ایگری ٹیک کے شیئرز سے نیشنل بینک کو 2 ارب 33 کروڑ کا ٹیکا
شیئر کریں
(نمائندہ جرأت) نیشنل بینک آف پاکستان میں اربوں روپے کا ایک اور اسکینڈل سامنے آ گیا، ایگری ٹیک کمپنی کے شیئرز مہنگے داموں خریدنے سے قومی ادارے کو 2 ارب 33 کروڑ روپے کا نقصان ہوا۔ بینک انتظامیہ ذمہ داران کے خلاف کارروائی میں ناکام ہو گیا۔ جرأت کے پاس موجود دستاویزات کے مطابق نیشنل بینک کی انتظامیہ نے سال 2012 سے 2014 اور سال 2017 میں میسرز ایگری ٹیک کے شیئرز مہنگے داموں خریدے، نومبر 2012 میں 8 کروڑ 29 کروڑ20 ہزار 6 سو 8 شیئرز خریدے گئے، ایک شیئر 35 روپے میں خرید ا گیا جبکہ ایگری ٹیک کے شیئر کی مارکیٹ میں قیمت صرف 13 روپے تھی جس کی وجہ سے بینک کو فی شیئر 22 روپے نقصان ہوا، اس خریداری سے بینک کو ایک ارب 82 کروڑ 42 لاکھ روپے نقصان ہوا۔ نیشنل بینک انتظامیہ کی ایگری ٹیک کے شیئرز کی خریداری میں نقصان کے باوجود آنکھیں نہ کھلیں اور مبینہ طور پر کمپنی کو فائدہ دینے کے لیے جولائی 2014 میں 2 کروڑ شیئرز مزید خرید لیے، اس بار بھی ایگری ٹیک کا فی شیئر 35 روپے میں خریدا گیا جبکہ کمپنی کے شیئر کی مارکیٹ میں اس وقت قیمت صرف 10 روپے تھی جس سے قومی ادارے کو فی شیئر پر 25 روپے کا نقصان ہوا جس کے باعث این بی پی کو اس باربھی 50 کروڑ روپے کا نقصان ہوا،نیشنل بینک انتظامیہ نے دسمبر 2017 میں ایک بار پھر ایگری ٹیک سے گھاٹے کا سودا کیا اور 2لاکھ 42 ہزار 55 شیئرز خریدے، این بی پی نے اس بار بھی ایگری ٹیک کافی شیئر 35 روپے میں خریدا لیکن تب مارکیٹ میں کمپنی کے شیئر کی قیمت صرف 4 روپے 87 پیسے تھی جس کی وجہ سے نیشنل بینک کو فی شیئر 30 روپے نقصان ہوا۔ اس بار 2لاکھ 42 ہزار شیئرز پر 72 لاکھ 93 ہزار شیئرز کا نقصان ہوا، ایگری ٹیک کے شیئرز کی خریداری میں نیشنل بینک کو مجموعی طور پر 2 ارب 33 کروڑ 15 لاکھ46 ہزار روپے نقصان ہوا۔ نومبر 2012 میں اس وقت مہنگے شیئرز خرید ے گئے جب اس سال ایک ارب 44 کروڑ روپے کا نقصان ہوا، بینک انتظامیہ نے نقصان میں جانے والی میسرز ایگری ٹیک کمپنی کے شیئرز کی مسلسل خریداری سے یہ ثابت کیا کہ وہ قومی ادارے کے مفادات کے تحفظ میں ناکام ہے۔ بینک کے شعبہ سرمایہ نے فیصلہ کرکے زیادہ قیمت پر شیئرز خریدے ،جس کی وجہ سے قومی ادارے کو نقصان ہوا، جبکہ انتظامیہ نے ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کسی بھی ذمے دار کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔ باخبر ذرائع کے مطابق یہ شیئرز کی خریداری کے اس گورکھ دھندے میں بینک کے اعلیٰ افسران کے ذاتی مفادات شامل تھے۔ جن کے نام اور تفصیلات اگلی اشاعتوں میں منظر عام پر آئیں گی۔ اس ضمن میں بینک انتظامیہ سے اُن کا موقف جاننے کی کوشش کی گئی، مگر افسران جواب دینے سے کنی کتراتے رہے۔