میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
آپ کے مسائل کا حل اسلام کی روشنی میں

آپ کے مسائل کا حل اسلام کی روشنی میں

ویب ڈیسک
جمعه, ۵ مئی ۲۰۱۷

شیئر کریں

مفتی غلام مصطفی رفیق
کھانے پینے کی چیزوں میں مکھی کاگرنا
سوال:چائے میں مکھی گرجائے تو اُسے پئیں یاچھوڑدیں؟
جواب:مکھی گرنے سے چائے یادیگرمشروبات ناپاک نہیں ہوتے، مکھی کو نکال کر پھینک دیاجائے تو چائے کا پینا درست ہے،البتہ اگر طبیعت متنفر ہورہی ہو اور کوئی نہ پئے تو گناہ گار نہ ہوگا۔چناں چہ ابوداو¿د شریف کی روایت میں ہے:”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جب کسی کے کھانے پینے کے برتن میں مکھی گرجائے،تواس کو غوطہ دے کر نکال دو،کیونکہ اس کے دو بازوو¿ں میں سے ایک میں بیماری(پیداکرنے والا مادہ)ہوتاہے اور دوسرے میں (اس بیماری کے اثر کو دفع کرکے شفادینے والا)مادہ ہوتاہے،اور وہ اپنے اس بازو سے جس میں بیماری والا مادہ ہوتاہے بچاو¿ کرتی ہے،(یعنی جب کسی چیز میں گرتی ہے تو اس کے بل گرتی ہے اور دوسرے بازو کوبچاناچاہتی ہے)توکھانے والے کو چاہیے کہ مکھی کو غوطہ دے کر نکال دے“۔
مذکورہ بالاحدیث کے تحت مولانامحمدمنظور نعمانی رحمہ اللہ نے دل نشیں شرح لکھی ہے، جسے ذیل میں نقل کیاجاتاہے: ”یہ ان حدیثوں میں سے ہے جواس زمانے میں بہت سے لوگوں کے لیے ایمان کی آزمائش کا سبب بن جاتی ہے،حالانکہ اگر فطرت کے اسراروحکمت کے اصولوں اور تجربوں کی روشنی میں غورکیاجائے تو اس میں کوئی ایسی بات نہیں ہے جو خلاف قیاس یامستبعد ہو،بلکہ جوکچھ فرمایاگیاہے وہ دراصل حکمت ہی کی بات ہے۔یہ ایک معلوم ومسلّم حقیقت ہے کہ بہت سے دوسرے حشرات الارض کی طرح مکھی میں بھی ایسامادہ ہوتاہے،جس سے بیماری پیداہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ نے ہر جانورکی فطرت اور طبیعت میں یہ بات رکھی ہے کہ اس کے اندرجوخراب اور زہریلے مادے پیداہوتے ہیں طبیعت مدبّرہ ان کوخارجی اعضاءکی طرف پھینک دیتی ہے۔ اس لیے بالکل قرین قیاس ہے کہ مکھی کے اندرکے اس طرح کے فاسد مادہ کو اس کی طبیعت اس کے بازو کی طرف پھینک دیتی ہو،کیونکہ وہی اس کاخارجی عضو ہے،اور دونوں بازوو¿ں میں سے بھی خاص اس بازو کی طرف پھینکتی ہو جونسبتاً کمزور اور کم کام دینے والاہو،(جس طرح ہمارے داہنے ہاتھ کے مقابلہ میں بایاں ہاتھ)او رہرجانورکی یہ بھی فطرت ہے کہ جب اس کو کوئی خطرہ پیش آئے تووہ زیادہ کام آنے والے اعلیٰ و اشرف عضو کواس سے بچانے کی کوشش کرے،اس لیے یہ بھی قرین قیاس ہے کہ مکھی جب گرے تواس بازوکوبچانے کی کوشش کرے جوخراب مادہ سے محفوظ اور نسبتاًاشرف ہو۔اور جن لوگوں نے اللہ کی مخلوق کے احوال اور ان کی تخلیق میں اللہ تعالیٰ کی حکمت بالغہ کے عجائبات پر غورکیاہے انہوں نے اکثر یہ دیکھاہے کہ جہاں بیماری کاسامان ہے وہیں اس کے علاج کابھی سامان ہے،اس لیے یہ بھی بالکل قرین قیاس ہے کہ مکھی کے اگرایک بازومیں کوئی مضر اور زہریلامادہ ہے تو دوسرے بازومیں اس کا تریاق اور شفاءکامادہ ہو،اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ تعلیم بالکل اصول حکمت کے مطابق ہے،بلکہ دراصل آپ کی اس ہدایت کاتعلق دوسری بہت سی ہدایات کی طرح تحفظِ صحت کے باب سے ہے،اس بناپرکہاجاسکتاہے کہ جوکچھ اس حدیث میں فرمایاگیاہے وہ کوئی فرض یاواجب نہیں ہے جس پرعمل نہ کرنا معصیت کی بات ہو،بلکہ ایک طرح کی طبی رہنمائی ہے۔“ (معارف الحدیث 6/405، ط: دارالا شاعت)
پندرہ شعبان سے متعلق احکام
سوال:شب برا¿ت کے موقع پر قبرستان جانے اور پندرہ شعبان کے روزے نیز اس دن کے اعمال کے بارے میں تفصیلی راہنمائی درکار ہے۔
جواب:پندرہویں شعبان کی شب میں قبرستان جاناکوئی لازم نہیں، نبی کریم علیہ الصلوة والسلام سے اس شب میں محض ایک بارجنت البقیع جاناثابت ہے،لہٰذا کوئی شخص زندگی میں ایک باربھی ایصال ثواب کے لیے اس شب قبرستان چلاجائے تو سنت ادا ہوجائے گی۔اس شب میں کثیرتعدادمیں لوگوں کی مغفرت کی جاتی ہے جیساکہ سنن ترمذی وابن ماجہ کی روایات میں تفصیل موجودہے،لہٰذا اس رات عبادت کااہتمام کرناچاہیے،اور نفلی عبادات میں بجائے اجتماع کے انفرادی طورپرنوافل ،قرآن کریم کی تلاوت اور ذکرواذکارکااہتمام کیاجائے اور اللہ تعالیٰ سے مغفرت مانگی جائے۔نیز پندرہ تاریخ کاروزہ رکھنابھی مستحب ہے،بعض روایات میں اس کا ذکرموجودہے۔ (سنن ابن ماجہ،ص: 209، ط: مکتبہ رحمانیہ لاہور-مشکوة المصابیح، ص: 114، ط:قدیمی)
قرآن کریم میں رکوع اور
منزلوں کی علامات
سوال:قرآن کریم کی سات منزلوں کاکیامطلب ہے ؟اور رکوع کی ترتیب کس نے مقررکی ہے؟
جواب:صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین اور تابعین رحمہم اللہ کامعمول تھاکہ وہ ہرہفتے ایک قرآن مکمل فرماتے تھے،اس مقصد کے لیے انہوں نے روزانہ تلاوت کی ایک مقدار مقررکی ہوئی تھی، جسے ”منزل“کہاجاتاہے،اس طرح پورے قرآن کریم کوسات منزلوں پر تقسیم کیاگیا۔رکوع کی علامات سے متعلق مفتی رشیداحمدلدھیانویؒ لکھتے ہیں:”رکوع اور پاروں کا ثبوت حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں ملتا،مشایخ بخارانے قرآن کریم میں پانچ سو چالیس رکوع لگائے ، تاکہ تراویح میں ہررکعت میں ایک رکوع پڑھاجائے توستائیس رمضان تک ایک ختم ہوجائے“۔مزیدتفصیل کے لیے علوم القرآن از مولانامفتی محمدتقی عثمانی،ص:197 ملاحظہ فرمائیں۔
(معارف القرآن ،جلد اول ، ص: 45، ط: مکتبہ معارف القرآن -احسن الفتاویٰ، 1/490، ط:ایچ ایم سعید)
اپنے سوالات اس پتے پر بھیجیں :
انچارج ”فہم دین“ روزنامہ جرا¿ت ‘ ٹریڈ سینٹر ‘ نویں منزل 907‘ آئی آئی چندریگر روڈ کراچی
masail.juraat@gmail.com


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں