میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
رانا شمیم کا بیان حلفی عدالت میں پیش، آئندہ سماعت تک سربمہر رکھنے کا فیصلہ

رانا شمیم کا بیان حلفی عدالت میں پیش، آئندہ سماعت تک سربمہر رکھنے کا فیصلہ

ویب ڈیسک
منگل, ۲۱ دسمبر ۲۰۲۱

شیئر کریں

اسلام آباد ہائیکورٹ نے رانا شمیم کے بیان حلفی کی خبر پر توہین عدالت کے کیس میں گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا شمیم کا بیان حلفی آئندہ سماعت تک سربمہر ہی رکھنے کا فیصلہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسے آئندہ سماعت پر اٹارنی جنرل کی موجودگی میں ہی کھولا جائے گا،رانا شمیم مانتے ہیں جو چھپا وہی اصلی ہے، اظہار رائے کی آزادی مفاد عامہ کیخلاف آجائے تو پھربات مختلف ہوتی ہے، یہ تو نہیں ہوسکتا وہ کوئی بیان حلفی بنالے اورکسی مقصد کیلئے اخبار استعمال ہوجائے، عدالت نے ہمیشہ اظہار رائے کی آزادی کی حمایت کی ہے، عدالتوں کا پرابلم یہ ہے کہ ججزپریس کانفرنسز نہیں کرسکتے،پریس ریلیز نہیں دے سکتے، ہمیں مطمئن کرپائے کہ توہین عدالت نہیں ہوئی تو کیس ڈسچارج کردیں گے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا شمیم کے بیان حلفی کی خبر پرتوہین عدالت کیس سماعت ہوئی جس سلسلے میں رانا شمیم عدالت میں پیش ہوئے۔دورانِ سماعت لندن سے کورئیر کے ذریعے آیا ہوا سربمہر لفافہ عدالت میں پیش کیا گیا۔اس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ لندن سے آیا کورئیر سربمہر رکھا ہوا ہے، آپ چاہیں تو ابھی کھول سکتے ہیں۔عدالت نے رانا شمیم کے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ کے کلائنٹ مانتے ہیں کہ اخبار میں جو چھپا ہے وہ ان کے بیان حلفی کے مطابق ہے، عدالت کو تنقید سے گھبراہٹ بالکل نہیں ہے، تین سال بعد ایک بیان حلفی دے کراس کورٹ کی ساکھ پرسوال اٹھایاگیا، آپ کے کلائنٹ نے یہ تاثر دیا ہائیکورٹ کمپرومائزڈ ہے، یہ عام روٹین کا معاملہ نہیں ہے، کیا اس کورٹ کے کسی جج پر کوئی انگلی اٹھائی جاسکتی ہے؟ ۔ انہوںنے کہاکہ عدالت صحافی سے اس کا سورس نہیں پوچھے گی۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ رانا شمیم نے یہ بھی تاثردیا کہ استحقاقی دستاویز نوٹری پبلک سے لیک ہوا ہوگا، ایسا ہے تو کیا برطانیہ میں ان کیخلاف کوئی کارروائی کی گئی؟عدالت نے کہا کہ اظہار رائے کی آزادی مفاد عامہ کیخلاف آجائے تو پھربات مختلف ہوتی ہے، یہ تو نہیں ہوسکتا کہ وہ کوئی بیان حلفی بنالے اورکسی مقصد کے لیے اخبار استعمال ہوجائے، اس عدالت نے ہمیشہ اظہار رائے کی آزادی کی حمایت کی ہے، عدالتوں کا پرابلم یہ ہے کہ ججزپریس کانفرنسز نہیں کرسکتے،پریس ریلیز نہیں دے سکتے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں