امدادنہ ملی توافغانستان دہشت گردوں کی پناہ گاہ بن جائیگا،عمران خان
شیئر کریں
وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ افغانستان میں افراتفری سے سب سے زیادہ پاکستان متاثر ہوگا ، ہر صورت افغان طالبان کی حکومت سے بات چیت کی جائے، اگر ایسا نہ کیا گیا تو افغانستان داعش کا گڑھ بن جائیگاعالمی برادری افغانستان کو تنہا نہ چھوڑے ،وسط ایشیائی ممالک براستہ افغانستان بحرہند، پاکستان تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں ، مستحکم افغان حکومت داعش سے بہتر طریقے سے نمٹ سکتی ہے،امریکا کو قائدانہ کردار ادا کرنا ہوگا، پاک فوج، ٹی ٹی پی کے درمیان خونی تنازع میں 80 ہزار جانیں ضائع ہوئیں،حکومت میں داخلے پر پابندی صرف سابقہ حکومت کے اراکین پر لاگو کی گئی ہے جو بدعنوانی میں ملوث تھی، طالبان کو وقت دیا جانا چاہیے،ٹی ٹی پی 50 گروپس پر مشتمل ہے ،وہ ان عناصر سے صلح کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو بات چیت کیلئے تیار ہیں،بھارت کی حکومت مکمل نسل پرست ہے ، کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان متنازعہ علاقہ ہے، کشمیریوں کوفیصلہ کرنے دیا جائے۔برطانوی آن لائن خبر رساں ادارے مڈل ایسٹ آئی کو انٹرویو دیتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ پاکستان کیلئے یہ بہت ضروری ہے کہ واشنگٹن اس چیلنج کو پورا کرے کیونکہ ملک، جہاں امریکا کی زیر قیادت دہشت گردی کے خلاف جنگ سے منسلک تنازع میں ہزاروں افراد ہلاک ہوئے ہیں، ایک مرتبہ پھر بھاری قیمت ادا کرے گا۔انہوں نے بتایا کہ یہ واقعی نازک وقت ہے اور امریکا کو خود کو اکٹھا کرنا ہوگا کیونکہ امریکا میں لوگ صدمے کی حالت میں ہیں۔انہوںنے کہاکہ وہ کسی طرح کی جمہوریت، قوم کی تعمیر یا آزاد خواتین کا تصور کر رہے تھے اور اچانک انہیں معلوم ہوا کہ طالبان واپس آگئے ہیں اس لیے ان میں بہت غصہ، صدمہ اور حیرت ہے، جب تک امریکا، قیادت نہیں کرے گا ہم پریشان ہیں کہ افغانستان میں افراتفری ہوگی اور ہم اس سے سب سے زیادہ متاثر ہوں گے‘۔عمران خان نے کہا کہ امریکا کے پاس افغانستان میں مستحکم حکومت کی حمایت کیلئے ہر ممکن کوشش کرنے کے علاوہ کوئی اور آپشن نہیں تھا کیونکہ طالبان ہی خطے میں داعش سے لڑنے کا واحد آپشن تھے۔افغانستان میں داعش کی علاقائی وابستگی، جسے اسلامک اسٹیٹ صوبہ خراسان کے نام سے جانا جاتا ہے، نے طالبان کے خلاف لڑائی کی ہے اور حالیہ مہلک حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے جن میں شمالی شہر قندوز میں اہل تشیع برادری سے منسلگ مسجد پر بمباری جس میں درجنوں افراد ہلاک ہوئے۔عمران خان نے کہا کہ دنیا کو افغانستان کے ساتھ مشغول ہونا چاہیے کیونکہ اگر وہ اسے تنہا کرتے ہیں تو طالبان میں سخت گیر لوگ بھی موجود ہیں اور یہ آسانی سے 2000 کے طالبان کے پاس واپس جا سکتا ہے اور یہ ایک تباہی ہو گی۔