میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
ک سے کچرا

ک سے کچرا

منتظم
بدھ, ۵ اکتوبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

shahid-a-khan
شاہد اے خان
آپ نے لاہور دیکھ لیا ،مبارک ہو! آپ پیدا ہوگئے۔ویسے معلوم نہیں یہ کہاوت کس منچلے نے اور کب ایجاد کی تھی کیونکہ اب سے کوئی تین چار دہائیوں پہلے تک لاہور میں ایسی کوئی خاص بات نہیں تھی جس کی وجہ سے اس شہر کو دیکھنے کے بعد بندے کو اپنے پیدا ہونے کا احساس ہوجائے۔شائد معاملہ یہ رہا ہو کہ جو لوگ اس دور کا لاہور دیکھتے تھے ان کے اپنے علاقے اس سے کہیں زیادہ سڑے ہوئے اور بدبو دار ہوتے ہوں گے۔یا پھر یہ ہو سکتا ہے کہ کسی لاہوری نے بزعم خود لاہور کو دنیا کا سب سے شاندار شہر تصور کرتے ہوئے اسے دیکھنے والے کو پیدائش کا سرٹیفکیٹ جاری کر دیا ہو۔اگر ایسا ہے تو اس بندے نے لندن پیرس دیکھنا تو دور کی بات ان شہروں کا نام بھی نہیں سنا ہوگا۔کیونکہ اگر وہ منچلا لندن یا پیرس دیکھ لیتا تو شائد اس کی کہاوت یوں ہوتی جس نے لندن پیرس دیکھ لیا اس نے زندگی میں جنت کی زیارت کرلی۔ آپ سوچ رہے ہوں گے مجھے لاہور کیوں یاد آرہا ہے ، بات یہ ہے کہ میں نے ابھی کچھ عرصہ پہلے لاہور دیکھا ہے اور صاحب ،واقعی کیا خوبصورت شکل نکالی ہے لاہور نے ، جواب نہیں۔ پرانے لاہور کی بات نہ کرتے ہوئے نئے لاہور کی سڑکیں ، فٹ پاتھ ، چوراہے ، پل اور فلائی اوور دیکھیں تو کچھ دیر کے لیے واقعی ایسا لگتا ہے کہ آپ پاکستان سے باہر کے کسی ترقی یافتہ شہر میں چہل قدمی کر رہے ہوں۔ لاہوریو ں کو شاندار سڑکوں کے ساتھ بہترین پبلک ٹرانسپورٹ بھی مل گئی ہے یعنی عام آدمی کے لیے کم پیسوں میں عزت کے ساتھ سفر ممکن ہو گیا ہے۔ویسے آپس کی بات ہے مجھے لاہور کچھ زیادہ ہی خوبصورت اس لیے بھی لگا کہ میرا تعلق کراچی سے ہے۔ جی ہاں وہی شہر کراچی جس کو کبھی روشنیوں کا شہرکہا جاتا تھااورکسی زمانے میں کراچی کو عروس البلاد بھی کہتے تھے۔ عروس دلہن کو کہتے ہیں اور بلاد جمع ہے بلد کی جس کا مطلب ہے شہر۔ شہروں کی یہ دلہن اب بیوہ ہو چکی ہے، اس کی مانگ اجڑ چکی ہے اور غریب کی بیوہ کی طرح کراچی سب کی بھابھی بنا ہوا ہے۔ کراچی والے کو لاہور دیکھ کر ایسا ہی جھٹکا لگتا ہے جیسا کسی کچرا کنڈی کے سامنے رہنے والے کو پارک فیسنگ مکان میں رہنے سے لگ سکتا ہے۔ مجھے بھی لاہور دیکھ کر ایسا ہی جھٹکا لگا اور دوسرا جھٹکا لاہور سے دوبارہ کراچی لوٹنے پر لگا۔ بزنس ٹرین کے کینٹ اسٹیشن پہنچتے ہی احساس ہوا کہ کسی اجڑے دیار میں داخل ہو گئے ہوں۔ایک طرف اسٹیشن پر پھیلی گندگی اور دوسری طرف ٹوٹی پھوٹی اور رنگ و روغن سے محروم دیواریں کراچی آنے والے مسافروں کا استقبال کرتی ہیں۔اسٹیشن سے باہر آئیں تو ٹوٹی پھوٹی سڑکیں اور ان پرہر طرف کوڑے کچرے کا نظارہ۔ بدحال سڑکیں اور اس پراس سے زیادہ بدحال مسافر بسیں جو ستر کی دہائی سے اب تک اپنا وجود بچائے رکھنے کی کشمکش میں رنگ اور باڈی سب کھو چکی ہیں۔
مسافر کو ذرا صاف ستھرے طریقے سے سفر کرنا مقصود ہو تو رکشہ ہی اس کی پہلی اور آخری چوائس بن جاتا ہے۔ رکشوں کی کراچی شہر میں کوئی کمی نہیں، تین سیٹر سے لیکر گیارہ سیٹر تک لوگوں نے رکشوں کو اپنی منشا کے مطابق لمبا کرلیا ہے اور کرائے تو اس سے بھی لمبے ہو گئے ہیں۔ کراچی کے رکشہ میں میٹر نام کی چیز نہیں ہوتی ، کرایہ فی کلومیٹر پچیس روپے تک ہو سکتا ہے، غریب آدمی کی تو روز کی دیہاڑی میں سے آدھے پیسے ان رکشوں کے کرائے میں خرچ ہو جاتے ہیں۔
بات ہو رہی تھی کراچی کے کچرے کی اور رکشے بیچ میں آگئے۔ کراچی میں ہرطرف کچرے کے ڈھیر دکھائی دیتے ہیں ۔ لیکن یہ ڈھیر نظر نہیں آتے تو ارباب اختیار کو نظر نہیں آتے ۔ کراچی سے کچرا کون اٹھائے ، کیسے اٹھائے اور کیوں اٹھائے کہ اس شہر خرابی کا کوئی والی وارث تو ہے نہیں۔عوام بھی اس شہر کو اپنا ماننے کے لیے تیار نہیں ورنہ اس قدر گندگی کے ماحول کو کیسے برداشت کرتے اور کیوں اپنی گلیوں اور سڑکوں پر گندگی کے ڈھیر لگاتے۔ کراچی شہر کی سڑکوں پر دن بدن بڑھتے کوڑے اور کچرے کے ڈھیر اور ا ن سے اٹھتی بدبو اور تعفن شہری انتظامیہ کی کارکردگی پر ایک سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے۔رہائشی علاقوں میں کچرا جمع ہونے سے بیماریوں میں مزید اضافہ ہورہا ہے۔ مکانوں، فلیٹوں اور دکانوں کے قریب بکھرے کچرے کے ڈھیروں سے روز مرہ کا نظام زندگی بھی متاثر ہو رہا ہے۔ سڑکوں پر کچرے سے پیدل چلنے والوں سمیت گاڑیوں اور موٹرسائیکل سواروں کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہاہے، بعض جگہوں پر کچرے کے بڑے ڈھیروں سے سڑکیں تک بند ہوگئی ہیں۔ کراچی کے اس کچرے سے حکومتی اہلکاروں، بلدیاتی حکام اور ری سائیکل کی صنعت کو کتنا فائدہ ہے اس کا تو کوئی اندازہ نہیں لیکن اگر شہر سے کچرے کے یہ ڈھیر صاف نہ کیے گئے تو اس شہر کا شمار دنیا کے گندے ترین شہر کے طور پرضرور کیا جائے گا۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں