہ بک عینًا“(اللہ تمہیں آنکھوں کی ٹھنڈک نصیب کرے)اور”انعِم صباحًا“(تمہاری صبح خوشگوارہو)کہاکرتے تھے۔جب ہم لوگ جاہلیت کے اندھیرے سے نکل کراسلام کی روشنی میں آگئے توہمیں اس کی ممانعت کردی گئی۔یعنی اس کے بجائے ہمیں ”السلام علیکم“کی تعلیم دی گئی۔
آج بھی اگرکوئی غورکرے توحقیقت یہ ہے کہ اس سے بہترکوئی کلمہ محبت،تعلق،اکرام اورخیراندیشی کے اظہار کے لئے سوچانہیں جاسکتا۔ذرااس کی معنوی خصوصیات پرغورکیجئے،یہ بہترین اورنہایت ہی جامع دعائیہ کلمہ ہے،اس کا مطلب ہے کہ اللہ تم کوہرطرح کی سلامتی نصیب فرمائے۔یہ اپنے سے چھوٹوں کے لیے شفقت ،رحمت،پیاراورمحبت کا کلمہ ہے اوربڑوں کے لیے اس میں اکرام اورتعظیم ہے،اورپھر”السلام“اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام بھی ہے۔ قرآن کریم میں یہ کلمہ انبیاءورسل ؑ کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بطوراکرام اوربشارت کے استعمال فرمایاگیاہے۔
الغرض ملاقات کے وقت کے لیے ”السلام علیکم“سے بہترکوئی کلمہ نہیں ہوسکتا۔اگرملنے والے پہلے سے باہم متعارف اورشناساہیں اوران میںمحبت واخوت یاقرابت کی قسم کاکوئی تعلق ہے ،تواس کلمے میں اس تعلق اوراس کی بناپرمحبت، مسرت،اکرام اورخیراندیشی کاپورااظہارہے۔اوراگرپہلے سے کوئی تعارف اورتعلق نہیں ہے تویہ کلمہ ہی تعلق واعتماداور خیرسگالی کاذریعہ بنتاہے اوراس کے ذریعے ہرایک دوسرے کوگویااطمینان دلاتاہے کہ میں تمہاراخیرخواہ اوردعاگوہوں، میرے اورتمہارے درمیان ایک روحانی رشتہ وتعلق ہے۔بہرحال ملاقات کے وقت ”السلام علیکم“اور”وعلیکم السلام“کی تعلیم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نہایت مبارک تعلیمات میں سے ہے،اوراسی لیے آپ نے اس کی بڑی تاکیدفرمائی اوربڑے فضائل بیان فرمائے ہیں۔
یہی سلام باہمی الفت ومحبت کوبڑھانے اوراستوارکرنے کاذریعہ بھی ہے اورجذبات محبت ومسرت کے تبادلے کابہترین طریقہ بھی،اوریہی سلام مسلمانوں کاشعارہے خواہ مردہوں یاعورتیں ۔
”السلام علیکم“کے معنی یہ ہیں:”اللہ تعالیٰ آپ کوہرقسم کی سلامتی اورعافیت سے نوازے،آپ کی جان ومال کوسلامت رکھے،گھربار اوراہل وعیال کوسلامت رکھے،آپ کے متعلقین کوسلامت رکھے،دین وایمان کوسلامت رکھے اورآپ کی دنیاوآخرت بھی سلامت ہو“‘۔
اندازا کیجئے!اگریہ تمام الفاظ شعوری طورپر(سوچ سمجھ کر)آدمی ملاقات کے وقت مخاطب کے لیے اپنی زبان سے نکالے توقلبی مسرت کااظہارکرنے اور خلوص ومحبت ،خیرخواہی اوروفاداری کے جذبات کوظاہرکرنے کے لیے ان سے بہترالفاظ اورکیاہوسکتے ہیں؟
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:”تم جنت میں نہیں جاسکتے جب تک مومن نہ ہوجاو¿ اورتم اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتے جب تک آپس میں ایک دوسرے سے محبت نہ کروکیامیں تمہیں وہ عمل نہ بتاو¿ں جس کے کرنے سے تمہارے درمیان محبت پیداہوجائے؟(وہ یہ ہے کہ)اسلام کوآپس میں خوب پھیلاو¿“۔(ابوداو¿د)
حضرت ابودرداءرضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:سلام کوخوب پھیلاو¿ تاکم تم بلندہوجاو¿“۔(طبرانی)
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:بیٹا!جب تم اپنے گھروالوں کے پاس جاو¿ توسلام کرو،یہ تمہارے لیے بھی باعث برکت ہوگااورتمہارے گھروالوں کے لیے بھی۔
آج ہمارے مسلم معاشرے میں سلام توکیاجاتاہے مگرصرف ان لوگوں کوجن سے پہچان ہوتی ہے کسی اجنبی کوسلام کرنے کی زحمت نہیں کی جاتی جب کہ اسلام کی تعلیم یہ ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھاگیاکہ سب سے بہتر اسلامی خصلت کونسی ہے؟توفرمایا:”کھاناکھلاو¿ اورسلام کرواس کوبھی جس کوتم جانتے ہواوراس کوبھی جس کوتم نہیں جانتے “۔
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کایہ ارشادبھی نقل فرماتے ہیں:”علامات قیامت میں سے ایک علامت یہ ہے کہ ایک شخص دوسرے شخص کوصرف جان پہچان کی بنیادپرسلام کرے گا(نہ کہ مسلمان ہونے کی بنیادپر)۔
لہذاان احادیث سے ہمیں یہ تعلیم ملتی ہے کہ ہم سلام انہی الفاظ سے کریں جوالفاظ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سکھائے ہیں نہ کہ وہ الفاظ جوہمارے معاشرے میں رائج ہوگئے ہیں ورنہ رسمی سلام توہوجائے گالیکن سنت کی تابعداری سے ہم محروم ہوںگے۔اورسلام کوعام کریں چاہے ہم کسی مسلمان کوپہچانیں اوراس سے ہماراسابقہ تعارف ہویانہ
ہوبہرصورت ہرمسلمان کوسلام کرناچاہئے اس لیے کہ سلام میں پہل کرنے والاتکبرسے بری اوراللہ تعالیٰ کامحبوب ہوتاہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں