میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
پڑوسیوں کے حقوق اور پڑوسی خواتین کے ساتھ شرم و حیا کا برتاﺅ

پڑوسیوں کے حقوق اور پڑوسی خواتین کے ساتھ شرم و حیا کا برتاﺅ

ویب ڈیسک
جمعه, ۳ فروری ۲۰۱۷

شیئر کریں

ندیم الرشید
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے پڑوسی کو (کسی بھی قسم کی ) تکلیف نہ پہنچائے (بخاری ومسلم)
قابل صد احترام‘ قارئین مکرم!
تاجدار ختم نبوت‘ نبی آخر الزماں‘ رسالت مآب صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کا فرمان زریں آپ کے سامنے پیش کیا گیا ہے جس میں پڑوسیوں کو تکلیف پہنچانے سے منع کیا گیا ہے۔
اسلام میں پڑوسیوں کے بہت حقوق ہیں۔ آقا علیہ السلام نے پڑوسیوں کو ستانے‘ انہیں تکلیف پہنچانے اور اذیت دینے سے بہت سختی کے ساتھ منع فرمایا ہے۔ بخاری و مسلم کی روایت ہے اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہی اس روایت کے بھی راوی ہیں ‘ وہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ کی قسم وہ شخص مومن نہیں‘ اللہ کی قسم! اس میں ایمان نہیں‘ اللہ کی قسم! وہ صاحب ایمان نہیں‘ عرض کیا گیا کون شخص یا رسول اللہﷺ ؟ (یعنی آپ ﷺ کس بد نصیب کے بارے میں قسم کھا کر ارشاد فرما رہے ہیں کہ وہ مومن نہیں اور اس میں ایمان نہیں) آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ جس کے پڑوسی اس کی شرارتوں سے محفوظ اور اس کی فتنہ پردازیوں سے بے خوف نہ ہوں (یعنی ایسا آدمی ایمان کی برکتوں سے محروم ہے)
قارئین گرامی!
انسان کا اپنے ماں باپ اور اولاد کے علاوہ ایک مستقل واسطہ پڑوسیوں اور ہمسائیوں کے ساتھ بھی ہوتا ہے۔ یہ رشتہ جتنا خوشگوار ہوگا آپ کے گھر میں اتنا ہی امن و سکون ہوگا اور ہمسائیوںسے تعلق جس قدر خراب ہوگا گھر میں اتنی ہی بے چینی اور پریشانی ہوگی۔
لہٰذا پڑوسیوں کے حقوق میں سے اولین حق یہ ہے کہ وہ ہمارے ہاتھ اور ہماری زبان سے کوئی تکلیف نہ پائیں۔
آج ہمارے معاشرے میں بہت کم لوگ ہوں گے جو اپنے پڑوسیوں سے خوش ہوں گے‘ ہم عام روزمرہ کی چیز پڑوسیوں سے عاریتاً مانگ لیتے ہیں لیکن پھر واپس نہیں کرتے‘ اپنے گھر کے دروازے کے سامنے صفائی کرتے ہوئے کچرا اور مٹی وغیرہ پڑوسی کے دروازے تک پھیلا دیتے ہیں‘ اپنے گھر کا فرش دھوتے ہیں تو پانی پڑوسی کے گھر کے سامنے کھڑا ہو جاتا ہے ،جو لوگ دوسری یا تیسری منزل پر رہتے ہیں اپنے کمرے میں کھانے پینے کے بعد مونگ پھلی کے چھلکے‘ پھلوں کے چھلکے یا ڈسپوزایبل کراکری کمرے کی کھڑکی سے نیچے پھینکتے رہتے ہیں جس کے نتیجے میں نچلی منزل والے انتہائی تنگ ہو جاتے ہیں کیونکہ سارا کچرا ان کے دروازے کے آگے جمع ہوتا رہتا ہے۔ ہفتے کے دن بالخصوص گرمیوں کی راتوں میں صبح چونکہ اتوار کی چھٹی ہوتی ہے ،ہمارے دوست احباب جمع ہوتے ہیں ،کرسیاں گھروں سے باہر نکال کر بیٹھ جاتے ہیں اور پھر رات کو ایک دو بجے تک محفلیں لگتی ہیں، ہنسی مذاق‘ گالم گلوچ اور کھیل کود سے ہم پڑوسیوں کی نیند حرام کردیتے ہیں۔ شادیوں کے موقع پر ایک ایک ہفتہ پہلے اونچی آواز میں ڈیک پر گانے چلنا شروع ہو جاتے ہیں۔ ساتھ ہمسائے کے گھر میں کوئی بیمار ہے کوئی پریشان ہے‘ کوئی تلاوت کررہا ہے‘ نماز پڑھ رہا ہے عبادت کررہا ہے ہمیں کسی کی کوئی پرواز نہیں ہوتی، اپنی خوشی میں ہم اتنے مست ہوتے ہیں کہ کچھ پتہ نہیں چلتا کہ ہماری وجہ سے سامنے گھر میں دوسروں کو کتنی تکلیف پہنچ رہی ہے۔ رات کی ڈیوٹی کرکے آنے والے جب صبح اذانوں سے بھی پہلے گھروں کو لوٹتے ہیں تو اس قدر زورزور سے دروازہ بجاتے ہیں کہ ساتھ گھروں میں سوئے ہوئے چھوٹے چھوٹے بچے نیند میں ڈر کر رونا شروع کردیتے ہیں‘ اگر کسی گھر کے باہر سیڑھیاں موجود ہیں جن پر چڑھ کر دروازے تک پہنچا جاتا ہے تو آس پاس کے نوجوان ان دو تین زینوں پر آکر ڈیرہ لگالیتے ہیں ‘ سگریٹ نوشی ‘مستیاں اور شوروغل کرتے رہتے ہیں‘ بعض نوجوانوں کو موٹر سائیکل چلانے کا جنون ہوتا ہے وہ جب بھی گھر سے باہر نکلتے ہیں موٹر سائیکل اسٹارٹ کرنے کے بعد فل ایکسیلیٹر دباتے ہیں ‘ بالخصوص صبح سویرے جس سے آس پاس کے لوگ ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھتے ہیں، بالخصوص چھوٹے بچے تو انتہائی پریشان ہو کر زور زور سے رونے لگتے ہیں‘ انہیں چپ کروانا ایک مسئلہ ہوتا ہے۔ الغرض ہم جس طرح کی زندگی گزار رہے ہیں اور جو لائف اسٹائل ہم نے اپنایا ہوا ہے اس میں بہت کم لوگ ہیں جو اپنے پڑوسیوں کے ہاتھ اور زبان کے شر سے محفوظ ہیں۔
حالانکہ ہمسائے کو اپنے ہاتھ اور اپنی زبان کی تکلیف سے محفوظ رکھنا پڑوسی کا پہلا حق ہے‘ ایک شخص نے آپ علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا‘ یار سول اللہ! فلاں عورت نماز‘ صدقات اور روزوں کی کثرت کرتی ہے‘ لیکن اپنی زبان سے اپنے پڑوسیوں کو تکلیف پہنچاتی ہے ۔آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ وہ جہنم میں داخل ہوگی( چاہے پھر سزا بھگت کر نکل آئے) اس نے پھر عرض کیا :یا رسول اللہﷺ فلاں عورت کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے کہ وہ نماز ‘ روزوں کی کثرت نہیں کرتی البتہ پنیر وغیرہ صدقہ کرتی ہے اور اپنے پڑوسیوں کو نہیں ستاتی۔ آقا علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ وہ جنت میں داخل ہوگی۔
پڑوسیوں کے حقوق میں دوسر ااہم حق یہ ہے کہ اپنی پڑوسی خواتین کے ساتھ انسان ہمیشہ شرم و حیا والا معاملہ رکھے‘ ان کو غلط نظر سے نہ دیکھے‘ ان سے پینگیں بڑھانے‘ ان کی مجبوریوں سے ناجائز فائدہ اٹھانے ‘ انہیں کسی معاملے میں الجھا کر بلیک میل کرنے اور ان کی عزت سے کھیلنے کی ہر گز کوشش نہ کرے کیونکہ امام الانبیاءاور اللہ کے صادق اور امین پیغمبر نے اس معاملے پر انتہائی سختی فرمائی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ کوئی شخص(اللہ نہ کرے) دس عورتوں کے ساتھ بدکاری کرے یہ(گناہ میں) زیادہ ہلکا ہے، بہ نسبت اس بات کے کہ یہ آدمی اپنی پڑوسی عورت کے ساتھ بدکاری کرے(احمد طبرانی۔کبیر اوسط)
آج ہمارے معاشرے میں کیا ہورہا ہے ؟ کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جو پڑوسیوں کے گھروں میں تانک جھانک کی کوشش کرتے رہتے ہیں یا کوئی چیز لینے دینے‘ سودا سلف لاکر دینے‘ خوشی غمی میں کام کے بہانے پڑوسی کے گھر میں داخل ہوتے ہیں‘ روابط قائم کرلیتے ہیں اور پھر عزت دار گھرانوں کو برباد کر ڈالتے ہیں‘ حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن سب سے پہلے (اللہ کی عدالت میں جن کا مقدمہ پیش ہوگا) وہ دو پڑوسی ہوں گے۔ مغربی تہذیب کے زیر اثر اور جدید لائف اسٹائل کی وجہ سے ہم بھول چکے ہیں کہ پڑوسیوں کی عزت کیسے کرنی ہے، ان کی خوشی غم میں کسی طرح شریک ہونا ہے‘ ان کی عیب جوئی سے کیونکر بچنا ہے‘ محتاج پڑوسیوں کے کھانے کی فکر کیسے کرنی ہے‘ ان کی تکلیفوں پر صبر کیسے کرنا ہے اور کھانے کی چیزوں میں سے انہیں ہدیہ کیسے پیش کرنا ہے ۔حالانکہ نبی آخر الزماں ﷺ ارشاد فرماتے ہیں پڑوسیوں کے بارے میں حسن سلوک کے لیے مجھے جبرائیل علیہ السلام برابر وصیت کرتے رہے اور تاکید کرتے رہے‘ یہاں تک کہ مجھے خیال ہوا کہ وہ اس کو وارث بھی قرار دے دینگے(ابو داﺅد‘ ترمذی)
حضرت ابن عمر و بن عاصؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص پڑوسی سے اپنے گھر کا دروازہ اہل و عیال پر ڈرکی وجہ سے بند رکھے وہ کامل مومن نہیں اور وہ بھی کامل مومن نہیں جس کے پڑوسی اس کی شرارتوں سے بے خوف نہیں اور جانتے ہو پڑوسی کا حق کیا ہے؟ اگر تم سے مدد چاہے تو اس کی مدد کرو‘ قرض مانگے تو قرض دو‘ اگر محتاج ہو تو اس کی مدد کرو‘ اگر بیمار ہو تو اس کی عیادت کرو‘ اگر اس کو کوئی خوشی اور بھلائی ہو تو اس کو مبارکباد دو‘ اگر مصیبت پہنچے تو تعزیت کرو‘ اگر وہ مر جائے تو اس کے جنازے کے ساتھ جاﺅ‘ اس کی اجازت کے بغیر اس کی عمارت سے اپنی عمارت اس طرح بلند نہ کرو کہ اس کے گھر کی ہوا بند ہو جائے(آج کراچی میں بڑی بڑی بلڈنگیں بنانے والوں کو احساس ہے کہ ہم نے اپنے پڑوسیوں کی اجازت کے بغیر اتنی بڑی بڑی عمارتیں بنائیں ہیں جس سے ان کے گھر میں سردیوں میں دھوپ نہیں آتی اور گرمیوں میں ہوا رک جاتی ہے اس کا مداوا کس طرح کیا جائے یا یہ کتنا بڑا گناہ ہے؟) جب تمہارے گھر میں اچھا کھانا پکے تو اس کی کوشش کرو کہ( تمہاری ہانڈی کی مہک اس کے لیے اور اس کے بچوں کے لیے ) تکلیف کا سبب نہ ہو‘ مگر یہ کہ جو پکے اس میں سے کچھ حصہ پڑوسی کو بھی نکال کر دے دو‘ اگر کوئی پھل خریدو تو اس کو بھی ہدیہ دو اور اگر یہ نہ کرسکو تو اس کو اس طرح پوشیدہ لاﺅ کہ وہ نہ دیکھے اور اس کو تمہاری اولاد باہر لے کر نہ نکلے کہ پڑوسی کے بچے کے دل میں اسے دیکھ کر جلن پیدا ہوگی۔( الترغیب و الترہیب)
قارئین گرامی!
اللہ کے آخری نبیﷺ نے اپنی تعلیمات میں ہمسائیگی کی بڑی تائید فرمائی ہے یہاں تک کہ اس کو ایمان کا جز اور جنت میں داخلے کی شرط اور اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت کا معیار قرار دیا ہے، اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں پڑوسیوں کے تمام حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے(آمین)


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں