
والد کی جگہ بیٹی سرکاری نوکری کے لیے اہل قرار
شیئر کریں
عورت کی شناخت، قانونی حقوق اور خودمختاری شادی کے بعد ختم نہیں ہوتی، سپریم کورٹ
شادی شدہ بیٹیوں کو والد کے کوٹے پر نوکری سے محروم کرنا امتیازی اور آئین کے خلاف ہے
سپریم کورٹ نے شادی شدہ بیٹی کو متوفی والد کے سرکاری کوٹے پر نوکری سے محروم کرنے کو غیر قانونی اور امتیازی قرار دے دیا۔ عدالت نے قرار دیا کہ شادی کے بعد عورت کی شناخت، قانونی حقوق اور خودمختاری ختم نہیں ہوتی، اور اسے ملازمت سے محروم کرنا آئین اور قانون دونوں کی صریح خلاف ورزی ہے۔یہ اہم فیصلہ جسٹس منصور علی شاہ نے تحریر کیا، جو نو صفحات پر مشتمل ہے۔ عدالت نے کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کرتے ہوئے درخواست گزار زاہدہ پروین کی برطرفی کو کالعدم قرار دیتے ہوئے ان کی ملازمت کو تمام سابقہ مراعات کے ساتھ بحال کرنے کا حکم دیا۔سپریم کورٹ نے واضح کیا کہ خیبرپختونخوا سول سرونٹس رولز 1989 کے تحت متوفی سرکاری ملازمین کے تمام بچے، بشمول شادی شدہ بیٹیاں، سرکاری نوکری کے اہل ہیں۔ عدالت نے کہا کہ سیکشن آفیسر کی طرف سے ایک وضاحتی مراسلے کے ذریعے رولز میں ترمیم کرنا نہ صرف غیر قانونی بلکہ آئینی اقدار کے بھی منافی ہے۔فیصلے میں کہا گیا کہ شادی شدہ بیٹیوں کو والد کے کوٹے پر نوکری سے محروم کرنا امتیازی سلوک ہے، جو آئین کے آرٹیکل 14 (انسانی وقار)، 25 (برابری کا حق) اور 27 (ملازمتوں میں امتیاز سے تحفظ) کی کھلی خلاف ورزی ہے۔عدالت نے زور دیا کہ عورت کی قانونی اور مالی خودمختاری بنیادی حق ہے، جو شادی پر منحصر نہیں ہو سکتی۔ اسلام میں بھی عورت کو اپنی آمدنی، جائیداد اور مالی معاملات پر مکمل اختیار حاصل ہے، اور پاکستان نے خواتین کے خلاف امتیازی سلوک کے خاتمے کے عالمی کنونشن کی توثیق کر رکھی ہے، جو شادی کی بنیاد پر ملازمت کے حق سے محرومی کو ممنوع قرار دیتا ہے۔ عدالت نے مزید کہا کہ ایسی روایات اور انتظامی اقدامات کو ختم کیا جانا چاہیے جو شادی کی بنیاد پر عورتوں کو عوامی اور قانونی حقوق سے محروم کرتے ہیں۔ عدالتوں اور انتظامی اداروں کو چاہیے کہ وہ اپنے فیصلوں میں صنفی حساس اور غیرجانبدار زبان استعمال کریں۔ ’’شادی شدہ بیٹی شوہر پر بوجھ بن جاتی ہے‘‘ جیسے الفاظ پدرشاہی سوچ کی عکاسی کرتے ہیں اور آئینی اقدار کے منافی ہیں۔فیصلے کے مطابق، درخواست گزار زاہدہ پروین کو 17 مارچ 2023 کو اپنے مرحوم والد کے کوٹے پر خیبرپختونخوا کے ضلع کرک میں گورنمنٹ گرلز پرائمری سکول میں بطور پرائمری ٹیچر تقرری دی گئی تھی۔ یہ تقرری 15 مئی 2023 کو ضلعی تعلیمی افسر نے بغیر کسی شوکاز نوٹس کے تقرری منسوخ کر دی۔یہ فیصلہ 21 فروری 2020 کے ایک مراسلے کی بنیاد پر کیا گیا، جس میں کہا گیا تھا کہ شادی شدہ بیٹی کو والد کے کوٹے پر نوکری کا حق حاصل نہیں۔