دہشت گردوں کی فنانسنگ کا بڑا اور محفوظ طریقہ
شیئر کریں
٭پاکستان سے 10ارب سالانہ جبکہ بھارت سے ہر سال 51 ارب ڈالر سے زیادہ کی غیرقانونی پیسوں کی لین دین ہوتی ہے
٭بعض مشہور کمپنیاںانڈر انوائسنگ اور اوورانوائسگنگ میں پوری مدد کرتی ہیں ، ان کی بھرپور مدد کے بغیریہ مکروہ دھندہ چل ہی نہیں سکتا
٭امریکی محکمہ خارجہ کی رپورٹ میں چین، روس، میکسیکو اور بھارت کو غیر قانونی پیسوں کی لین دین کے 4 بڑے ممالک قراردیاگیا ہے
٭امریکی وبھارتی مشترکہ تفتیش کاروں کی ٹیموں کو غیر قانونی محاصل سے فائدہ اٹھانے والے بھارتیوں کو پکڑنے میں زیادہ کامیابی حاصل نہیں ہوسکی
شہلا حیات نقوی
امریکی محکمہ خارجہ کی جاری کردہ تازہ ترین رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ قانونی تجارت کی آڑ میں پاکستان سے ہر سال 10 ارب ڈالر جبکہ بھارت سے 51ارب ڈالر کی کی منی لانڈرنگ کی جاتی ہے۔امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے جاری کردہ ’انٹرنیشنل نارکوٹکس کنٹرول اسٹریٹجی رپورٹ‘ میں کہا گیا ہے کہ بظاہر قانونی تجارت کی آڑ میں کالا دھن سفید کرنے کا عمل (ٹی بی ایم ایل) اس وقت منشیات فروشوں، جرائم پیشہ افراد اور دہشت گردوں کےلیے سرمائے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے کیونکہ اسی سے ایک ملک کی دولت کسی دوسرے ملک میں غیرقانونی طور پر منتقلی کی جاتی ہے اور اسی وجہ سے ملکوں کی معیشت کو بھی شدید نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ رپورٹ میںبجا طور پر اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ منی لانڈرنگ جرائم پیشہ افراد خاص طورپر دہشت گردوں کیلئے ریڑھ کی ہڈی کاکام دیتی ہے کیونکہ اسی کے ذریعہ دہشت گردوں کو اپنے مطلوبہ ہدف کو نشانہ بنانے کیلئے رقم مل سکتی ہے جبکہ جائز طریقے سے منتقل کی جانے والی رقم دہشت گردوںکے پاس جانے کا امکان نہ ہونے کے برابر ہوتاہے ، رپورٹ میں انکشاف کیاگیاہے کہ عالمی برادری کو تجارتی منی لانڈرنگ کے ذریعے سالانہ لاکھوں ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے، ایسا معلوم ہوتاہے کہ رپورٹ میں تجارتی منی لانڈرنگ کی اصطلاح جان بوجھ کر یہ بتانے کیلئے استعمال کی گئی ہے کہ بظاہر سفید پوش تاجر حضرات منی لانڈرنگ کے اس مکروہ دھندے میں نہ صرف یہ کہ پورے پورے شریک ہیں بلکہ منی لانڈرنگ کا بڑا ذریعہ یہی نام نہاد تاجر ہیں جو انڈر انوائسنگ اور اوور انوائسنگ کے ذریعہ انتہا ئی شفاف طریقے سے رقم مختلف ممالک کو منتقل کردیتے ہیں اور ان کے دامن پر کوئی دھبہ نظر آتاہے اور نہ ہی خنجر پر کوئی چھینٹ ۔یہ صحیح ہے کہ انڈر انوائسنگ اوراوور انوائسنگ کا یہ کاروبار پوری دنیا میں رائج ہے اور دنیا بھر کی بعض مشہور کمپنیاں اس مکروہ دھندے میں اپنے کلائنٹ کی پوری پوری مدد کرتی ہیں ، کیونکہ ان کی بھرپور مدد کے بغیر انڈر انوائسنگ اور اوور انوائسنگ کا مکروہ دھندہ چل ہی نہیں سکتا۔
امریکی محکمہ خارجہ کی اس رپورٹ میں چین، روس، میکسیکو اور بھارت کو غیر قانونی پیسوں کی لین دین کے 4 بڑے ممالک کے طور پر ظاہر کیا گیا ہے اور بتایاگیا ہے کہ ایسے ہی طریقوں کے ذریعے پاکستان کو بھی سالانہ 10 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہو رہا ہے۔گذشتہ روز ’انٹرنیشنل نارکوٹکس کنٹرول اسٹریٹجی‘ کے نام سے شائع ہونے والی امریکی محکمہ خارجہ کی رپورٹ میں ٹریڈ بیسڈ منی لانڈرنگ (ٹی بی ایم ایل) کو ایسے طریقہ کار کے طور پر ظاہر کیا گیا ہے جس کے ذریعے ملزمان قانونی کاروبار کو استعمال کرکے اپنے غیرقانونی ذرائع کو تحفظ دیتے ہیں۔یہی عمل تاجروں اور کرنسی مافیا کو اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ سالانہ اربوں ڈالر کی منی لانڈرنگ کی جائے، یہی طریقہ کالے دھن کو صاف کرنے کا سب سے جدید اور اچھا طریقہ ہے، جب کہ ٹی بی ایم ایل کے ذریعے غیر قانونی لین دین کی شناخت کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔
