یمن میں خانہ جنگی کے سبب شدید غذائی بحران ،بیماریوں میں اضافہ
شیئر کریں
ہیضے کی وبا پھوٹ پڑی ،اسہال سے ہزاروںمتاثر خوراک اور دواﺅں کی شدید قلت ،روزگار کے مواقع مسدود ہوکر رہ گئے
جنگ سے قبل 90فیصد غذائی اشیا کاانحصاردرآمد پر تھا،شہری بے یقینی کا شکار۔ملک قحط سالی کے قریب پہنچ چکا،اسٹیفن اوبرائن
صبا حیات نقوی
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی "اے ایف پی” کا کہنا ہے کہ سعودی دارالحکومت میں یمنی صدر کے حوالے کیے گئے مجوزہ منصوبے کو انھوں نے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔دریں اثنا حوثی باغیوں اور سعودی حمایت یافتہ سکیورٹی فورسز کے درمیان لڑائی جاری ہے۔
یمن میں حوثی باغی برسوںسے اپنے ساتھ حکومت کی طرف سے روا رکھے جانے والے امتیازی سلوک کی شکایت کرتے آرہے تھے اور 2014میں انھوں نے دارالحکومت صنعا پر قبضہ کر لیا اور ملک میں خانہ جنگی کی سی صورتحال پیدا ہوگئی۔مارچ 2015میں سعودی عرب نے یمنی حکومت کی حمایت میں فضائی کارروائیاں شروع کی تھیں ۔ اس تنازع کے دوران مارے جانے والوں کی تعداد دس ہزار سے کہیں زیادہ ہوگئی ہے۔
یمن میں جاری اس خانہ جنگی کی صورت حال کی وجہ سے یمن کے شہری گوناگوں مسائل اور مشکلات کاشکا رہوگئے ہیں ،ملک میں بنیادی سہولتوں کافقدان ہوگیا ہے ۔روزگار کے مواقع محدود بلکہ مسدود ہوکر رہ گئے ہیں،اور خوراک اور دواﺅں کی شدید قلت پیدا ہوگئی ہے ۔
غیر ملکی خبر ایجنسیوں کی فراہم کردہ رپورٹ اور غیر جانبدار ذرائع سے حاصل ہونے والی خبروں کے مطابق یمن طویل عرصے سے خانہ جنگی کی صورت حال کی وجہ سے شدید غذائی بحران کا شکار ہوگیا ہے جس کی وجہ سے ملک بھر میں 20 لاکھ سے زیادہ افراد خوراک کی کمی کا شکار ہیں، جن میں3لاکھ 70 ہزاربچے بھی شامل ہیں، جنھیں خوراک کی شدید قلت درپیش ہے۔
انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کام کرنے والے اقوام متحدہ کے ادارے کے سربراہ اسٹیفن اوبرائن نے گزشتہ دنوں یمن کی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے متنبہ کیا تھا کہ لڑائی کاشکار یمن ”قحط سالی کے دہانے سے ایک ہی قدم دور ہے“۔
اسٹیفن او برائن نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو بتایا کہ دو کروڑ 10 لاکھ سے زائد یمنی، یعنی آبادی کے 80 فی صد کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کسی نہ کسی قسم کی اعانت درکار ہے۔اوبرائن نے بحرین سے ٹیلی فون پر بریفنگ دی جہاں وہ 10 روزہ دورے پر پہنچے ہیں، جن میں کویت، قطر اور متحدہ عرب امارات شامل ہیں۔ انھوں نے گزشتہ ماہ کے اوائل میں یمن کا دورہ کیا تھا۔جبکہ رواں ہفتے انہوں نے عالمی ادارے کے سیکورٹی کونسل میں دیے گئے بیان میں بھی یمن کے شہریوں کی زبوں حالی کا تفصیل سے ذکر کیا۔
اسٹیفن اوبرائن کے بقول، ”پورے یمن میں 20 لاکھ سے زیادہ افراد خوراک کی کمی کا شکار ہیںجن میں3لاکھ 70 ہزاربچے بھی شامل ہیں، جنھیں خوراک کی شدید قلت درپیش ہے“اقوام متحدہ کے مختلف اداروں کی جانب سے مرتب کی جانے والی رپورٹ کے مطابق یمن کی موجودہ صورتحال اور اس تنازعے سے ایک سال قبل کا موازنہ کیا جائے تو یہ واضح نظر آتا ہے کہ اب یمن میں ایک سال قبل کے مقابلے میں قحط سالی کی صورت حال میں 65 فی صد اضافہ ہوا ہے۔
یمن میںگزشتہ سال لڑائی کے آغاز کے بعد سے اب تک غذائی اشیا کی قیمتیں 20 فی صد تک بڑھ چکی ہیں، جب کہ سعودی عرب کی جانب سے عائد کردہ بندش کی بنا پر ملک کو خوراک کی رسد کی فراہمی مشکل ہوگئی ہے، واضح رہے کہ یمن موجودہ تنازعے سے قبل اپنے عوام کی خوراک کی ضرورت پوری کرنے کیلئے غذائی اشیا کا 90 فی صد درآمد کر رہا تھا۔
اقوام متحدہ کے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کام کرنے والے ادارے کے سربراہ اسٹیفن اوبرائن کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے مشکل میں ڈالنے والا امر یہ ہے کہ غذائی قلت کے ساتھ ہی اب یمن کے متاثرہ علاقوں میں ہیضے کی ابتدا ہوچکی ہے،اور اسہال کی اس بیماری کے نتیجے میں ہلاکتیں واقع ہوئی ہیں اوراب تک 61 افراد اس کاشکار ہوکر لقمہ اجل بن چکے ہیںجب کہ 10 صوبوں میں اسہال میں مبتلا مریضوں کی تعداد بڑھ کر 1700 ہو چکی ہے۔او برائن نے بتایا کہ اقوام متحدہ اور انسانی ہمدردی کی بنا پر کام کرنے والے اس کے معاون ادارے ہیضہ کے امراض کے علاج کے 21 مراکز قائم کریں گے۔ لیکن، ساتھ ہی کہا ہے کہ مرض کے پھیلنے کی صورت میں اِن مراکز کی تعداد میں اضافہ کرنا پڑے گا۔