میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
کمانڈر سیف گارڈ ’ ڈرٹو‘ سے زیادہ خطرناک نکلا

کمانڈر سیف گارڈ ’ ڈرٹو‘ سے زیادہ خطرناک نکلا

ویب ڈیسک
جمعه, ۸ فروری ۲۰۱۹

شیئر کریں

(رپورٹ: باسط علی) ہم بچپن سے ہی ایک بات سنتے آئے ہیں کہ کھانا کھانے سے پہلے صابن سے اچھی طرح ہاتھ دھونے چاہیے، حوائجِ ضروریہ سے فارغ ہونے کے بعد صابن سے اچھی طرح ہاتھ دھونے چاہیے۔ یہ بات بچپن سے ہی ہم سب کے ذہنوں میں اس طرح بٹھا دی گئی تھی کہ ہم نے صحت مندی کو صابن سے ہاتھ دھونے سے مشروط کردیا ۔ ہمارے بزرگوں کی حد تک یہ بات سو فیصد درست تھی کہ حفظان صحت کے لیے صابن سے بہتر کوئی شے نہیں ہے۔ نوے کی دہائی تک پاکستان میں نہانے کے لیے لوگ کاربالک صابن ( لائف بوائے ) استعمال کرتے تھے۔ لیکن پھر مادیت پرستی کے بڑھتے ہوئے رجحان اور اشتہار کاری کی نئی جہتوں نے مصنوعات کی ورائٹی کو بڑھا دیا۔ پہلے صرف ایک کمپنی ایک ہی نام سے ٹوتھ پیسٹ بنایا کرتی تھی تو ایک ہی نام سے صابن اور سرف ، لیکن اختراع کے نام پر پیدا ہونے ولی مسابقت نے اشیائے ضروریہ بنانے والی کمپنیوں کو ’کاروباری اخلاقیات‘ بالائے طاق رکھنے پر مجبور کردیا اور انہوں نے اپنی مصنوعات میں نت نئے کیمیکل متعارف کرانا شروع کردیے حالا نکہ وہ ان کیمیکلز کے نقصان دہ اثرات سے بہ خوبی واقف تھے۔


سیف گارڈ، لائف بوائے اور ڈیٹول کا استعمال انتہائی خطرناک

ہسپتالوں میں جراثیم کش کے طور پر استعمال ہونے والے کیمیکل سے 1990میں اینٹی بیکٹریل صابن کو ایجاد کیاگیا یوں اربوں ڈالر کی نئی صنعت پیدا ہوئی
بیکٹریا سے ہر جگہ صاف کرنے کے لیے ہینڈ جل، کٹنگ بورڈ اور میٹریس پیڈز میں بھی مضر کیمیکل کا وسیع پیمانے پر استعمال ، اربوں ڈالر کی صنعت انسانوں کی قاتل نکلی


ایک بین الاقوامی کمپنی پراکٹر اینڈ گیمبل ( پی اینڈ جی )نے 1991ء میں اپنے شیمپو ’ ہیڈ اینڈ شولڈر‘(اس شیمپو میں استعمال ہونے والے کیمیکلز کے انسانوں پر مرتب ہونے والے مضر اثرات کی تفصیلات ان ہی صفحات پر شائع کی جائے گی) سے پاکستان میں آپریشن کا آغاز کیا۔ پراکٹر اینڈ گیمبل نے1995ء میں اپنا ایک ’ اینٹی بیکٹریل‘ صابن پاکستان میں اس دعوے کے ساتھ متعارف کروایا کہ اس صابن کا استعمال ہی صحت کا ضامن ہے۔ پراکٹر اینڈ گیمبل نے ایک نئی مارکیٹنگ حکمت عملی استعمال کرتے ہوئے ’کمانڈر سیف گارڈ‘ کے نام سے پاکستان کی پہلی سب سے بڑی اینی میٹڈ سپر ہیرو سیریز کا آغاز کیا۔ اس سیریز کے ہیرو کیپٹن اسکیوڈو کو ’سیف گارڈ صابن‘ کا نمائندہ دکھا یا گیا جو بچوں میں بیماریاں پیدا کرنے والے جراثیم کے خلاف جنگ کرتا ہے جب کہ جراثیم کا سردار ’ڈرٹو‘ کو دکھا یا گیا۔


اینٹی بیکٹریل کے نام پر فروخت ہونے والے مشہور برانڈ کے صابن سیف گارڈ، لائف بوائے اور ڈیٹول میں ٹرائی کلوسین اور ٹرائی کلوکاربن نامی کیمیکل کے استعمال کا انکشاف


اردو زبان میں بننے والی یہ کارٹون سیریز پاکستان میں بچوں کی مقبول ترین سیریز میں سے ایک ہے۔ اس کمپنی نے یہاں تک تو سارے معاملے کو اچھی طرح ڈیل کیا، لیکن کاروباری اخلاقیات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے انہوں نے ملک بھر کے بچوں اور بڑوں کو غیر محسوس طریقے سے جلدی امراض میں مبتلا کردیا۔ پراکٹر اینڈ گیمبل کی حریف کمپنی ’یونی لیور پاکستان‘ اس ڈور میں کیوں پیچھے رہتی انہوں نے بھی اپنے اچھے خاصے صابن ’ لائف بوائے‘ کو ’ اینٹی بیکٹریل‘ کے نام پر آلودہ کردیا۔ یونی لیور اور پراکٹر اینڈ گیمبل سے مسابقت کی جنگ میں جراثیم کشن دوا ڈیٹول بنانے والی کمپنی Reckitt Benckiserی ’ اینٹی بیکٹریل‘ صابن بنانے کی جنگ میں کود پڑی۔ بیکٹریا کا 99.9فی صد خاتمے کا دعویٰ کرنے والے اینٹی بیکٹریل صابن ’ سیف گارڈ‘،’ لائف بوائے‘ اور ’ ڈیٹول‘ انسانی صحت خصوصا بچوں کے لیے کس قدر نقصان دہ ہے اس کا اندازاگزشتہ سال امریکا کی فوڈ اینڈ ڈرگ اینڈمنسٹریشن (ایف ڈی اے) کی رپورٹ سے لگایا جاسکتا ہے جس کے مطابق اینٹی بیکٹریل کے نام پر فروخت ہونے والے مشہور برانڈ کے صابن( سیف گارڈ، لائف بوائے اور ڈیٹول) میں ٹرائی کلوسین اور ٹرائی کلوکاربن نامی کیمیکل موثرجُز کے طور پر استعمال ہورہا ہے جو کہ انسانو ں خصوصا بچوں اور ماحول کو خطرات سے دوچار کر رہا ہے۔


ٹرائی کلوسین اور ٹرائی کلوکاربن جیسے موثر اجزا پر مشتمل ہینڈ واش اور صابن کے استعمال سے صارفین میں ہارمون میں بے ترتیبی، اچھے بیکٹریا کے خلاف مزاحمت اور جگر کے کینسر جیسے موذی امراض میں مبتلا ہونے کے خطرات میں اضافہ ہورہاہے۔ اینٹی بیکٹریل صابن اور متعلقہ مصنوعات بنانے والی کمپنیوں کو ان اجزا کے ساتھ بننے والی مصنوعات کو مارکیٹ کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

( ایف ڈی اے کی تحقیقاتی رپورٹ میں چشم کشا انکشافات)


ہسپتالوں میں جراثیم کش کے طور پر استعمال ہونے والے اس کیمیکل کو کثیر القومی کمپنیوں نے زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں 1990میں اینٹی بیکٹریل صابن کی اختراع پیش کی جس سے تقریباً ایک ارب ڈالر کی ایک نئی صنعت پیدا ہوئی۔ زیادہ منافع کی خاطر پُرفریب اشتہار کاری کے ذریعے بیکٹریا کو انسان کا ’ سب سے بڑا دشمن ‘ قرار دیتے ہوئے ہر جگہ کو بیکٹریا سے صاف کرنے کے لیے ہینڈ جل، کٹنگ بورڈ اور میٹریس پیڈز میں بھی اس مضر کیمیکل کا وسیع پیمانے پر استعمال شروع کردیا گیا۔
واضح رہے کہ ایف ڈی اے نے1972 ء میں ٹرائی کلوسین کے گھریلو استعمال کی محدود پیمانے پر استعمال کی اجازت دیتے ہوئے اس کے لیے ایک گائیڈلائن متعین کی تھی لیکن اس کا حتمی مسودہ گزشتہ سال دسمبر میں شائع ہوا۔ ایف ڈی اے کے ستمبر2016ء کو جاری ہونے والے بیان کے مطابق ٹرائی کلوسین اور ٹرائی کلوکاربن جیسے موثر اجزاء پر مشتمل ہینڈ واش اور صابن کے استعمال سے صارفین میں ہارمون میں بے ترتیبی، اچھے بیکٹریا کے خلاف مزاحمت اور جگر کے کینسر جیسے موذی امراض میں مبتلا ہونے کے خطرات میں اضافہ ہورہاہے۔ بیان میں اینٹی بیکٹریل صابن اور متعلقہ مصنوعات بنانے والی کمپنیوں کو کہا گیا ہے کہ ان اجزا ء کے ساتھ بننے والی مصنوعات کو مارکیٹ کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ کیوں کہ تیار کنندگان اپنے اس دعوے کوثابت کرنے میں ناکام رہے کہ اینٹی بیکٹریل صابن عام صابن اور پانی سے زیادہ بہتر طریقے سے بیماریوں اور انفیکشن سے تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ گرچہ کچھ کمپنیوں نے عوامی دباؤ اور حفاظتی اقدامات کی بنا پر اپنی مصنوعات کے لیبل پر درج کیمیکلز نکالنا شروع کردیے ہیں تاہم ان کی تعداد بہت کم ہے۔ اس سے قبل ایف ڈی اے نے اینٹی بیکٹریل گھریلو مصنوعات بنانے والی کمپنیوں سے کیمیکلزہارمونز میں بے ترتیبی کے ساتھ ساتھ بیکٹریا کے خلاف مزاحمت پیدا کرنے کا سبب بننے والے کیمیکلزٹرائی کلوسین اور ٹرائی کلوکاربن کے محفوظ ہونے کے شواہد طلب کیے تھے کہ اگر یہ کمپنیاں ان کیمیکلز کو موثر جُز کے طور پر استعمال کرنا چاہتی ہیں تو انہیں اس بات کو ثابت کرنا ہوگا کہ ان اجزا ء پر مشتمل مصنوعات(صابن، ہینڈ واش) انفیکشن ختم کرنے میں عام صابن کی نسبت زیادہ بہتر کام کر رہے ہیں۔ تاہم یہ کمپنیاں ایف ڈی اے کی جانب سے فراہم کی گئی اینٹی بیکٹریل مصنوعات میں شامل 19 موثر اجزا کے محفوظ ہونے کو ثابت کرنے میں ناکام رہیں۔ کچھ کمپنیوں نے ڈیٹا بھیجا بھی لیکن وہ ان کے استعمال کو محفوظ ثابت کرنے کے لیے ناکافی تھا۔


یف ڈی اے کے مرکز برائے ڈرگز اور تحقیق کے ڈائریکٹر ڈاکٹر جینیٹ وُڈ کُک کے مطابق صارفین سمجھتے ہیں کہ اینٹی بیکٹریل صابن سے ہاتھ دھونا جراثیم سے موثر تحفظ فراہم کرتا ہے لیکن ہمیں ایسے کوئی سائنسی شواہد نہیں ملے کہ اینٹی بیکٹریل صابن عام صابن اور پانی سے زیادہ بہتر ہیں۔ ہمارے اعداد و شمار اشارہ دیتے ہیں کہ ٹرائی کلوسین، ٹرائی کلوروکاربن پر مشتمل اینٹی بیکٹریل صابن کاطویل المدتی استعمال انسانی صحت کے لیے زیادہ نقصان دہ ہے۔


ایف ڈی اے کے مرکز برائے ڈرگز اور تحقیق کے ڈائریکٹر ڈاکٹر جینیٹ وُڈ کُک کا کہنا ہے کہ : صارفین یہ سمجھتے ہیں کہ اینٹی بیکٹریل صابن سے ہاتھ دھونا انہیں جراثیم سے موثر تحفظ فراہم کرتا ہے لیکن ہمیں اب تک ایسے کوئی سائنسی شواہد نہیں ملے ہیں کہ یہ (اینٹی بیکٹریل صابن) عام صابن اور پانی سے زیادہ بہتر ہیں۔ جب کہ ہمارے کچھ اعداد و شمار اس بات کا اشارہ دیتے ہیں کہ ان اجزا ( ٹرائی کلوسین، ٹرائی کلوروکاربن) پر مشتمل اینٹی بیکٹریل صابن کاطویل المدتی استعمال انسانی صحت کے لیے زیادہ نقصان دہ ہے۔ اور کمپنیوں کو ایک سال کے عرصے کے اندر اندر درج بالا کیمیکلز پر مشتمل مصنوعات کو مارکیٹ سے اُٹھا کر موثر اجزا میں تبدیلی کے ساتھ ری فارمولیٹ کرنا ہوگا۔ ایف ڈی اے کی سینٹر فار ڈرگ ایویلیو ایشن اینڈ ریسرچ(سی ڈی ای آر) کی ڈائریکٹر جینیٹ ووڈ کوک کا کہنا ہے کہ ’’عموماً ایک صارف اینٹی بیکٹریل صابن سے ہاتھ دھو کر یہ سمجھتا ہے کہ اس نے جراثیم سے چھٹکارا پا لیا ہے، لیکن اب تک کی تحقیق سے ہمیں کسی قسم کے کوئی سائنسی شواہد نہیں ملے کہ اینٹی بیکٹریل صابن عام صابن اور پانی سے زیادہ موثر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حقیقت تو یہ ہے کہ عام صابن کے بجائے اینٹی بیکٹریل صابن میں موجود دافع جراثیم اجزا کے طویل المدتی ایکسپوزر سے انسانوں کو زیادہ خطرات لاحق ہیں۔‘ ‘


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں