ملک بھر میں لاک ڈاؤن میں توسیع یا نرمی سے متعلق فیصلہ آج کیا جائیگا
شیئر کریں
قومی رابطہ کمیٹی کا اجلاس (آج) منگل کو دوبارہ طلب کرلیا گیا ہے جس میں لاک ڈاؤن میں توسیع یا نرمی سے متعلق فیصلہ کیا جائیگا۔ پیر کو وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت قومی رابطہ کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ، وفاقی وزرائ، عسکری اور سول اداروں کے اعلیٰ حکام سمیت چیئرمین این ڈی ایم اے نے شرکت کی۔اجلاس میں کمانڈ سینٹر کی جانب سے کورونا کی موجودہ صورتحال کے اعداد و شمار سے آگاہ کیا گیا جبکہ کورونا وائرس کی موجودہ صورتحال، صوبائی سطح پر اقدامات اور ریلیف پیکجز پر عمل درآمد کا جائزہ بھی لیا گیا۔ وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت قومی رابطہ کمیٹی کے ہونے والے اجلاس میں وفاق اور صوبوں نے لاک ڈاؤن سے متعلق یکساں پالیسی پر اتفاق کیا۔ دوسری جانب وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر نے لاک ڈاؤن کو ختم کرنے کے لیے ٹیسٹ کرنے کی صلاحیت بڑھانے کو اہم قرار دیتے ہوئے کہا کہ بندشیں ختم کرنے کے حوالے سے فیصلہ قومی رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں ہوگا۔وزیراعظم عمران خان کی سربراہی میں کورونا وائرس سے متعلق قومی رابطہ کمیٹی (این سی سی) کے اجلاس کے بعد معاون خصوصی ڈاکٹر ظفر کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے اسد عمر نے کہا کہ (آج) منگل کو نیشنل کمانڈ سسٹم کا ایک اجلاس ہوگا جس میں تجاویز پر غور کیا جائے گا’۔اسد عمر نے کہا کہ نیشنل کمانڈ سینٹر کے اجلاس کے بعد کل دوپہر کو وزیراعظم کی صدارت میں این سی سی کا اجلاس ہوگا جس میں فیصلے کیے جائیں گے کہ 15 تاریخ سے آگے کیا کرنا ہے ۔انہوںنے کہا کہ اس اجلاس میں معیشت سے جڑے معاملات، آمد و رفت کے ذرائع اور صحت سے جڑے معاملات پر غور کیا جارہا ہے اور ان تمام چیزوں کو دیکھتے ہوئے مربوط انداز میں فیصلے کیے جائیں گے ۔انہوں نے کہا کہ این ڈی ایم اے کے چیئرمین نے اجلاس کو ٹیسٹ کٹس اور کورونا کے علاج اور دفاع کے لیے ضروری اشیا کی فراہمی کے حوالے سے آگاہ کیا جس پر صوبوں نے ان کا شکریہ بھی ادا کیا۔اسد عمر نے کہاکہ کورونا کے دفاع میں ذمہ داری صرف حکومت کی نہیں بلکہ پوری قوم کی ہے ، پابندیوں پر 100 فیصد عمل در آمد نہیں کیا گیا لیکن بحیثیت مجموعی پاکستانی قوم نے ذمہ داری کا مظاہرہ کیا۔انہوںنے کہاکہ اسی وجہ سے ہمارے ہاں نتائج بھی آئے ہیں جس دنیا میں خصوصی طور پر ترقی یافتہ ممالک میں کورونا جس تیزی سے پھیلا اور اموات ہوئی ہیں، اللہ کے فضل سے ہم اس خراب صورت حال کے اندر نہیں آئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس کی ایک وجہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے اقدامات بھی ہیں اور پاکستانی قوم کی جانب سے ذمہ داری کا مظاہرہ بھی ہے ۔اسد عمر نے کہاکہ کاروباری افراد کہہ رہے ہیں جو حفاظتی اقدامات کرنے ہیں ہمیں بتائیں تاکہ ہم اپنا کاروبار چلائیں اور عمومی طور پر ہم اس سے اتفاق بھی کرتے ہیں تاہم (آج) منگل کواس حوالے سے صوبوں سے مشاورت سے فیصلے کیے جائیں گے ۔انہوںنے کہاکہ اس کے ساتھ ساتھ کاروبار کرنے والے مالکان پر بھی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کیونکہ آپ کاروبار کرنا چاہتے ہیں جو آپ کا حق ہے لیکن ذمہ داری کے ساتھ کرنا ہے کیونکہ جو لوگ کام کرنے آتے ہیں ان کو اجرت کے ساتھ صحت کا خیال رکھنا بھی آپ کی ذمہ داری بن جاتی ہے ۔کاروبار کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہماری استدعا بھی ہے اور غور بھی ہورہا ہے کہ اس حوالے سے کوئی قانون بنانے کی ضرورت پڑی تو قانون بھی بنایا جائے تاکہ جو کاروبار چلا رہے ہیں ان کی ذمہ داری ہوگی کہ کام کے طریقہ کار میں صحت کے حوالے سے تدابیر بتائی جائیں گی اور حکومت جو لائحہ عمل دے گی اس کو وہ اپنائیں گے تاکہ جو لوگ وہاں کام کرنے آئیں گے ان کی صحت کی حفاظت کی جاسکے اور ایسا نہ ہو کہ کاروبار تو چلیں لیکن ان مزدوروں اور ملازمین کی صحت کے لیے خطرہ پیدا ہو۔انہوں نے کہا کہ بیرون ملک پاکستان کے فیصلوں کی پذیرائی ہورہی ہے تاہم اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کہیں غلطی نہیں ہوئی ہو، مجھ سے بھی کوتاہی ہوئی ہوگی لیکن اس سے اچھی خلوص کے ساتھ کام کرنے والی ٹیم نہیں ہوگی۔انہوںنے کہاکہ وبا پھیل رہی ہے لیکن آپ سب کچھ بند کرکے وبا کو پھیلنے سے روکنے کی کوشش کریں گے تو اس کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑتی ہے خاص طور پر جن ممالک میں غربت ہے اور تھوڑے عرصے کے لیے آمدنی کی کمی سے لوگوں کے مشکلات ہوں تو وہاں پر یہ نہیں چلایا جاسکتا ہے ۔اسد عمر نے کہا کہ یہ بندشیں اس لیے ہیں کہ یہ وائرس ایک آدمی سے دوسرے آدمی کو منتقل ہوسکتا ہے لیکن ملک سارے لوگوں کو ایک کمرے میں بند کردیں تو دو ہفتوں میں وبا ختم ہوگی لیکن ظاہر ہے یہ ممکن نہیں ہے اس لیے کوشش کی گئی ہے رابطے کم ہوں اور کھیلوں کے میدان اور شاپنگ مالز کو بند رکھا جائے ۔انہوں نے کہا کہ جن لوگوں میں وائرس ہے اور ہم ان سے کہیں کہ ایسی جگہ بیٹھ جائیں جہاں زندگی کی ضروریات پوری ہوں وہاں بیٹھ جائیں تو مجموعی طور پر لاک ڈاؤن اور بندشیں لگا کر جو کررہے ہیں وہی کم نقصان کے ساتھ کرسکتے ہیں جس کے لیے ٹیسٹ کرنے کی صلاحیت بڑھانا ہوگا اور اس پر زور دے رہے ہیں۔وفاقی وزیر نے کہا کہ ٹریکنگ پر بھی اچھا کام ہورہا ہے اس حوالے سے آگاہ کیا جائے گا۔انہوںنے کہا کہ اس حوالے سے پائلٹ پروجیکٹ کی بات کی تھی وہ تمام صوبوں میں شروع کردیا گیا ہے جس کے نتائج اگلے 2 دن کے اندر آئیں گے اور قرنطینہ کے حوالے سے بھی کام کررہے ہیں۔اس موقع پر ڈاکٹر ظفر مرزا نے کہا کہ پائلٹ پروجیکٹ کے ذریعے 4 صوبوں اور اسلام آباد میں کام کررہے ہیں۔انہوںنے کہاکہ مقامی سطح پر وبا پھیلنے کی شرح اب 50 فیصد سے بڑھ گئی ہے جس کو روکنے کے لیے اقدامات کیے جارہے ہیں اور اس کے لیے ٹیسٹنگ بڑھانا ہوگا اور اس کا دائرہ وسیع کرنا ہے ۔ڈاکٹر ظفر مرزا نے کہا کہ اس وقت ملک بھر میں 27 لیبارٹریز ٹیسٹ کررہی ہیں اور اس میں مزید 7 لیبارٹریز کا اضافہ کیا جارہا جس کے بعد یہ تعداد 34 ہوجائے گی۔انہوں نے کہا کہ ہم نے ٹیسٹ چند سو سے شروع کیے تھے اور روزانہ 3 ہزار سے زائد کر چکے ہیں اور اس حکمت عملی کو آگے بڑھاتے ہوئے مہینے کے آخر تک 20 ہزار سے 25 ٹیسٹ کرنے کا ہدف بنایا ہے ۔ٹیسٹ کٹس کے حوالے سے انہوںنے کہاکہ چیئرمین این ڈی ایم اے نے این سی سی کے اجلاس میں بتایا کہ اس وقت ملک میں 6 لاکھ ٹیسٹ کرنے کی صلاحیت موجود ہے جو 15 اپریل تک ایک ملین سے بڑھ جائے گی اور آنے والے دنوں میں ٹیسٹ کی کمی نہیں ہوگی۔