سندھ کے اسکولوں میں طلبا و طالبات نفسیاتی دبا ئوکا شکار ہونے لگے
شیئر کریں
سندھ کے متعدد سرکاری اسکولوں میں غریب اور لاچار طلبا و طالبات نفسیاتی دبائوکا شکار ہونے لگے ہیں،بالخصوص پسماندہ علاقوں میں قائم گرلز اسکولوں کی حالت بدترین نہج پر پہنچ چکی ہے، جہاں ایک جانب تعلیمی نظام کی خراب صورتحال نے طالبات میں قابلیت، کارکردگی اور شعور کی تعمیر جیسے عناصر کو شدید نقصان پہنچایا ہے وہیں دوسری جانب اسکولوں میں غیر نصابی سرگرمیوں کی بندش نے لڑکیوں کی ذہنی اور جسمانی نشونما پر کاری ضرب لگائی ہے، غیر نصابی سرگرمیوں میں سب سے اہم اسپورٹس بیسڈ ایکٹیوٹیز ہیں، کھیلوں پر مبنی پروگرامز نہ صرف بچوں میں خود اعتمادی پیدا کر تے ہیں بلکہ انکی شخصیت اور شعور کی تعمیر و ترقی میں بھی نمایاں کردار ادا کرتے ہیں، اسپورٹس ایکٹیوٹیز بالخصوص خواتین طلبا میں احساسِ تحفظ کو جلاِبخشتی ہیں، جوش و جذبے، عزم و ہمت اور قائدانہ صلاحیتوں کو ابھارنے میں معاون ثابت ہوتی ہیں، تاہم سندھ کے سرکاری اسکولوں میں نہ صرف نصابی نقائص کی بھرمار ہے بلکہ کھیلوں سے متعلق سرگرمیوں کا نام و نشان تک نہیں ہے۔اس تمام تر صورتحال نے والدین کو سخت مایوس کیا ہے، کراچی، گھارو، ٹھٹھہ، بدین، تھرپارکر اور عمر کوٹ میں میڈیا نمائندگان سے بات کرتے ہوئے غریب والدین کاکہنا تھا کہ ہمارے یہاں تو ویسے ہی بچوں کو اسکول بھیجنے کا رواج نہیں تھا لیکن گزرتے وقت نے ہمیں احساس دلایاکہ بچوں کے لیے تعلیم ضروری ہے تاہم اسکولوں کی موجودہ صورتحال دیکھ کر افسوس اور دکھ ہوتا ہے کہ نہ بچوں کو اچھی تعلیم میسرہے نہ ہی کھیل کود کے بہتر مواقع دستیاب ہیں، چنانچہ اب دل یہی چاہتا ہے کہ لڑکوں کو کھیتی باڑی اور محنت مزدوری میں شامل کرلیا جائے جبکہ لڑکیوں کو گھر وں میں کام کاج میں مصروف رکھا جائے، تاہم بچوں کو اسکول نہ بھیجنے کی صورت میں ہم والدین یہ خیال ضرور رکھیں گے کہ ہمارے بچے اگر گھر میں رہ کر پڑھنا، لکھنا چاہیں تو ضرور شوق پورا کریں۔