چینی و امریکی صدور کی پیار محبت کی باتیں .... کیا ٹرمپ چین کےخلاف دعوے بھلانے پر آمادہ ہیں ؟؟
شیئر کریں
شی جن پنگ ‘ڈونلڈ ٹرمپ سے مذاکرات کے لیے تیار، تجارتی جنگ ہوئی تونقصان امریکی صنعتوں کو ہوگا
انتخابی بیانات کے مطابق نومنتخب امریکی صدر چینی مصنوعات پر 45 فیصد ڈیوٹی عائد کرنا چاہتے ہیں
شہلا حیات
اب جبکہ امریکا کے نومنتخب صدر اپنے عہدے کاحلف اٹھانے اور ایوان صدر میں منتقلی کی منصوبہ بندی میں مصروف ہیں، پوری دنیا میں ان کے دور صدارت میںمختلف ممالک کے ساتھ ان کے تعلقات کی نوعیت زیر بحث ہے، ڈونلڈ ٹرمپ کی غیر متوقع کامیابی نے جہاں امریکی عوام کو ششدر کردیاہے وہیںپوری دنیا اب امریکا کے ساتھ اپنے تعلقات کی متوقع نئی جہتوں پر غور کرنے اور اس حوالے سے صف بندی میں مصروف ہے۔
اب تک اس حوالے سے ڈونلڈ ٹرمپ کی مختلف مقامات پر تقریروں اور بیانات کی بنیاد پر ڈونلڈ ٹرمپ کے جو خیالات سامنے آئے ہیں ان سے اندازہ ہوتاہے کہ یورپی ممالک اور چین کو خاص طور پر امریکا کے ساتھ اپنے سیاسی ،فوجی اور تجارتی تعلقات کو از سرنو استوار کرنا پڑے گا،خاص طورپر چین امریکا تجارتی تعلقات پر خاصے منفی اثرات رونما ہونے کے امکانات کو نظر انداز نہیں کیاجاسکتا۔ کیونکہ ڈونلڈ ٹرمپ اپنی انتخابی مہم کے دوران عام جلسوں کے علاوہ نجی محفلوں میں بھی امریکا چین تجارتی تعلقات پر اپنے عدم اطمینان کا اظہار کرتے رہے ہیں،ڈونلڈ ٹرمپ نہ صرف یہ کہ اپنی انتخابی مہم کے دوران چین کے خلاف بیانات دیتے رہے ہیں بلکہ اخبار گلوبل ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ امریکا میں درآمد کی جانے والی چینی مصنوعات پر 45 فیصد ڈیوٹی عائد کرنا چاہتے ہیں،صدارتی مہم میں وہ چین پر یوآن کی قدر میں مداخلت کرنے اور تجارتی چوری کا الزام عائد کرچکے ہیں۔ منتخب ہونے سے قبل مسٹر ٹرمپ نے ایشیا کی بڑی معیشت چین کو امریکا کا دشمن بھی قرار دیا تھا اور الزام لگایا تھا کہ چین نے مصنوعی طور پر اپنی کرنسی کی قیمت کم رکھی ہے تاکہ وہ اپنی برآمدات کو تقویت پہنچا سکے۔
چین کے حوالے سے ڈونلڈ ٹرمپ کے ان بیانات کی وجہ سے ان کی کامیابی کے بعد چین کے ساتھ کاروبار کرنے والے تجارتی ادارے خاصی گومگو کاشکار نظر آتے ہیں ،اور امریکی صنعت کاروں کے ایک گروپ نے تو ڈونلڈ ٹرمپ کو باقاعدہ وارننگ دی ہے کہ وہ چین کے ساتھ تجارتی جنگ شروع کرنے کی احمقانہ غلطی نہ کریں ورنہ امریکی صنعتیں بند ہوجائیں گی،جس سے بیروزگاری میں مزید اضافہ ہوگا اوراس کی وجہ سے امریکی قوم انہیں تنقید کا نشانہ بنائے گی۔
ادھر ایک دوسری اطلاع کے مطابق چین اور امریکا کے نو منتخب صد ر کے درمیان پہلی مرتبہ رابطہ ہوا ہے اور دونوں ملکوں کے رہنماﺅں نے ایک دوسرے کے لیے خیر سگالی کے جذبات کااظہار کیاہے ۔ چین کے سرکاری ٹیلی ویژن سی سی ٹی وی کے مطابق پیر کو صدر شی جن پنگ نے ٹیلیفون پر نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے بات چیت کی اور کہا کہ دنیا کی دو بڑی معیشتوں کو ایک دوسرے کے تعاون کی ضرورت ہے اور یہ کہ بہت سی چیزوں میں تعاون ہو سکتا ہے۔خبروں کے مطابق چین کے صدر شی جن پنگ اور نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس بات پر رضامندی ظاہر کی ہے کہ وہ چین اور امریکا کے باہمی تعلقات پر مذاکرات کے لیے جلد ہی ملاقات کریں گے۔سی سی ٹی وی (چائنا ٹی وی )کے مطابق مسٹر ٹرمپ نے چین کو ایک بڑا اور اہم ملک قرار دیا اور اس کے ساتھ کام کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ ان کے خیال میں چین اور امریکا کے بہتر تعلقات دونوں ممالک کے لیے سودمند ہیں ۔ٹیلی فونک گفتگو کے دوران دونوں رہنماﺅں نے بہت جلد ملاقات پر اتفاق کیا ہے۔چینی میڈیا کے مطابق نومنتخب امریکی صدر سے بات کرتے ہوئے چینی صدر نے ڈونلڈ ٹرمپ پر یہ واضح کیاکہ باہمی تعلقات بہتر بنانے کے لیے دونوں ملکوں کے پاس تعاون کے سوا کوئی آپشن نہیں جبکہ عالمی معاشی ترقی کو فروغ دینے کے لیے تعاون کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ٹرمپ نے چینی صدر سے کہا کہ وہ چین امریکا تعلقات مضبوط کرنے کے لیے ان کے ساتھ کام کرنے کے لیے پر عزم ہیں۔
چین اور امریکا کے درمیان مستقبل کے تعلقات کے حوالے سے تبصرہ کرتے ہوئے ایک چینی اخبار نے لکھا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے تجارتی جنگ شروع کی تواس کا نقصان امریکی صنعتوں کو ہوگا کیونکہ چین بھی امریکی جارحیت کے خلاف اقدامات کرے گااوربوئنگ کے آڈرز ایئر بس کو منتقل کردیئے جائیں گے۔ اخبار کے مطابق چین میں امریکی گاڑیوں اور آئی فون کی فروخت اثر انداز ہوگی جبکہ امریکی سویابین اور مکئی کی درآمد بند ہو جائے گی، حصول علم کے لئے امریکا جانے والے طالب علموں کی تعداد کم کردی جائے گی۔
سی سی ٹی وی کے مطابق صدر جن پنگ اورڈونلڈ ٹرمپ نے ‘قریبی تعلقات برقرار رکھنے، بہتر عملی تعلقات بنانے اور باہمی مفاد کے مسائل اور باہمی تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے جلد ممکنہ تاریخ پر مذاکرات کرنے کا عہد کیا ہے۔ خبروں کے مطابق چین کے سربراہ مملکت سے بات چیت کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ نے اس بات پر اتفاق کیا کہ امریکا اور چین ایک دوسرے کے روایتی حریف رہے ہیں تاہم دونوں میں تجارتی تعلقات بہتر ہیں۔مسٹر ٹرمپ نے قوت کے ساتھ امن قائم کرنے اور امریکی بحریہ کے لیے مضبوط بنانے کی پالیسی اپنانے کا عہد کیا ہے۔
انھوں نے یورپی یونین کے رکن ممالک کے ساتھ آزاد تجارتی معاہدے میں بھی ردوبدل کرنے کی ضرورت کااظہار کیا ہے ،تاہم تجزیہ کاروں کاکہناہے کہ مسٹر ٹرمپ نے اب تک دور دراز کے فضول کے مسائل میں اپنی عدم دلچسپی کا عندیہ دیا اور ٹرانس پیسفک پارٹنرشپ کے تحت آزاد تجارت کے معاہدے کو زیادہ اہمیت نہیں دی۔خیال رہے کہ اس مجوزہ معاہدے میں بہت سے ایشائی ممالک شامل ہیں اور اس سے وہاں امریکی اثرورسوخ میں اضافہ ہوگا لیکن امریکا میں روزگار کی کمی کے سبب مسٹر ٹرمپ نے اسے زیادہ اہمیت نہیں دی۔
ادھر اخباری رپورٹس کے مطابق نو منتخب امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ کی جیت کے بعد امریکا میں نفرتیں بڑھنے لگیں۔ٹریفک کی خلاف ورزی پر جرمانے کی بجائے پولیس اہلکار نے پاکستانی نژاد ڈرائیورکو دھمکی دی کہ’میں تم سے تمام چیزیں چھین لوں گا‘مذکورہ پاکستانی شخص سی این این کے صحافی ڈیوڈ گریگوری کاڈرائیورہے جو واقعے کے وقت کارمیں پچھلی نشست پرموجود تھے ،جنہوں نے یہ جملہ سنا بھی اوربعدمیں بتایا کہ پولیس آفیسر نے ڈارئیور کو یہ بھی دھمکی دی کہ ’ میں تمھارا سر بھی اتار لوں گا‘۔اس واقعے کو انٹر نیٹ پر شیئر کئے جانے کے بعدپولیس حکام اورمیئر نے امریکی صحافی سے رابطہ کیااور پاکستانی ڈرائیور سے ملاقات کی اور کہا کہ پولیس اہلکار کی شناخت کے لیے تفتیش شروع کردی گئی ہے۔
مختلف ممالک خاص طورپر چین کے ساتھ تجارتی تعلقات کے حوالے سے مذکورہ بالا رپورٹوں سے قطع نظر ڈونلڈ ٹرمپ کے انتہا پسندانہ خیالات نے امریکی محکمہ دفاع کے حکام کے علاوہ امریکی خفیہ ایجنسیوں کو بھی بوکھلا کر رکھ دیا ہے جس کااندازہ برطانوی خفیہ ایجنسی ایم ا?ئی سکس کے سابق سربراہ سر جان سیورز کے اس انتباہ سے لگایا جاسکتا ہے جس میں انھوںنے کہا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت میں دنیا میں تیسری عالمی جنگ کا خطرہ ہے۔سر جان سیورز نے کہا کہ اگر ٹرمپ کی انگلی ایٹم بم کے بٹن پر ہو گی اور کسی بین الاقوامی صورت حال میں ان کا ردعمل زیادہ ہو گیا تو جنگ بھی چھڑ سکتی ہے۔ایم آی سکس کے سابق سربراہ نے مزید کہا کہ ہم دیکھ چکے ہیں کہ جب ٹرمپ پر تنقید ہوتی ہے تو وہ بہت شدت سے ردعمل دیتے ہیں۔