نواز لیگ کے 36 رہنمائوں سے 210 ارب روپے کی ریکوری کا انکشاف
شیئر کریں
وزیراعظم کے مشیر احتساب و داخلہ بیرسٹر شہزاد اکبر نے کہا ہے سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کی سیاست کے 2 جز ہیں، ایک پیسہ جس نے چھانگا مانگا کلچر متعارف کروایا اور دوسرا جز سیاسی سرپرستی ہے کہ ایک خاص طبقہ اعلی عہدے پر فائز ہو جو کسی خدمت کے لیے نہیں بلکہ لوٹ مار کے لیے سیاست میں آتا ہے۔اسلام آباد میں پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ میں پریس فکانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مجموعی طور پر اس تعریف کو دیکھا جائے تو یہ ایک مافیا کی تعریف ہے اور اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ سپریم کورٹ نے ان کے لیے سیسیلین مافیا کا لفظ استعمال کیا تھا، یہ وہ مافیا ہی ہے جس نے سیاست میں پیسے اور سیاسی سرپرستی کا آغاز کیا اور آج بھی ہم اسے بھگت رہے ہیں۔اس کی تازہ ترین مثال لاہور میں دیکھی گئی کہ جب ان کی صاحبزادی ایک ایسے ہی سیاسی سرپرستی میں پلے ہوئے مافیا کے گھر پر کھڑے ہو کر حکومتی کارندوں اور ریاست کی رٹ کو للکار رہی تھیں اور ثابت کررہی تھیں کہ ہم نظریات کی سیاست نہیں کریں گے اور اسی لوٹ کھسوٹ کی سیات کو جاری رکھیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن یہ تصویر کشی کرنے کی کوشش کررہی کہ انہیں سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے، یہ رونا دھونا بنیادی طور پر اپنے تحفظ کے لیے کیا جارہا ہے اس کا کوئی اور مقصد نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ گذشتہ ڈھائی سال میں صرف پنجاب سے 210 ارب روپے سے زائد کی ریکوری ہوئی جس میں سے 36 لوگوں کے نام اور تفصیلات بتا رہا ہوں اور ان تمام سیاسی افراد کا تعلق مسلم لیگ (ن)سے ہے،36 شیڈز آف پولیٹیکل کرپشن کے عنوان سے ایک دستاویز فراہم کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس میں ریاستی وسائل کا بے دریغ استعمال یا سرکاری زمینوں پر کیے گئے قبضوں کی تفصیلات ہیں جبکہ رشوت اور دیگر لوٹ کھسوٹ الگ معاملہ ہے۔انہوںنے کہا کہ ان چیزوں کے سرغنہ راولپنڈی کے کھوکھر برادران ہیں جن پر صرف قبضے کے الزام میں 3 مقدمات درج ہیں۔انہوں نے بتایا کہ کھوکھر برادرا ن نے شیخوپورہ میں ایک ہزار 25 کنال، 7 کروڑ روپے مالیت کی ریاستی زمین پر قبضہ کیا، ان کے عالیشان محل میں نجی لوگوں کی زمینوں کے علاوہ 45 کنال سرکاری زمین پر بھی قبضہ تھا جسے ریونیو ڈیپارٹمنٹ سے ثابت کرنے کے بعد واگزار کرالیا جس مالیت ڈیڑھ ارب روپے ہے اور 2 ماہ قبل ان سے 3 ارب روپے مالیت کی 80 کنال 4 مرلے زمین بھی واگزار کرائی گئی جسے انہوں نے اپنے فرنٹ مینوں کے نام پر رکھا ہوا تھا ۔مشیر احتساب نے بتایا کہ خرم دستگیر کے خاندان نے جی ٹی روڈ پر سوا 9 کروڑ روپے مالیت کی زمین پر سی این جی اسٹیشن قائم کررکھا تھا جہاں اب ایک عوامی پارک بنا دیا گیا، آج بھی انہوں نے 3 کروڑ 70 لاکھ روپے تاوان کی مد میں دینے ہیں جس پر ان کے خلاف ایف آئی آر درج ہے اور قانونی کارروائی جاری ہے۔اسی طرح خرم دستگیر ایک اور ایک کنال رقبے کی سرکاری کمرشل زمین ہر قبضہ کیا تھا جس کی مالیت 6 کروڑ روپے ہے اور وہ ان سے واگزار کرالی گئی، مجموعی طور پر ساڑھے 5 کروڑ روپے تاوان کی مد میں آنے سے برآمد کرانا ہے۔انہوں نے کہا کہ سینیٹر چودھری تنویر سے 7 ارب روپے کی بے نامی واگزار کروائی گئی ،اس کے علاوہ راولپنڈی میں انہوں نے ایک ارب روپے کی 27 کنال کی سرکاری زمین نجی سکول کو کرائے پر دے رکھی تھی جس کا 20-25 لاکھ روپے کرایہ بھی وصول کررہے تھے، وہ بھی واگزار کرالی گئی۔انہوں نے کہا کہ دانیال عزیز کے والد کے نام پر 24 سو کنال سرکاری زمین تھی جو واگزار کرلی گئی اور اس کی مالیت ڈھائی ارب روپے تھی جبکہ ابھی بھی انہوں نے 4 کروڑ 80 روپے کرائے کی مد میں ادا کرنا ہے۔انہوں نے کہا کہ جاوید لطیف نے میاں فلور مل میں 8 کنال 2 مرلے سرکاری زمین دبائی ہوئی تھی جو واگزار کرالی گئی، شیخوپورہ میں غیر قانونی بس اڈہ بنایا ہوا تھا جسے ختم کرایا گیا، 30 کنال سرکاری زمین میاں پیپر مل اور بوہر مل میں قبضہ کر کے شامل کی گئی تھی اسے بھی واگزار کرالیا گیا، ہائی وے پر ان کا ایک پلازہ بھی بنا ہوا جس پر عدالتی حکم امتناع ہے اور کارروائی جاری ہے، عابد شیر علی سے جھنگ روڈ پر 2 ارب روپے کی سرکاری زمین واگزار کرائی گئی جو اسے آگے فروخت کررہے تھے۔انہوں نے کہا کہ اس فہرست میں جاوید ہاشمی کے داماد بھی شامل ہیں جن سے اوقاف کی 7 ایکڑ زرعی زمین واگزار کرائی گئی۔انہوں نے بتایا کہ مائزہ حمید کے شوہر نے محکمہ آب پاشی کی 70 ایکڑ زمین پر 2015 سے قبضہ کررکھا تھا جس کی مالیت 10 کروڑ روپے سے زائد ہے اور واگزار کرائی جارہی ہے۔ یہ خاصی طویل فہرست ہے لیکن ابھی صرف 36 افراد کے نام شیئر کیے گئے ہیں، جن سے 24 ارب روپے کی ریکوری ہوئی اور 8 ہزار 85 ایکڑ زمین واگزار کروا کر قومی خزانے میں جمع کروادی گئی، حکومت کا مقصد ہے کہ قبضہ کیے گئے سرکاری وسائل واپس لیے جائیں اور عوامی فلاح کے کام کیے جائیں۔