پاکستان میں ایک تہائی آبادی کے غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے کے باوجود ٹیکس سے بچنے کے لیے ہرسال بیرون ملک منتقل کیے گئے پیسوں کا تخمینہ 10 ارب ڈالر سے زائد لگایا گیا ہے۔رپورٹ میں بھارت کو غیر قانونی پیسوں کی لین دین کے حوالے سے دنیا کے چوتھے بڑے ملک کے طور پر پیش کیا گیا، رپورٹ کے مطابق بھارت میں دیہی علاقوں میں غیر رسمی مالیاتی نیٹ ورکس کے قائم ہونے اور رسمی مالیاتی اداروں تک لوگوں کی بڑے پیمانے پرعدم رسائی کی وجہ سے زیادہ تر منی لانڈرنگ ہوتی ہے۔
رپورٹ میں امریکی تھنک ٹینک کی گلوبل فنانشل انٹیگریٹی (جی ایف آئی) رپورٹ کا بھی حوالہ دیا گیا، جس میں کہا گیا کہ بھارت کو ہر سال غیرقانونی پیسوں کی لین دین کی وجہ سے سالانہ 51 ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہو رہا ہے۔جی ایف آئی رپورٹ میں چین پہلے نمبر پر ہے، جو ہر سال غیر قانونی پیسوں کی لین دین کی وجہ سے 139 ارب ڈالر کا نقصان اٹھا رہا ہے، 104 ارب ڈالر کی منی لانڈرنگ کے ساتھ روس دوسرے جب کہ 52 ارب 80 کروڑ ڈالر کے ساتھ میکسیکو اس فہرست میں تیسرے نمبر پر ہے۔
افغانستان کے حوالے سے اس رپورٹ میں کہا گیا کہ دہشت گردوں اور باغیوں کو اسمگلنگ کے ذریعے دی جانے والی نقد مالی معاونت منی لانڈرنگ کی وجہ ہے، جب کہ انفارمل ویلیو ٹرانسفر سسٹم (آئی وی ٹی ایس) یعنی پیسوں کی غیر رسمی منتقلی کے نظام کی خلاف ورزی اور غیر قانونی پیسوں کی لین دین ملکی سلامتی اور ترقی کے لیے خطرہ بنی ہوئی ہے۔رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ افغانستان افیون کی پیداوار اور برآمد کے حوالے سے دنیا کا سب سے بڑا ملک رہا ہے اور وہاں کرپشن عوامی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ رہی ہے۔رپورٹ میں کہا گیا کہ افغان عوام کے مفادکے لیے حکومت نے مالی جرائم کا مقابلہ کرنے کے لیے قانون پاس کیا اور قواعد و ضوابط بھی بنائے، مگر ان پر عمل درآمد کرانے کے حوالے سے اسے چینلجز کا سامنا ہے۔رپورٹ میں بھارت کوروایتی طریقوں سے پیسوں کی منتقلی کے لیے قواعد و ضوابط بنانے، دوسری سہولت فراہم کرنے اور موبائل بینکنگ سمیت ادائیگیوں کے نئے طریقے متعارف کرانے کی تجویز بھی پیش کی گئی ہے۔رپورٹ کے مطابق بھارت میں منی لانڈرنگ کے لیے استعمال ہونے زیادہ ترطریقوں میں فنڈز کو چھپانے کے لیے ایک سے زائد بینک اکاو¿نٹس کھولنے، قانونی آمدنی کے ساتھ غیر قانونی گھپلے کرنے، نقد رقم کے ذریعے بینک چیکس کی خریداری اور ان فنڈز کو غیر قانونی طریقوں کے ذریعے نیلام کرنے کے طریقے شامل ہیں۔
بھارت میں ٹرانس نیشنل کریمنل آرگنائزیشنز آف شور کارپوریشنز کو استعمال کر رہی ہیں اور کیپٹیل کنٹرول ٹرانزیکشن سے بچنے کے لیے اپنی مجرمانہ رقم کو چھپانے کے لیے وہ ٹی بی ایم ایل کو استعمال کر رہی ہیں، ان غیر قانونی فنڈز کی بعض اوقات رئیل اسٹیٹ، تعلیمی پروگراموں، فلاحی پروگراموں اور الیکشن مہم کے ذریعے منی لانڈرنگ کی جاتی ہے۔بھارت میں منی لانڈرنگ کے فنڈز منشیات کی اسمگلنگ، غیر قانونی تجارت، ٹیکس سے بچنے جیسے دیگر اقدامات اور دیگر اقتصادی جرائم سے حاصل ہوتے ہیں، جب کہ بھارت کی جعلی کرنسی بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ ریزرو بینک آف انڈیا نے 2016 میں 500 اور ایک ہزار کے نوٹوں کو بند کردیا اور کرپشن، ٹیکس چوری اور دیگر غیر قانونی مالی سرگرمیوں کے نتیجے میں کالا دھن رکھنے والے افراد کی پکڑ کے لیے نئے نوٹ متعارف کرائے، جس کے نتیجے میں جعلی کرنسی کا مسئلہ پیدا ہوا اور اسی وجہ سے تھوڑے سے فائدے کے لیے طویل المدتی منی لانڈرنگ کا نقصان اٹھانا پڑا۔رپورٹ میں اس بات کی بھی شکایت کی گئی کہ امریکی تفتیش کاروں کو بھارتی ہم منصبوں کے ساتھ غیر قانونی محاصل سے فائدہ اٹھانے والوں کو پکڑنے میں زیادہ کامیابی حاصل نہیں ہوسکی۔