میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
اسلام آباد ہائی کورٹ، عمران خان کی نااہلی کا فیصلہ فوری معطل کرنے کی استدعا مسترد

اسلام آباد ہائی کورٹ، عمران خان کی نااہلی کا فیصلہ فوری معطل کرنے کی استدعا مسترد

جرات ڈیسک
پیر, ۲۴ اکتوبر ۲۰۲۲

شیئر کریں

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیر اعظم عمران خان کی الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے توشہ خانہ کیس میں نا اہلی کا فیصلہ فوری طور پر معطل کرنے کی استدعا مسترد کر دی۔ جبکہ عدالت نے الیکشن کمیشن کو عمران خان کی نا اہلی کا فیصلہ فوری جاری کی استدعا بھی مسترد کرتے ہوئے امید ظاہر کی ہے کہ الیکشن کمیشن جلد مصدقہ فیصلہ جاری کرے گا۔ عدالت نے عمران خان کو رجسٹرار آفس کے اعتراضات تین روز میں دور کرنے کا حکم دیا ہے۔ عدالت نے عمران خان کی نااہلی کے خلاف دائر درخواست پر سماعت تین روز کے لیے ملتوی کر دی، چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ عمران خان کو نئے الیکشن لڑنے سے نہیں روکتا، جس سیٹ پر تھے صرف اس سے نا اہل ہوئے ہیں، عمران خان کرم کے ضمنی الیکشن کیلئے بھی نااہل نہیں، ابھی ہمارے سامنے الیکشن کمیشن کا فیصلہ موجود ہی نہیں، کوئی نظیر نہیں بنانا چاہتے کہ کاپی موجود نہ ہو تو فیصلہ معطل کریں۔ سوموار کے روز اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے عمران خا ن کی توشہ خانہ کیس میں الیکشن کمیشن کی جانب سے نااہل کرنے کے فیصلہ کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔ دوران سماعت چیف جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ عمران خان کی درخواست پر اعتراضات ہیں، پہلے اعتراضات دور کریں۔ اس پر عمران خان کے وکیل بیرسٹرسینیٹر سید علی ظفر کا کہنا تھا کہ سیکیورٹی خدشات کے باعث عمران خان کو بائیو میٹرک سے استثنیٰ دے دیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عمران خان اپنے اٹارنی کے ذریعہ بائیو میٹرک کروا سکتے ہیں۔ سید علی ظفر کا کہنا تھا کہ عمران خان نااہلی کیس میں الیکشن کمیشن کا مصدقہ فیصلہ نہیں ملا۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ عمران خان نااہلی کیس میں جلد بازی کیا ہے؟ اس پر سید علی ظفر کا کہنا تھا انتخابات آ رہے ہیں، عمران خان کو الیکشن لڑنا ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ جس قانون کے تحت عمران خان نااہل ہوئے وہ تو اسی نشست کی حد تک تھا،عمران خان دوبارہ الیکشن لڑنا چاہیں تو لڑ سکتے ہیں، عمران خان کرم کے ضمنی الیکشن کیلئے بھی نااہل نہیں، عدالت نے آئین اور قانون کے مطابق چلنا ہے کوئی جو مرضی سمجھتا ہو۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ موجود نہیں، عدالت کس فیصلے کو معطل کرے؟ عمران خان جس نشست سے ہٹائے گئے اس پر واپس پارلیمنٹ تو نہیں جانا چاہ رہے نا؟ سید علی ظفر کا کہنا تھا کہ ہم نے چند دن بعد الیکشن لڑنا ہے، مسائل کا سامنا ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ اس الیکشن کے لیے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔علی ظفر کا کہنا تھا کہ عدالت الیکشن کمیشن کو حکم دے کہ آج ہی مصدقہ فیصلہ جاری کرے۔ اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم غلط روایت نہیں ڈال سکتے، الیکشن کمیشن کے فیصلے کا انتظار کرتے ہیں، یہ عدالت عوام کو سمجھانے کے لیے موجود نہیں، یہ کبھی ہوا نہیں، عدالت ایسی مثال قائم نہیں کر سکتی۔ علی ظفر کا کہنا تھا کہ جو الیکشن کمیشن نے کیا، وہ پہلے کبھی نہیں ہوا۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ ایسا ہوتا ہے ، ہم بھی فیصلہ سنا کر کئی بار بعد میں تفصیلی فیصلہ لکھتے ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیس کی سماعت تین روز تک ملتوی کر دیتے ہیں، امید ہے الیکشن کمیشن فیصلہ جاری کر دے گا۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کا مصدقہ فیصلہ آنے سے پہلے حکم امتناع جاری نہیں کر سکتے، کیا عدالتی تاریخ میں کبھی بغیر دستخط فیصلے کو معطل کیا گیا؟ علی ظفر کا کہنا تھا کہ خدشہ ہے کہ الیکشن کمیشن فیصلہ تبدیل کردے گا۔ اس پر جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن آئینی ادارہ ہے، فیصلہ کیسے تبدیل ہوسکتا ہے؟ پہلے بھی نااہلی ہوتی رہی، کوئی سیاسی طوفان نہیں آتا، اس کیس میں کوئی جلدی ہوتی تو عدالت سن لیتی۔ سید علی ظفر کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے ممنوعہ فنڈنگ کیس میں بھی فیصلہ جاری کر کے تبدیل کیا، فیصلے سے عمران خان پر داغ لگا، اس کے ساتھ الیکشن میں نہیں جانا چاہتے۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ اس سے پہلے کتنے نا اہل ہو چکے، کیا ان کی سیاست پر کوئی فرق پڑا؟ یہ عدالت کسی آئینی ادارے کو ہدایت نہیں دیتی، ہم ایک ہفتے کا وقت دے رہے ہیں فیصلے کی کاپی نہ ملی تو دیکھیں گے۔ علی ظفر کا کہنا تھا کہ ہم پہلے ہی درخواست د ے چکے ہیں کاپی نہیں دی جارہی۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا اس درخواست پر تو فیصلہ آجانے دیں، یہ معمول کے کام ہیں الیکشن کمیشن تاخیر نہیں کررہا، عدالت ایسا آرڈر معطل نہیں کرسکتی جس پر دستخط ہی نہ ہوں۔ علی ظفر کا کہنا تھا کہ عمران خان کے خلاف فوجداری کارروائی کا حکم ہے۔ اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ فوجداری کارروائی کا معاملہ سیشن کورٹ جائے گا، سیشن جج ایک ماہ تک نوٹس جاری کرے گا، وہ ایک لمبا کام ہے درخواست میں کوئی جلدی والی بات موجود نہیں۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں