وزرائے اعظم، فوجی سربراہان ، ججز کو کون کون سے تحائف ملے؟پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں ریکارڈ طلب
شیئر کریں
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے 2013 سے تمام سیاستدانوں، فوجی سربراہان، ججوں اور بیوروکریٹس کو ملنے والے تحائف کی تفصیلات طلب کرلی۔پبلک اکاؤنٹ کمیٹی کا اجلاس چیئرمین نور عالم خان کی صدارت میں ہوا جس میں آڈیٹر جنرل اور دیگر حکام نے شرکت کی۔دوران اجلاس چیئرمین نور عالم خان نے کہا کہ پہلے آڈٹ کے سوالات کے تمام جوابات صرف چیئرمین دفتر میں آتے تھے مگرمیں نے ہدایت کی ہے کہ معلومات تمام ممبران کو فراہم کی جائے۔پی اے سی رکن ڈاکٹر ملک مختار نے کہا کہ نیا پاکستان ہاؤسنگ اتھارٹی نے کسی این جی او کو مکانات بنانے کے لیے 5 ارب روپے دیے، لہٰذا آڈٹ حکام چیک کریں کہ آیا کہ یہ رقم کن افراد کو دی گئی اور کیا واقعی 20 ہزار مکانات تعمیر ہوئے۔اس پر آڈیٹر جنرل نے کہا کہ اس کی مکمل آڈٹ رپورٹ دیں گے۔چیئرمین نور عالم خان نے کہا کہ گزشتہ سات سالوں کے توشہ خانہ کا مکمل ریکارڈ آڈیٹر جنرل کو فراہم کیا جائے اور 2015 سے 2022 تک کا توشہ خانہ کا ریکارڈ آڈیٹر جنرل کے دفتر کو فراہم کیا جائے۔اس پر سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ اس ریکارڈ 2013 سے لیا جائے، تاہم چیئرمین نور عالم خان نے کہا کہ چلیں 2013 سے کر لیں، اس میں تمام سیاستدانوں ، جرنیلوں ، ججوں اور بیوروکریٹس کو ملنے والے تحائف کی تفصیلات پیش کی جائیں۔چیئرمین پی اے سی نے تحائف کی معلومات فراہم کرنے کیلئے سیکرٹری کابینہ ڈویژن ، سپریم کورٹ ، آرمی، نیوی اور ایئر فورس اور صوبائی گورنرز کے لیے خط لکھ دیا۔سرکاری مکانات اور زمینوں کو واگزار کرانے کے معاملہ پر چیئرمین نور عالم خان نے کہا کہ اس پر وزیر اعلیٰ سندھ اور چیف سیکرٹری سندھ کو لکھیں۔چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے کہا کہ پیٹرول پمپس، پلازہ اور دیگر پراپرٹی کو خالی کریں، خالی کرکے اخبارات میں اشتہار دے کر آج کی تاریخ کے مطابق اس کو دبارہ دی جائے۔نور عالم خان نے کہا کہ جو دستاویز ہمیں ملے گا اس وزیر یا گورنر کے خلاف کارروائی ہوگی اور اگر اس میں کسی وزیر کو گرفتار کرنا ہو تو کرلیں۔انہوں نے کہا کہ ایک ماہ تک وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) اور آڈیٹر جنرل ایک کام مکمل کریں، اور جو افسر تعاون نہ کریں ان کے خلاف بھی کارروائی ہوگی۔چیئرمین نے آڈیٹر جنرل سے کہا کہ آپ نے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو رپورٹ کرنا ہے۔آڈٹ حکام نے کہا کہ گزشتہ کئی برسوں سے وزیراعظم انسپکشن کمیشن اسلام آباد کی عمارت نیب کے غیر قانونی قبضے میں ہے۔اس پر چیئرمین پی اے سی نے کہا کہ اس کا جواب ڈائریکٹر جنرل قومی احتساب بیوروی (نیب) کو دینے کے لیے یہاں موجود ہونا چاہیے تھا۔آڈٹ حکام نے کہا کہ اسٹیٹ آفس کئی دفعہ یہ عمارت خالی کروانے کے لیے نوٹس دے چکا ہے جس پر پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے نیب دفتر 15 دنوں میں خالی کرانے کا حکم دے دیا۔نورعالم خان نے کہا کہ نوٹس کرکے لکھ لیں کے نیب دفتر خالی کروایا جائے اور جتنے بقایاجات ہیں وہ آڈیٹر جنرل کے ذریعے ادا کریں۔چیئرمین نے کہا کہ اگر خالی نہیں کرتے تو اسلام آباد پولس، رینجرز اور ایف سی کی مدد لیں گے اور اگر ضرورت پڑی تو آرمی کی مدد بھی طلب کر سکتے ہیں۔